ابوبکر صابر
بچپن میں ہم اپنے ننھے ہاتھوں میں پرچم پکڑے ہوئے جھومتے اور نعرہ لگاتے کہ “اس پرچم کے سائے تلے، ہم ایک ہیں”۔
مگر آج میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا ہم کبھی ایک تھے؟یہاں ایک سے مراد اس سماج کی بات ہے جہاں لوگ رنگ و نسل، ذات پات، مذہب، جنس اور طبقے کے لحاظ سے ایک ہوں۔ جہاں کسی قسم کی تفریق نہ ہو، جہاں انسان کی قدر ہو، جہاں انسانیت سب سے بڑا مذہب اور طبقہ ہو، جہاں سب کے لیے ایک قانون ہو۔
وطن عزیز میں ہم نعروں کی حد تک تو شاید کہہ سکتے کہ ہم ایک ہیں مگر، حقیقت میں نہیں۔ ہمارے ہاں رنگ و نسل، ذات پات، مذہب، جنس اور طبقے کی بنیاد پہ فوقیت دی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ملک ریاض اربوں روپے کا دھوکہ کر کے بھی مقدس گائے ہی رہتا مگر کچی آبادی کے لوگ جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے انہیں قبضہ مافیا کہا جاتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مفت تعلیم، مکان اور روٹی دے۔ ہمارے ہاں امیر کے لیے اور قانون ہے اور غریب لیے اور اس تفریق کو دیکھ کر مجھے کارل مارکس کے وہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں جو اس نے “دی کمیونسٹ مینیفسٹو” میں لکھے تھے:۔
“جدید ریاست کی ایگزیکٹو ایک وہ کمیٹی ہے جو صرف بورژوازی طبقے کے معاملات کو چلاتی ہے۔”
پاکستان میں اگر جنس کے لحاظ سے تفریق کی بات کی جائے تو پاکستان دنیا کے ان ممالک میں آتا جہاں جنس کی بنیاد پہ سب سے زیادہ تفریق ہوتی ہے۔
ورلڈز اکنامک فارم کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 146 ممالک میں سے 142 نمبر پر آتا، جو جنس کی بنیاد پہ سب سے ذیادہ تفریق کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان میں ایک عام فہم کے مطابق یہی سمجھا جاتا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے لہٰذا اسے سیاست کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور تو اور ایک مرد کی غیرت بھی اسی سے منسوب سمجھی جاتی ہے، جس پہ کسی قسم کی آنچ آنے پر مرد اس کی جان تک لے لیتا ہے۔ اور یوں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں آتا جہاں سب سے زیادہ پدرشاہی، گھریلو تشدد اور غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔
اگر جنس کی بنیاد پہ تفریق کی بات کی جائے تو خواجہ سرا کمیونٹی بھی اپنی جنس کی وجہ سے ساری زندگی اس جرم کی سزا پاتی ہے، جو اس نے کیا ہی نہیں ہوتا اور اس کے پہلے مجرم اس کے اپنے ہی گھر والے ہوتے ہیں۔ جو انھیں تسلیم تک نہیں کرتے اور یوں سماج انہیں اور ان کے جنس کو ایک گالی بنا دیتا ہے۔
ڈی ڈبلیو کی پاکستان میں خواجہ سرا کے اوپر بنائی ہوئی ڈاکومینٹری میں ایک خواجہ سرا سے جب پوچھا گیا کہ انھیں پاکستان میں کتنی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا تو اس خواجہ سرا نے کہا:۔:
“اگر یہاں ایک طرف ایک کتا مر جائے اور دوسری طرف ہم تو لوگوں کی نظر میں کتے کی اہمیت زیادہ ہوگی۔”
2018 میں پیش کیے گئے ٹرانس جینڈر بل کی مخالفت اس بات کی ضامن ہے کہ پاکستان میں خواجہ سرا کو کتنی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی معاشرے میں اس تفریق کی وجہ سے خواجہ سرا کمیونٹی معاشی بحران کا شکار ہے۔جس کی وجہ سے انھیں مجبور ہو کر مانگنا پڑتا ہے یا سیکس ورک کرنا پڑتا ہے۔
مجھے یہاں ساغر صدیقی کا شعر یاد آرہا ہے جس میں وہ کہتے ہیں :۔
“زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہےسزا یاد نہیں”
اگر مذہب کے نام پہ تفریق کی بات کی جائے تو پاکستان کا آئین سب سے پہلے یہ تفریق کرتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق کوئی بھی وہ شخص جو مسلمان نہ ہو پاکستان کا صدر نہیں بن سکتا۔ اگر پاکستانی معاشرے کی بات کی جائے تو یہاں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔سندھ میں میاں مٹھو جبری مذہب تبدیل کروانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ پنجاب کی دھرتی بھی توہین رسالت کے نام پر نا جانے کتنے بےگناہ لوگوں کو قتل کرنے کی آپ ایک مثال ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی میں جمعیت جیسی تنظیمیں بھی اپنی ایک مثال ہیں جو اقلیتوں کو ان کے ہولی کے تہوار منانے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔
اگر پاکستان میں تعلیم کی بات کی جائے جو ہر شہری کا بنیادی حق اور جس کی ذمہ داری پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25-اے لیتا اور کہتا ہے:۔
“پانچ سال سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے”
مگر حقیقت میں ریاست ان بنیادی حقوق کو ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سالہ سال کی عمر کے بچوں میں 22.8 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں جو پانچ سے سولہ سال کی عمر میں بچوں کا 44 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے تمام ممالک میں دوسرے نمبر پہ آتا جہاں سب سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
اور یوں نجانے کتنے ذہین دماغ وسائل کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے اور ریاست جس کا کام ہے کہ وہ اپنے باسیوں کو تعلیم دے، رہنے کے لیے چھت دے، وہ فقط اشرافیہ کے معاملات سنبھالے ہوئے ہے اور ان کے مفادات کی حفاظت میں لگی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک یہ تفریق رہے گی جب تک طبقات رہیں گے تب تک نہ تو ہم ایک ہیں اور نہ ہو پائیں گے۔