پينل سماجواد : بخشل تھلہو، اسد ممتاز
سندھی سے ترجمہ: رحمت تونیو
سوال: آپ کو جزیرے بچاؤ تحریک کی کامیاب کشتی ریلی کی مبارکباد۔ ماہی گیروں اور ماحول کے حوالے سے آپ کی شاندار جدوجہد رہی ہے۔آپ عوامی سیاست کی طرف کیسے راغب ہوئے؟
شاہ: آپ کو بھی مبارکباد۔ میں طالب علمی والے دور سے ہی سیاست میں رہا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ 77ء میں جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس کے بعد مجھے قوم پرستی کا جذبہ پیدا ہوا۔ میں باضابطہ طور پر پی پی کا رکن نہیں تھا لیکن 77ء والے انتخابات میں بطور الیکشن کارکن کام کیا۔ بعد ازاں جیئے سندھ کی طرف گیا۔ دراصل مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا، میں نے بولان میڈیکل کالج میں اپلائی کیا ہوا تھا۔ چلیں وہ کام تو نہ ہوا لیکن اس سفر کے دوران میں نے ایک کتاب ‘موسیٰ سے مارکس تک’ خریدی۔ میرے ذہن کو تبدیل کرنے والی کتاب وہ ہی تھی۔ حالانکہ میں نے اس وقت بھی سائیں جی ایم سید کی کافی کتابیں پڑھی تھی۔ ان کی کتاب ‘پیغام لطیف’ بہت اچھی لگی۔ مگر مجھے ترقی پسند سیاست کی جانب راغب کرنے والا سبط حسن ہی تھا۔ وہ کتاب میں نے تین یا چار مرتبہ پڑھی، مجھے اتنی دلچسپ لگی کہ ساری رات بیٹھ کر پڑھتا رہا لیکن اسے چھوڑنے پر دل نہیں مانتا تھا۔ وہ کتاب میں نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر بھی پڑھی۔ ہم دونوں کو اس کتاب کے باہمی مطالعہ نے اشتراکی سیاست کی طرف لایا۔
سوال: اس کے بعد آپ عوامی تحریک میں بھی شامل ہوئے؟
شاہ: اس کے بعد 83ء والی جمہوریت بحالی تحریک سے متاثر ہوا۔ اس کے بعد ایم آر ڈی میں عوامی تحریک کے کردار سے متاثر ہوا اور 84ء میں عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ 1986ء میں پھر اے این پی بنی، اس کا بھی میں کراچی ڈویژن کا سینیئر نائب صدر بنا۔ 88ء میں عوامی تحریک، اے این پی سے الگ ہو گئی، بعد ازاں عوامی تحریک کے اندر بھی بحرانات پیدا ہوئے اور میں غیر سرگرم بن گیا۔ جب کالاباغ ڈیم کے خلاف سندھی عوام کا قومی اتحاد بنا تھا تو ڈی ایس ایف کے رہنماؤں سے ملاقات ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ زیادہ نہیں تھا۔ بعد ازاں میں نے ماہی گیروں والے کام کو تیز کیا۔ عوامی تحریک میں شمولیت سے قبل ہی ہماری سماجی تنظیم تھی۔ اس وقت بیدل مسرور والوں کا وائسز گروپ ہوتا تھا، میں نے پھر مہران وائیسز گروپ بنایا۔ میں نے اتنی محنت سے کام کیا، بس ماہی گیروں کو منظم کرنا، ان کے مسائل پر بات کرنا۔ پھر میں نے 98ء میں پاکستان فشر فوک فورم بنایا۔ لیکن اس سماجی تنظیم میں بھی میں نے ترقی پسند سیاسی ذہن سے کام کیا۔
سوال: عام بیانیہ سے ہٹ کر آپ ترقی (ڈیولپمنٹ) کو جیسے دیکھتے ہیں یا بِگ بزنس کی اعلان شدہ ترقی کے برعکس آپ کا عوامی نقطہء نظر کیسے بنا؟
شاه: ماہی گیروں کے مسائل پر فشر فوک ایک سماجی تحریک کی حیثیت میں جیسے ابھر کر آئی، تو ہم ڈیموں کے خلاف، ڈیلٹا کی تباہی اور قبضے کے خلاف جدوجہد کی، تو ہمارے رابطے عالمی سطح پر جڑنے شروع ہوگئے۔ وہاں پر مختلف سیمینار اور کانفرنسز میں آنا جانا رہا۔ بعد میں ماحولیات اور ترقی کے سرمایہ دارانہ تصور کو سمجھنا زیادہ آسان ہو گیا۔ اور میں نے مطالعہ زیادہ کیا۔ ایک تو بندے کا ایکسپویر بھی ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ میں نے ڈیولپمنٹ اور ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں زیادہ پڑھا۔ مگر میری شروعات پانی اور ڈیموں کے سوال سے ہوئی۔ 2009ء میں ڈیم ڈی کمیشن تحریک شروع کی تھی۔ اب ہم کھڑے ہیں دریاؤں کے حقوق تسلیم کرنے والی بات پر۔ کچھ حکمران، ڈیولپمنٹ کے حق میں بھی ہوتے ہیں اور ماحول کا خیال رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ میں اس خیال کا حامل ہوں کہ اگر ڈیولپمنٹ ہوتی ہے تو آپ چاہے کتنا بھی خیال رکھیں، مگر ماحول نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح اس پہلے خیال پر چلئے، نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا بھی ڈیولپمنٹ پر زور دے رہی ہے اور ماحول کے حوالے سے قانون سازی بھی کر رہی ہے۔ اگر ہم دنیا کے ماحولیاتی قوانین کا جائزہ لیں تو وہ ماحول کو بچانے والے قوانین نہیں ہیں۔ اس کے برعکس ان قوانین کے ذریعے ماحول کو تباہ کرنے کی حد کا تعین کر کے اجازت دے دی جاتی ہے۔ اگر اس حد سے زیادہ نقصان کریں گے تو آپ پر جرمانہ عائد ہوگا، اس کے علاہ اور کچھ نہیں۔ جرمانہ کا مقصد کا تو یہ ہوتا ہے کہ جتنا نقصان کریں گے، جرمانے سے اس نقصان کی بحالی ہو، لیکن وہ جرمانہ اتنا زیادہ بھی نہیں ہوتا۔
سوال: تو پھر کیا ہر فطرت یا قدرت کو معاوضہ میں تبدیل کرنا جسٹیفائیڈ (مناسب) ہے؟
شاه: نهیں، بالکل بھی نہیں۔ سرمایہ داروں نے ماحولیات کو بھی مارکیٹائیز (بازار کی شئے) کر ڈالا ہے، انہوں نے قوانین بنا کر جرمانہ و جرم کا نظام جوڑ کر تباہی کو فروغ دیا ہے کہ ترقی کریں اور ماحول کا خیال رکھیں۔ بڑی بڑی رہائشی کالونیاں بناؤ اور شجر کاری کرو۔ اس وقت ہم ماحولیاتی تبدیلی کے بحران سے گذر رہے ہیں۔ یہ بحران کیوں پیدا ہوا ہے؟ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے باعث عالمی درجہء حرارت بڑھ گیا ہے۔ اب اگر آپ یہ کہیں کہ درخت لگانے سے ماحول بہتر ہو جائے گا، درخت لگانا اچھی بات ہے کوئی بھی اس اچھے کام کرنے سے نہیں روکے گا لیکن درخت لگانے سے ہم ماحولیاتی تبدیلی سے نکل جائیں گے، یہ خام خیالی ہی ہے۔ اس لیے آپ کو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا پڑے گا۔ غربت ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سب امیر ہو جاؤ۔ سوال یہ ہے کہ سماجی دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہوئی ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا سوال ہے۔
سوال: کیا سماجی پیداوار اور دولت کی منصفانہ تقسیم، نجی ملکیت والے طبقاتی نظام میں ممکن ہے؟
