رحمت تونیو
جب ظلم و جبر، ناانصافیوں اور استحصال سے تنگ آ کر عوام اکٹھی ہوتی ہے، تو ایک ایسی مزاحمت جنم لیتی ہے جس کے آگے دنیا کی بڑی بڑی فاشسٹ طاقتیں اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسی ہی عوامی مزاحمت سندھ کے اندر دیکھنے میں آئی، جب عوامی رہنما کامریڈ سینگار کو جبری طور لاپتہ کیا گیا۔ عوامی ورکرز پارٹی سندھ، نصیرآباد پارٹی اور شہری اپنی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیڈر کو آزاد کروایا۔ 36 روز مسلسل احتجاجی ریلیاں اور دھرنے جاری ہیں، جبکہ اس عرصہ میں سندھ کے مختلف شہروں میں ضلعی سطح کے احتجاج بھی ہوئے۔ اس مسلسل جدوجہد کی بدولت بلاآخر کامریڈ سینگار نوناری رہا کر دئے گئے۔
یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی مسنگ پرسن کے لیے ایک ماہ سے زائد عرصہ سے مسلسل احتجاجی ریلیاں اور دھرنے جاری رہے۔ لاڑکانہ سے قریب ضلع قمبر شہدادکوٹ کے تعلقہ نصیرآباد میں ہر روز شہری، ورثاء اور پارٹی کی جانب سے احتجاجی ریلیاں نکال کر دھرنے دیے۔ ان لوگوں کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ “جبری گمشدگیوں کا سلسلا ختم کرو”، “کامریڈ سینگار نوناری کو آزاد کرو”۔ مسلسل 36 روز سے احتجاج جاری تھے کہ اگلے دن 37ویں روز یعنی یکم آگست کی صبح کو کامریڈ سینگار نوناری کو ضلعہ خیرپور میرس کی حدود میں رہا کیا گیا۔ جیسے ہی وہ اپنے شہر نصیرآباد پہنچے تو شہر کے سینکڑوں لوگوں نے (بوڑھے، بچے، عورتیں، مزدور، کسان اور پارٹی کارکنان) نے کامریڈ سینگار کا گلاب کے پھول برسا کر شاندار استقبال کیا۔ اسی ہی روز سندھ بھر سے پارٹی قیادت اور کارکنان کے آنے اور کامریڈ سینگار کو مبارکباد دینے کا سلسلا جاری رہا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی جبری گمشدہ کیے گئے سیاسی رہنما کا ایسے شاندار طریقے سے ہزاروں لوگوں نے استقبال کیا۔
عوامی ورکرز پارٹی سندھ نے عوامی مزاحمت کے باب میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جس سے سندھ اور پاکستان بھر سے مختلف ترقی پسند جماعتیں، حلقے اور سینکڑوں لوگ متاثر ہوکر اس جدوجہد کو سراہا۔ چھبیس جون کی رات تین بجے کامریