شاہ عنایت کا نظامِ اشتراک

اسد جوتہ

مارکس کے نظریہ اشتراکیت، سوشلزم یا کمیونزم سے کئی سال پہلے وادی سندھ میں کہ جہاں دراوڑ، آریا سے لے کر زرتشت کے پیرو ایرانی، زیوس و اپالو کے پرستار یونانی، بدھ مت و اسلام کے پیروکار عرب، ایرانی، ترک و افغان سب تہذیبوں نے اپنا اثر چھوڑا اور یہاں کی تہذیب جو ان تمام تہذیبوں کا امتزاج ہے، یہ سماج جب جمود کا شکار ہوا تو انسانیت اور غلامی کے بھنور میں پسے ہوئے مزدور طبقہ کے لئے اجتماعی معیشت “سانجھی راہڑ واہی” (سانجھی کھیتی باڑی) “جا زمین اللہ دی جھیرا رہاوے اوہو کھاوے” (زمین اللہ کی، جو کام کرے گا وہی کھائے گا) کا نظریہ دینے والے اور اپنے اس نظریہ کو قابل عمل بنانے کے لئے اس دور کی سپر پاور کے خلاف اک مضبوط و منظم جدوجہد اور دے جانے والا یہ سندھو جایا، جھوک جنگ کمانڈر، صوفی شاہ عنایت شہید 1655، شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں، ٹھٹھہ شہر سے 35 کلومیٹر دور میراں پور میں پیدا ہوا، جو آج “جھوک” کے نام سے آباد ہے۔

عہد اورنگزیب 1679ء میں فوجی مہموں کی ناکامی اور سیاسی ابتری کی بدولت بالائی سندھ کو کلہوڑا سردار میاں یار محمد کی حکمرانی میں دے دیا گیا تھا اور میراں پور کو شاہ عنایت کے دادا صداللہ عرف صدو لنگاہ نے آباد کیا تھا جو ایران توران سے نہیں آئے بلکہ اسی مٹی کے جائے تھے۔ شاہ عنایت نے اپنی ابتدائی تعلیم تو اپنے درویش صفت والد بزرگوار مخدوم فضل اللہ سے حاصل کی، جنہوں نے انہیں قرآن پاک کی علاوہ سعدی، حافظ اور مولانا رومی سے بھی آشنائی کروائی  اور زمانے کے علوم، پیری فقیری کے ساتھ ساتھ دین و دنیا کی تعلیم کے لئے شاہ عنایت ملتان کے عالم شیخ شمس الدین ملتانی کی شاگردی میں آئے اور طلب علم کے لئے سیر و سیاحت کرتے اور فیض یاب ہوتے ہوتے،  حیدرآباد میں شاہ عبدالمالک کی شاگردی میں جا پہنچے۔شاہ صاحب نے اپنے عظیم استاد سے جہاں دین، رمز رموز اور وحدانیت کی روایتی تعلیم حاصل کی، وہیں دنیا کی جانکاری کی لئے سیاست کا علم بھی سیکھا۔ شاہ عنایت جب اپنے استاد سے اخروی اجازت لینے لگے تو استاد اور شاگرد کے درمیان عجب معاملہ ہوا، شاہ عبدالمالک اپنے ہر شاگرد کو اجازت کے وقت اپنا “چوغہ و خلعت” بطور سرٹیفکیٹ دیتے تھے شاہ عنایت نے اپنے استاد سے چوغہ و خلعت کے ساتھ ساتھ ان کی تلوار بھی مانگ لی، استاد نے بھی شاگرد کو ایک سوال پوچھتے ہوئے خوشی خوشی تلوار دے دی:

فقیر اس تحفے کو کیا قیمت دو گے؟
!شاہ عنایت سر خم کرتے ہوئے بولے
“!اس کی قیمت فقیر کا سر ہے”

شاہ عبدالمالک کی اجازت پر اور ان کی خواہش سے ان کے ایک دوست استاد غلام محمد کے پاس اپنے علم میں اضافے کے لئے پہنچے۔ استاد شاہ صاحب کی علمی سوجھ بوجھ سے اتنا متاثر ہوئے، جو اپنے شاگرد شاہ عنایت کی شاگردی میں ساری زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دس بارہ سال کی مسلسل علمی اور سیکھنے کی مسافت کے بعد شاہ صاحب جھوک واپس لوٹے۔ شہنشاہ کے دور میں جب مرہوٹوں، راجپوتوں اور سکھوں نے شورش برپا کی اور جابجا بغاوتیں شروع ہوئیں تو مرکز کی حاکمیت کمزور ہوئی، جاگیری نظام  نےاپنا رنگ دکھانا شروع کیا تو شاہ عنایت نے جھوک  میں غریبوں، مزدوروں، غلاموں اور پرائی زمینیں کاشت کرنے والے مزارعوں کی ساتھ ہونے والے ظلم کی وجہ سے سرداروں، ملاؤں، پیروں، زمینداروں، جاگیرداروں اور گدی نشینوں کے خلاف ان سب کی زندگی تبدیل کرنے کے لئے “سانجھی کاشت کاری” کا نظام اپنی زمین پر شروع کیا، جو ان کو “مدد معاش” کی ذریعے ملی ہوئی تھی۔ سیور غال یا مدد معاش والی زمینیں وہ تھیں جو مکتب و مدرسہ اور علماء و فضلاء اور سادات کو دی جاتی تھیں یہ سلسلہ علم وادب کے فروغ کے لئے ارغونوں نے شروع کیا اور پھر درکھان کے بعد مغلوں تک جاری رہا اور پھر اورنگزیب نے اسے موروثی قرار دے دیا، ان پر کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا۔ سانجھی کاشت کاری، ایک اجتماعی معاشی نظام تھا، جس میں سانجھی کھیتی باڑی کی جاتی تھی اور فصل کے پکنے کے بعد حصہ داروں کو ان کا پورا حصہ ملتا، جو ان کے کھانے پینے اور زندگی گزارنے کے لئے کافی ہوتا۔ اس سانجھی کاشت کاری کے معاشی نظام نے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور بہت سارے لوگ اپنی ذاتی زمینیں “سانجھی کاشت کاری” کے حوالہ کرنے شروع ہو گئے۔

سانجھی کاشت کاری والی اس آبادی کو “دائرے” یعنی کمیون کا نام دیا گیا یہ شاہ سید محمد جونپوری کی تحریک مہدوی سے متاثر ہو کر رکھا گیا کیونکہ انہوں نے مہدویت کے تمام لوگوں کو یکجا کر “دائرے” کا نام دیا جو مکمل مساوات کی علامت تھا۔ اس میں کسی کی کوئی ذاتی ملکیت نا تھی اور تمام طبقات ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کام کرتے تھے اور کوئی سماجی، نسلی اور قبائلی تفاخر نہیں تھا اور سب لوگ خوش تھے ان کے اس دائرے میں انسانیت بھی جھلکتی تھی۔ سانجھی کاشت کاری کے اس معاشی نظام نے برابری کی بنیاد پر ہونے کی وجہ سے بہت سارے مظلوم لٹے پٹے لوگوں کو اپنے دائرے میں شامل کرنا شروع کر دیا اور دن بدن ایک متحرک تحریک بنتی گئی۔ ان کمزور و پسے طبقات کی انقلابی تحریک کی مضبوطی ظالم جاگیردار لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی کیونکہ ان طبقات کی مضبوطی میں اپنی جاگیر جائیداد کے چلے جانے کا ڈر شروع ہو گیا۔ اس کمیون تحریک کے سامنے ذاتی ملکیت، شاہ گدا اور پیری مریدی میں رچے سماج کی دیواریں ہلکی شروع ہو گئیں کیونکہ مزارعے زمین کے حاکموں سے شاہ عنایت والا نظام لانے کا مطالبہ کرنے لگے تھے اور بہت سے درویش باقی سلاسل ترک کر کہ شاہ عنایت کے سلسلہ سے وابستہ ہونے لگ گئے تھے۔

دلی کا شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر 1707 میں مر گیا اور شہنشاہت کے لئے شہزادہ اعظم نے شہزادہ معظم کی گردن اتار دی اور شاہ عالم نام کے ساتھ چار سال شاہی کے مزے لئے۔ اس کی موت بھی اپنے چار بیٹوں کی لڑائی پیچھے جہاں دار شاہ کی بادشاہی میں بدلی اور اسے اس کے بھتیجے عظیم الشان کے بیٹے فرخ شاہ نے گردن اتار کر دلی کی بادشاہی لی۔ ان دنوں دلی کا بادشاہ فرخ سیر شاہ تھا اور سندھ میں اس کا گورنر، میر لطف علی خاں تھا۔

ملاں، پنڈت، پیری مریدی والے اور ڈوبتی مغل شاہی کے ذاتی جاگیروں والے، سماج کی جاگیریں، اس سانجھی تحریک سے ڈرنا شروع ہو گئیں تو اس جاگیردار ٹولے نے اپنی جاگیروں کو بچانے کے لئے اس انقلابی تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کیا اور اس ٹولے میں علاقہ کا سب سے بڑا جاگیردار پیر عبدالواسع، کسانوں کا دشمن حمل جت اور زمیندار نور محمد پلیجو شامل ہو گئے اور بہت سارے علاقے کے بدمعاشوں سمیت دور کے علاقوں سے بھی بندے اکٹھے کر کے رات کے اندھیرے میں جھوک کے فقیروں پر سوئی حالت میں حملہ کر دیا اور نور محمد پلیجو کی کمانڈری میں مظلوم فقیروں کے 35 فقیر اپنے نظریہ کی بقا کی لئے شہید ہو گئے۔ شاہ عنایت شہید نے اپنے 35 فقیروں کا بدلہ لینے کی لئے کوئی جنگ نا کی کیوں جو فقیروں کو بھلائی جنگ میں نہیں نظر آتی بلکہ کسی تیسرے ثالث کی ذمہ داری پر انسانی جانوں کو بچانے میں نظر آتی ہے، اس وجہ سے شاہ عنایت نے دلی کے شہنشاہ فرخ سیر کو خط لکھ کے اپنے فقیروں کو شکایت کے لئے بھیجا۔ خط کی عبارت پڑھیں اور شاہ صاحب کی علمی بصیرت کا جائزہ لگائیں۔

اللّٰہ بس باقی ہوس۔
ذکر مولا سب سے پہلے،اللہ کی یاد تک ہمیشہ شاد، پھر زمانے کی ہاؤ ہاؤ سے آزاد۔۔رات کا جگارا بہت پیارا، شرف اور ثواب ڈھیر سارا، ذکر ہمیشہ اور فکر سے چھٹکارا۔ آج شہر پہ بر۔۔ ہر طرف جنگ ہے کل جنگ نہ ہو گی، چست ہو جلد خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔ جاگ جا ہوشیار ہو۔ میں نہیں کہتا دنیا چھوڑ دے پھر جس حال میں ہو رب کے ساتھ ہو۔

شاہ عنایت کے فقیروں نے فرخ سیر کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم بتائے اور یہ خط بھی دیا۔ بادشاہ فرخ نے فقیروں کے خون بہا کے بدلے میں قاتلوں پیر عبدالواسع، حمل جت اور نور محمد پلیجو کی زمینیں فقیروں کی حوالے کرنے کا حکم دیا۔ جھوک کے شہیدوں کے وارثوں کو جب یہ زمینیں ملیں تو دائرہ کی سانجھی کاشت کاری کو بہت دور دور تک پھیلانے کا موقعہ مل گیا اور دن بدن سانجھی کاشت کاری کا یہ سسٹم مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور مظلوموں، غریبوں، مزدوروں اور پسے ہوئے مسکینوں کی زندگی بدلنی شروع ہو گئی جس کا اثر دور دور تک جانے لگا اور جابجا ایسے ہی سانجھی کاشت کاری کی کے دائرے کے مراکز کھلنے لگ گئے اور ساتھ لنگر خانوں میں مسکینوں غریبوں کو مفت روٹی پانی ملنا شروع ہو گیا۔ اس نعرے، زمین اللہ کی جو کاشت کرے وہی کھائے کی گونج دلی کے شاہی دربار تک پہنچ گئی اور سانجھی کاشت کاری والے کاشت کاروں سے ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ مدد معاش والی زمینوں پر ٹیکس نہیں لگ سکتا، ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد فرخ سیر بادشاہ نے اس معاشی نظام کو اپنی شاہی کا دشمن اور باغی قرار دے دیا اور ساتھ ہی اس پرامن باغی ٹولے کو فنا کرنے کے لئے جنگ کا اعلان کر دیا۔

یہ جنگ بہت انوکھی تھی، ایک طرف ایک سپر پاور کی اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیں تھیں جن میں ترک اور افغان فوجی بھی تھے اور اس کے حمایتی ٹھٹھہ کا گورنر اعظم خاں، سندھ کا حکمران یار محمد کلہوڑا اپنے پورے خاندان سمیت شریک ہوا۔میر شہداد خاں لاڑکانہ کا سردار، پرانے دشمن سید عبدالواسع، حمل جت اور نور محمد پلیجو ساتھ ملتان کے گورنر کا بیٹا اپنی کمانڈری میں پوری فوج لے کے آ گیا، جب شاہ عنایت کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا۔

میں بازار عشق میں یہ سودا اس لئے تو نہیں لایا تھا نا میں چاہتا تھا کہ اس طرح کا شور و غل بپا ہو کہ دار و گیر کا میدان آراستہ ہو جائے۔

 اب اس دوسری طرف جھوک کی 24 سو فقیرانہ خلقت تھی جس کے پاس نا اسلحہ تھا نا جنگ کی باقاعدہ کوئی فوجیانہ تربیت تھی،  بس وہ اپنی کسی، کلہاڑی، دانتری،کاشت کاری کے اوزار اور لکڑی ڈنڈے اٹھا کر اپنی حفاظت کے لئے، اپنے دائرہ کی جنت کو بچانے لے لئے، اپنی سانجھی کاشت کاری کی فصل کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ایک انقلابی ایمانی جذبہ کے ساتھ سپر پاور کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کھڑے ہو گئے۔

 اکتوبر 1717ء کو شروع ہونے والی قتال اور خون و خوں والی یہ جنگ جھوک کے اطراف ایک بہت بڑی پانی کی خندق پیچھے لڑی گئی، جو دائرہ کے فقیروں نے اپنی حفاظت کے لئے کھودی تھی۔ سپر پاور کا جو فوجی آگے بڑھتا تھا یا خندق میں گر کر مر جاتا تھا یا دوسری طرف فقیر اچانک ٹولی کی صورت میں گوریلا حملے کر کے شاہی اور اس کے حمایتیوں کی صفوں میں انہیں تھکا تھکا کے مارتے رہ گئے، چار مہینے چلنے والی یہ جنگ قرآن کو ضامن رکھ (شاہی دھوکا) کے رکی۔

جھوک کے فقیروں نے ہزاروں ل فوجوں کو دو مہینے تک اپنے قلعہ کے اندر نہیں آنے دیا اور اپنا نقصان کئے بغیر گوریلا طریقہ کے ساتھ سپر پاوری کی نشہ میں چور شاہی فوج اور اس کے اتحادیوں کو کئی لاشیں اٹھاتے تھکا دیا۔ ان تھکی فوجوں کے کمانڈر میاں خدایار خان، شہداد تالپور ساتھ کچھ اور سپاہی قرآن شریف ہاتھ میں اٹھا جھوک کے کمانڈر شاہ عنایت کو قرآن کا واسطہ دے کر مکارانہ مذاکرات اور جنگ بندی کی درخواست کی۔ آپ کے بعض رفقاء نے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ قسمیں اور عہد و پیماں دشمن کی چالیں ہیں لیکن شاہ عنایت نے قرآن کی عظمت آگے ان کی مکاری اور ذہنی غلاظت کو جانتے ہوئے ان کو جھوک کے قلعہ اندر آنے کی اجازت دی۔ ان مکار لوگوں نے یکم جنوری 1718ء میں شاہ عنایت کو اپنے قلعہ سے باہر اعظم خان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی دعوت دی۔ شاہ عنایت جنگ، مورچہ، سپاہ، فتح، شکست، دائرہ، سانجھی کاشت کاری اور جھوک کے 24 سو فقیروں کو قرآن کے حوالے کر کے ان کے پیچھے چل پڑے (دھوکا جو شاہ صاحب نہیں سمجھ پائے اور جو آج تک مقدسات کے نام پر ہمارے ساتھ ہو رہا ہے)۔ شاہ عنایت کو مکارانہ عزت احترام دینے والے ان مکاروں نے اپنے خیمے پہنچنے کے بعد شاہ اور اس کے سپاہیوں کو گرفتار کر لیا اور اپنے قول و ضمانتوں سے مکر کر انہیں قیدی بنا لیا۔ مذہب قرآن، انجیل، تورات، بھگوت گیتا، رامائن، گرانٹ صاحب اور دوسری مقدس کتابیں اور مقدسات تو شہنشاہوں، جاگیرداروں اور ممالک کے صدور کے لئے نا پہلے کچھ تھے نا اب کچھ سمجھے جاتے ہیں یہ سارے مقدسات صرف بھولی بھالی عوام گمراہ کن عوام کے لئے ہوتے ہیں ان کے لئے تو سب کچھ صرف شاہی اور حکومت ہوتی ہے۔

انھوں نے شاہ عنایت کو گرفتار کرنے کے بعد شاہ جی کے آگے اپنے مطالبے رکھے کہ آپ یہ سانجھی کاشت کاری اور ان مظلوموں غریبوں کا ساتھ چھوڑ دو اور مغل شاہی کے طریقہ کار کے مطابق اپنی زندگی کی امان پاو  ورنہ موت کے لئے تیار ہو جاو، شاہ عنایت مکاروں کی ساری مکاروں چھوڑ کر اپنے انجام کے لئے تیار ہو گئے۔یہ نا ماننے کے بعد شاہ شہید کو دھمکایا گیا، شاہ کے بھائی اور بھتیجے جو شاہ کے ساتھ گرفتار ہوئے تھے ان کو لٹکایا گیا اور شاہ کو دھمکی دی گئی کہ اگر وہ ان کے مطالبات نہیں مانتے تو ان کی گردنیں باری باری اتار دیں گے۔ شاہ کی آنکھوں کے سامنے شاہ کے بھائی کی گردن اتاری گئی پھر ایسے ہی اس کے بھتیجے کی لیکن شاہ اپنے نظریات سے کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے پر نا قائل ہو سکے۔ یہاں اعظم خان اور صوفی شاہ عنایت کی درمیان ہونے والے مکالمے میں سے کچھ ملاحظہ ہو۔:

اعظم خان: تم نے اپنے آپ کو کیوں مصیبت کا شکار کیا اور بدنام ہوئے؟
شاہ عنایت: عاشق ملامت کا بوجھ نا اٹھائے تو کیا کرے، قضا کے تیر کی ڈھال کسی کے پاس نہیں۔
اعظم خان: حاکم وقت کی اطاعت کیوں ترک کی؟
شاہ عنایت: ہم مرید اپنا منہ کعبہ کی طرف کیسے کریں کہ ہمارے پیر کا جانب مے خانہ ہے۔

آخرکار 7 جنوری 1718 میں شاہ عنایت کی گردن ان کی اپنی استاد والی تلوار کے ساتھ اتار دی گئی جو وہ ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ فقیر شاہ عنایت سائیں شہید نے اپنے استاد کے ساتھ کیا وعدہ کے اس تلوار کی قیمت گردن ہے پورا کر دکھایا۔ وہ آخری وقت میں یہ شعر پڑھ رہے تھے:

رہ یندی میرا از قید ہستی
جز فی اللہ فی الدارین خیرا

 شاہ عنایت کے شہید ہونے کے بعد یہ خبر آگ کی طرح بھڑکتی بھڑکاتی ہوئی جھوک تک پہنچی اور جھوک کے فقیر بہت بڑے قتل عام اور جنگ کے بعد سارے کے سارے شہید ہو گئے اور سات بڑے کنوئیں کھود کر سانجھی کاشت کاری کی طرح سانجھی قبروں میں دفنا دیے گئے، جسے آج ہم گنج شہیداں کہتے ہیں۔ اس قتل عام پر علی شیر قانع لکھتے ہیں کہ “سبحان اللہ کیا خدائی ہے کہ خود اس کا نام لینے پر سر قلم ہوتے تھے لیکن عاشقوں کا یہی راستہ ہے”۔ مسلسل چار مہینے رہنے والی یہ خونی جنونی جنگ آج چار سو سال بعد تک بھی کسی نا کسی طریقہ سے مزدور اور غریب طبقے کی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقے کے درمیان جاری ہے۔ شاہ عنایت کے بلند سر کو نوک تلوار پر چڑھایا گیا اور یہ بلند و بالا سر 48 دن تک ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں چکر لگاتا، بغاوت کی کافیاں گاتا، عشق کی دھنیں بجاتا اور جھوک کے فقیروں کی لوریاں سناتا دلی کے شاہی دربار میں انعام و اکرام کی غرض سے پیش کیا گیا۔ ویسے بھی دلی کے شہنشاہوں کو ایسے سر بہت پسند ہیں۔

شاہ عنایت نے فیوڈلزم کے دور میں اجتماعی معیشت یعنی سوشلسٹ طریقہ کار کو رواج دینے کی کوشش کی اور ان کی جدوجہد لائق تحسین ہے لیکن معاشرتی ارتقاء پر کسی کا اختیار نہیں۔ لیکن ان کا یہ تجربہ کامیاب گزرا اور اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ ریاست کی قوت قاہرہ ہمیشہ حق و انصاف کے بجائے اونچے طبقات کے مفاد کی پہرہ دار نظر آتی ہے۔ افسوس ہمارے درسی نصاب میں حملہ آوروں کا ذکر تو موجود ہے لیکن ہم شاہ عنایت شہید کے نام سے بھی نا بلد ہیں۔

آرٹ ورک: جارج ارلر 1912ء

Spread the love

2 Replies to “شاہ عنایت کا نظامِ اشتراک”

Leave a Reply