شاه: نه بالکل بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ منصفانہ تقسیم کیسے ہو؟ ان کے لیے کون سا راستہ لینا چاہیے۔ خود کہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہو، جاگیردارانہ نظام ہو، پدرشاہی بھی اسی طرح ہی موجود ہو اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، تو یہ ممکن نہیں۔ وہ تب ہوگی جب آپ اس سرمایہ دارانہ نظام سے لڑو گے۔ خود ماحولیاتی تبدیلی کا سوال بھی سرمایہ داری کو چیلنج کرنے کے سوا حل نہیں ہو سکتا۔ سرمایہ داری بھی ہو اور ماحول بھی بہتر ہو یہ ممکن نہیں ہے۔
سوال: ماحولیات کا سوال تو بین الاقوامی اور امیروں کا بھی ہے نہ۔ کل وہ کسی اور زمین یا آسمان کے نیچے تو نہیں رہیں گے نہ؟
شاه: بالکل یہ سب کا سوال ہے۔ دیکھیں اس وقت کیا ہوتا ہے۔ دنیا میں 90 فیصد سے زائد سائنسدان آپ کی بات سے متفق ہیں لیکن 10 فیصد ایسے بھی ہیں جو ان ہی سرمایہ داروں کے تنخواہ دار ہیں اور ان کا کہنا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں تمام شور بکواس ہے، کوئی بھی بحران نہیں ہے۔ اور جو سائنسدان اپنے ضمیر اور عقل سے بولتے ہیں، انہیں دھمکیاں ملتی ہیں۔ سرمایہ دار بھی مافیا کی طرح کام کرتے ہیں۔ یا پھر ایسے کہیں کہ مافیاؤں کے طور طریقے درحقیقت سرمایہ داروں کے ہی طور طریقے ہیں۔
سوال: کیا علمی اور درسی اداروں کے اندر ماحولیات کے سوال کو تسلیم نہ کرنے والے سخت دائیں بازو والوں کو شکست نہیں ملی ہے؟
شاه: اس حوالے سے آسٹریلین سائنسدان کی ایک تازہ رپورٹ آئی ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ ایک ماحولیاتی ماہر ہے جو درسی طور پر ایک تربیت اور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اب انہیں بھی کسی ادارے میں اپنے کریئر کے لیے نوکری کرنی ہے، سرکار کے پاس کریں یا ملٹی نیشنل کمپنی میں۔ اب ان لوگوں میں سے چند نے انکشاف کیا ہے کہ ماحول کے بارے میں ہمیں روکا جاتا ہے کہ فلاں ڈیولپمنٹ کے سبب ماحول کے فلاں پہلو کو نقصان پہنچنے کے بارے میں بات نہ کریں۔ کیونکہ اس سے سرمایہ کاری اور منافع متاثر ہوتا ہے۔ علمی اور درسی اداروں کے اندر ماحولیات کے سوال کو قبول تو کیا جاتا ہے لیکن اس سمجھ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ملٹی نیشنل کمپنیاں یا کول پاور پلانٹ والے بھی ماحولیاتی ماہرین کو ملازم رکھتے ہیں۔ اب یہ تو ضروری ہو گیا ہے کہ دنیا میں جو بھی پراجیکٹس بنتے ہیں ان کی عملی شکل سے پہلے ان کے انوائرمنٹ امپیکٹ اسیسمنٹ (ای آئی) ہوتی ہے۔ وہ اسیسمنٹ (تخمینہ) انوائرمنٹ کنسلٹنٹ کمپنیاں کر رہی ہیں، جنہوں نے ماحولیاتی ماہرین کو ملازم کر رکھا ہے۔
سوال: يعنی ماحولیاتی ماہرین کی دلیل بھی وکیل کی دلیل جیسی ہے، جس کا واسطہ سچ سے کم لیکن فیس یا معاوضہ سے زیادہ ہوتا ہے۔
شاه: جی ہاں۔ بلکہ ای آئی تو اب صنعت کا درجہ لے چکی ہے۔
سوال: جیسے پاکستان میں بھی شعبہ ماحولیات کے بننے کو صنعتکار رشوت لینے والے ایک نئے شعبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
شاه: مگر میرا تجربہ ہے کہ دنیا میں آج تک کوئی بھی ایسی ای آئی میری نظر سے نہیں گزری، جس کے سبب کوئی بڑا میگا پراجیکٹ رک گیا ہو۔ ای آئی والے ہمیشہ آخر میں تجاویز دیتے ہیں، وہ یہ بالکل بھی نہیں کہتے کہ ہم نے ای آئی کی ہے کہ یہ پراجیکٹ بہت خطرناک ہے۔ ماحولیات، انسان اور سب تباہ ہوجائے گا۔ اس لیے یہ پراجیکٹ نہیں بننا چاہیے۔ ان کو لکھیں گے میٹیگیٹ۔ میٹیگیشن کا ایک باب ہے کہ ایسا کریں ویسا کریں، یہ خیال رکھیں، درخت لگائیے، یہ کام کریں یہ نہ کریں، لوگوں کو تھوڑی سی سہولت دیں۔ ان کے سوا کوئی اور بات ہوتی ہی نہیں ہے۔
سوال: لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام جھوٹ اور دھوکہ دہی کے خلاف متضاد بیانیہ کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے، ماحولیات کے متعلق عوامی نقطہ نظر کی بنیاد کہاں ہے۔ کیا ماحولیات سے جڑے سوالات پر ساری دنیا کے اندر جاری عوامی مزاحمتی تحریکوں نے یہ کام نہیں کیا؟ آخر کسی کی تو محنت ہے، جو ہم آپ اور عمومی طور پر تمام بائیں بازو، ماحولیات کے سوال پر اتنا حساس ہے؟
شاه: آپ خود نے کہا کہ ماحولیاتی حساسیت دنیا کے مقامی لوگوں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ انڈیجینئس رائٹس کنوینشن بنا ہوا ہے۔ ہمیں تو ماحولیات کے بارے میں سکھایا ہی ان انڈیجینئس لوگوں کی تحریکوں نے ہے۔ دریا، پانی، دھرتی، دھرتی سے محبت ہمیں انہوں نے سکھائی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے یہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے سوچ کر یہ ضرور کہا وہ نہیں بلکہ یہ بات ٹھیک ہے۔ انہوں نے مقامی لوگوں کی جانب سے دی گئی معلومات کو اپنایا (ایڈاپٹ کیا) ہوا ہے۔
سوال: یہ ظلم تلے گوٹھوں کے لوگ ہی ہیں جنہوں نے ہم لوگوں کو اس ترقی کا دوسرا رخ سمجھایا ہے۔ چاہے وہ انڈیجینئس کی بین الاقوامی تعریف پر پورا نہیں اترتے لیکن عام شعور کی زبان میں تو وہ انڈیجینئس یا دھرتی کے اصل باشندے ہی ہیں۔ سندھ میں ماحولیات کے حوالے سے سیاسی اور علمی حلقوں میں کتنی سنجیدگی ہے؟
شاه: سندھ میں ماحولیات کے حوالے سے کسی قسم کی بھی سنجیدگی نہیں ہے۔ تمام تر چیزیں ہم فیشن کے طور پر ضرور کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی اور این جی اوز وغیرہ وہی کام کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماحولیات کے حوالے سے ہمارے پاس کام کرنے والی جو بڑی بین الاقوامی کمپنیاں ہیں ان میں خود بڑی گڑ بڑ ہے۔
اصل میں کوئی بھی خیال جب کہیں سے تخلیق ہوتا ہے اور وہ حقیقت پسندانہ ہے تو وہ عام ہو جاتا ہے۔ عام لوگ بھی اسے اپنے حالات اور سمجھ کی بنیاد پر بہتر سمجھ کر تسلیم کرنے لگتے ہیں۔ سندھ کے سوال یا سیاسی سوسائٹی میں ماحولیات کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں ہوتی تھی لیکن اب آہستہ آہستہ صورتحال بدل رہی ہے۔ کیونکہ ماحولیات کا سوال اتنا تو اہم اور عام ہو رہا ہے کہ لازمی طور پر سیاستدان بھی ان پر غور کرے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اپنے بلاک سے ہی جو بائیں بازو کی سائنسدان تھے وہ ماہرین تھے، انہوں نے ہی اس سوال پر سب سے پہلے غور کیا کہ “یار! کہیں ہم غلط تو نہیں جا رہے؟” تو انہوں نے اپنی سمجھ پر پھر سے نظر ثانی کی اور اسے تبدیل کیا۔ موجودہ تنقید کسی اور جگہ سے نہیں بلکہ وہ پھر بھی بائیں بازو کی ہی ہے، جس نے ماحولیات کے سوال پر از سرِ نو سوچا اور کام کیا۔ جیسے مارکس نے اپنے دور کے حساب سے کام کیا، حتیٰ کہ اس وقت ماحول کے اتنے مسائل نہ تھے، لیکن مارکس کو معلوم تھا کہ منافع اور سرمایہ کے ارتکاز کے عمل میں سرمایہ دار تمام قدرتی وسائل کی لوٹ مار کر رہے ہیں اور زمین، ہوا، پانی سمیت سارے ماحول کو کتنا نقصان دے رہے ہیں۔ مارکس نے اس وقت ماحول کے سوال پر بھی لکھا۔
آج ماحول کے سوال پر بحث دائیں بازو یا سرمایہ داروں میں نہیں بلکہ بائیں بازو کے اندر ہو رہی ہیں۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ سوشلزم کو ماحولیات سے جوڑو اور مشروط کرو۔ اِیکو سوشلزم کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بحث بھی جاری ہے اور آج بھی ہزاروں کی تعداد میں کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اس سوال پر پارٹیوں کا قیام ہو رہا ہے اور تحریکیں چل رہی ہیں۔ ہمیں ترقی کا لفظ سرمایہ داروں نے دیا ہے۔ جس کی آواز ہمیں دوسری جنگ عظیم کے بعد زیادہ تیز سنائی دے رہی ہے۔ اس کے نام پر نوآبادیات پر قبضے اور ان کے وسائل کی لوٹ مار ہوئی ہے۔ جب اس ڈیولپمنٹ کے ماحول پر اثرات اور تباہ کن نتائج ظاہر ہونے شروع ہوئے تو لوگوں نے شور مچایا۔ اس کے بعد سرمایہ داروں نے سوچنا شروع کیا کہ اب کیا کریں، گڑبڑ تو ہوگئی ہے۔ پھر انہوں نے طے کیا کہ ترقی کی پتنگ تو اڑانا ہے، تو انہوں نے اب اس کے پیچھے سسٹین ایبل (مستحکم) کی دم باندھ دی ہے۔ کام وہی ہے، اب دیکھو کہ ہر کوئی سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کی بات کر رہا ہے۔ ہم پوچھ رہے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
سوال: آپ نے نوآبادیات کی بات کی، یہ جو اب پاکستان آئی لینڈ اتھارٹی قائم ہوئی ہے، کیونکہ اتھارٹی کو اتنا مضبوط کیا گیا کہ انہیں کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتے۔
شاه: ہم کالونی تو ہیں۔ بس ان کی شکل اور آقا تبدیل ہو رہے ہیں۔ پہلے ممالک اور ان کے عوام، پھر ان کے وسائل کو کالونائز کیا۔ یہ قبضے کا مسلسل عمل ہے۔ اگر یہاں سے لاکھوں ماہی گیر بے دخل ہوتے ہیں تو یہ کالونی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب شہر کا مطلب کیا ہے؟ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں ہم یہاں پر لوگوں کو بسائیں گے، ہوٹل، بنگلے، فلیٹ اور یونیورسٹی، مطلب کہ سب کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ 300 جزیرے ہیں، وہاں پر ایسے تو لاکھوں لوگوں کو بسایا جا سکتا ہے۔ جب 2006ء میں ڈائمنڈ بار آئی لینڈ سِٹی بنانے کا منصوبہ آیا تھا تو میں نے فشر فوک کے پلیٹ فارم سے پریس کانفرنس کی تھی۔ اس سے ایک دن پہلے وہ بیان آیا تھا چیف آف نیول اسٹاف کا کہ “پاکستان کے سمندری علاقے پر مشتمل ایک کوسٹل صوبے کی ضرورت ہے۔”
پاکستان کی ساحلی پٹی پہ کوئی تین سو کے قریب جزیرے موجود ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد میں مچھیرے رہتے ہیں۔
سوال: پہلی بات تو جزیروں پر تعمیرات کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور جاری رہے گی لیکن فرض کریں اگر شہر تعمیر ہوتے ہوں تو ماہی گیروں کی کتنی تعداد ہے جو متاثر ہوگی؟
شاه: جزیروں کے حوالے سے ایک بات سمجھنے اور واضح کرنے کی ہے۔ سندھ کی سمندری پٹی اور کوسٹل بیلٹ سے 300 چھوٹے بڑے جزیرے ہیں۔ ماضی میں جزیرے سمندر کا حصہ نہیں تھے کیونکہ تمام جزیرے کِریکس سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ کریکس ماضی میں سندھو دریا میں تھی، جن کے ذریعے دریا کا پانی سمندر میں جاتا تھا۔ اس وقت دریا بادشاہ اپنے بہاؤ یعنی 180 ملین فٹ پانی، 480 ملین ٹن سِلٹ اپنے ساتھ لے کر آتا تھا۔ ان ہی سلٹ سے یہ جزائر بنے، پھر جب دریا کو ڈیموں میں قید کیا گیا اور پانی کے ساتھ سلٹ آنا بند ہوگئی تو ان جگہ سمندر کا پانی آگیا تو وہ کریکس بن گئی۔ اب وہ سمندر کا بھی حصہ ہے اور دریا کا بھی۔ میں یہاں پر ایک اور بات کروں گا کہ دنیا میں سمندری مچھلی کی جتنی بھی کل پیداور ہے، ان کا 70 فیصد کانٹینینٹل شیئرز سے آتا ہے۔ ان کانٹینینٹل شیئرز کو دریا بناتے ہیں۔ یعنی یہ جزائر یا کریکس دریا بناتا ہے۔ اگر دریاؤں کا پانی سمندر میں نہیں جاتا اور کانٹینینٹل شیئرز، اسٹریز اور جزیرے ختم ہو جاتے تو آپ کی مچھلی کی پیداوار 70 فیصد کم ہوجائی گی۔ خود پاکستان کی کوسٹل ایریا ایک ہزار پچاس کلومیٹرز پر مشتمل ہے، لیکن ان میں سات سو کلومیٹر بلوچستان اور ساڈھے تین سو کلومیٹر سندھ کا ساحل ہے۔ سندھ کا ساحل چھوٹا ہونے کے باوجود بھی مچھلی کی پیداوار میں زیادہ امیر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں پر کریکس، اسٹریز، جزیرے اور مینگروز ہیں۔ اگر آپ یہاں سے جزیرے ختم کرکے شہر بناتے ہیں تو اسٹریز، کریکس، مینگروز کو تباہ کر رہے ہیں اور تمام کوسٹل ایکو سسٹم درہم برہم ہو جائے گا۔ جس سے بدین سے کراچی تک سندھ کی سمندری پٹی پر بسنے والے 25 لاکھ ماہی گیر بل واسطہ متاثر ہوں گے، جن کا روزگار وہاں پر ماہی گیری ہے۔ یعنی کھلے سمندر کی جو بھی مچھلی ہوتی ہے، وہ بھی اپنے نسل کی افزائش کے لیے اسچوریز کے علاقوں میں یعنی یہاں پر آتی ہے۔ یہ جو جزیرے، کریکس، تمر کے جنگلات ہیں وہ مچھلی کی نرسریاں ہیں، فشنگ گراؤنڈ ہیں۔ شہر بننے سے یہ سارا کچھ نہیں بچے گا۔ دوسری طرف کراچی پہلی ہی سمندری طوفانوں کے منہ میں آئے گا، کیونکہ جزیرے اور تمر کے جنگلات، فشنگ گراؤنڈ اور ماہی گیروں کے روزگار کے ساتھ قدرتی آفتوں سے بچانے کے لیے سیف گارڈ (محافظ) کا کام کرتے ہیں۔ اگر یہ سب نہیں ہوں گے تو محافظ بھی نہیں ہوں گے، جس کے نتیجہ میں ماہی گیروں کو بیروزگار کرنے کے ساتھ کراچی شہر زیادہ غیر محفوظ ہو جائے گا۔
سوال: سننے میں آیا ہے کہ کھلے سمندر میں جانے کا یہی ایک اہم راستہ بچا ہے، اس کے علاوہ ساری پٹی پر وفاق کے دیگر ادارے قابض ہو کر بیٹھے ہیں۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
شاه: جزیرے دو اقسام کے ہیں۔ کراچی کے سامنے موجود کچھ جزیروں پر آبادی ہے، جن میں بابو بِھٹ، شمس، منہڑو وغیرہ شامل ہیں۔ کھاہی کھُری تک موجود جزیروں پر لوگ موسمی انداز میں رہتے ہیں۔ مگر کیٹی بندر سے شاہ بندر تک کچھ جزیرے ایسے ہیں جہاں پر لوگ صدیوں سے رہتے آ رہے ہیں اور کئی گوٹھ تعمیر ہوئے ہیں۔ اب جو یہ غیر آئینی صدارتی آرڈیننس لایا گیا ہے اس کا منصوبہ صرف دو جزیروں کے لیے نہیں ہے، یہ حقیقت میں سندھ بلوچستان کے تمام جزیروں پر شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ کئی لوگ اپنی تاریخی جگہوں سے بھی بے دخل ہوں گے، روزگار سے بھی جائیں گے اور دیگر گذرگاہیں بھی بند ہو جائیں گی۔ یعنی جب ماہی گیر ایک سے دوسرے جزیرے کی طرف جاتے ہیں تو سائیڈ میں موجود کریکس ہی گذرگاہیں ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ابراہیم حیدری سے ڈنگی جزیرے تک کوئی پُل بنی ہوئی ہے، جب ہم کل ڈنگی سے بھنڈار جزیرے تک چلیں تھے تو ایک کِریک سے ہی وہاں پہنچے تھے۔ تو تمام جزیروں کی گذرگاہیں بھی بند ہو جائیں گی اور کھلے سمندر میں جانے والے یہی راستے، کریکس، گذرگاہیں بند ہوجائی گی۔ کھلے سمندر میں جانے کے لیے ایک راستہ کورنگی اور سِٹی کریک کا بھی ہے۔ ترچھان کیٹی بندر کے باہر سے بھی جا سکتے ہیں، لیکن فرض کریں کیٹی بندر کی حجامڑی اور کھوبر کریک پر موجود جزیروں پر اگر شہر بنے گے تو وہ بھی بند ہو جائیں گے۔ کیونکہ دریا سمندر میں سیدھا نہیں بلکہ سائیڈ سے داخل ہوتا ہے۔ اگر ڈنگی بھنڈار جزیروں سے آگے جائیں گے تو یہ گزرگاہ ایک دروازے کی طرح ہے، یعنی اس دروازے کے اندر اور باہر سمندری لہروں میں بھی فرق ہوگا۔ سمجھو کہ کورنگی کریک ڈیلٹا کے منہ کی طرح ہے۔ اصل منہ اس طرف ہے جو اب کیٹی بندر، جنگی سر اور کھارو چھان کی طرف ہو گیا ہے۔ یعنی کریک سائیڈ سے آ کر کورنگی کریکس اور سٹیج کریک سے آ کر مائوتھ بناتی ہیں۔ اگر ہم کورنگی کریک کے مائوتھ میں آ کر کھڑے ہوں گے تو سمندر کی بڑی اور چھوٹی لہریں نظر آئیں گی۔ اور ہمیں بالکل محسوس ہوگا کہ ہم دروازے پر کھڑے ہیں۔ تو تمام راستے اور ڈیلٹا کے تمام منہ بند ہو جائیں گے۔
ڈيپ سي (گہري سمندر) ٹرالرز کا لائیسنس دینا کا منصوبہ حکمرانوں کا ہے، وہ ماضی میں چین کو لائیسنس دے چکے ہیں، اب اور ٹرالرز لا رہے ہیں۔ مگر یہ بات ہے کہ ابھی تک ڈیپ سی پالیسی منظور نہیں ہوئی ہے۔ اس کے خلاف مزاحمت جاری ہے، حکمرانوں نے فی الحال اس کام کو روک دیا ہے۔
سندھ کی سمندری پٹی میں مچھلیوں کا ذخیرہ (فش اسٹاک) کم ہوا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اور تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کم کیوں ہوا ہے۔اوور فشنگ اور انڈسٹریل فشنگ اتنی تو زیادہ ہوئی کہ اسٹاک کم ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کی پالیسی بھی یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مچھلی پکڑ کر بیرون ممالک بھیجی جائے اور پیسے کمائیں۔ پاکستان میں فشریز کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے، یعنی وہ خود ہاتھ سے اپنے اسٹاک کو تباہ کر کے اس تباہی کو جواز بنا کر اپنے دیگر ماحول دشمن منصوبے نافذ کر رہے ہیں۔ (بالکل ایسے ہی جیسے سرکاری اداروں کو تباہ کرکے اس تباہی کا ڈنڈھورا پیٹ کر ان کی نجکاری کے لیے ماحول بناتے ہیں۔دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلے ماحول کو تباہ و برباد کرو، پھر اس کے دن مناؤ، یعنی وہ سرمایہ دار، ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے خود تباہی کرکے پھر اقوام متحدہ کے ادارے کے ذریعے بین الاقوامی دن کے اعلانات کراتے ہیں۔ دھرتی، سمندر اور دریا کو بچانا نہیں لیکن پہلے ان کو مار کر پھر اس کے دن منانے ہیں۔
سوال: کچھ لوگ سندھ کے جزیروں والے سوال پر اعلیٰ عدالتوں میں گئے ہیں، آپ اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
شاه: ہم اس عمل کے خلاف رہے ہیں۔ کہ اگر کورٹ کا فیصلہ آ جائے کہ شہر کی ترقی کے لیے یہ سارا کچھ کرنا ضروری ہے تو پھر آپ کیا کریں گے؟ مزاحمتی تحریک میدانوں اور روڈوں پر ہوتی ہے اور وہاں پر ہی ہونی چاہیے۔ ضرورت پڑنے پر قانون کی طرف جایا سکتا ہے لیکن آج یا کل وہ عوام کی سیاسی مزاحمت ہی ہے جو کچھ حاصل کر سکتی ہے۔ درحقیقت عوامی اور قومی سوالات پر بھی سیاست اور وکالت میں اپنا پروفائل بنانے اور کریڈٹ لینے والا رجحان ابھی تک جاری ہے۔
سوال : جزیروں کے سوال پر آپ اور سندھ کے عوام نے 2004ء، 2006ء، اور 2013ء میں مزاحمت کی۔ اس اور موجودہ مزاحمت میں آپ کو کون سا فرق نظر آ رہا ہے؟
شاه: 2006ء والی مزاحمت بڑی تھی، کیونکہ سب سے پہلے اور فرنٹ لائن کی حیثیت میں خود ماہی گیر زیادہ سرگرم تھے۔ سول اور سیاسی سوسائٹی بعد میں اس کا حصہ بنی۔ اب فشر فوک نے تو ابتداء تو کی لیکن ماہی گیروں میں پہلے سے کم جوش ہے۔ جدوجہد میں مستقل مزاجی اور تسلسل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ماہی گیر بھی دیکھ رہے ہیں کہ سندھ حکومت اور کریڈٹ لینے میں نمبر اٹھانے والے کتنے دن چل سکیں گے۔
سوال: جزیروں پر شہر بنانے اور وفاق کے قبضے کے خلاف سندھ میں جاری عوامی مزاحمت کے اور کون سے پہلو ہیں؟
شاه: واضح بات ہونی چاہیے۔ اگر ہم صرف یہ زور دیں گے کہ جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں تو اس کا ایک عام مطلب یہ ہوا کہ جزیرے سندھ حکومت کی ملکیت ہیں۔جبکہ ہمیں اس بات پر زور دینا چاہیے کہ وہ جزیرے سندھ کے ماہی گیروں یا عوام کی ملکیت ہیں، جو شہر تعمیر ہونے سے اپنی ملکیت اور روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ یہ ایک بڑا ماحول دشمن عمل ثابت ہوگا۔ اس کے مالکان ماہی گیر ہیں۔ کسٹمری رائیٹ (روایتی حق) ان ہی کا ہے۔ سندھ حکومت صرف کسٹوڈین (سنبھالنے والی) ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ہم عوام نے سندھ حکومت کو سندھ کی زمینوں، جزیروں، راستوں، سمندر اور دریاؤں کو بچانے اور سنبھالنے کی نوکری دی ہے۔ مزاحمت کرنے والی سیاسی فریقین کو اس پہلو پر زور دینے کی ضرورت ہے۔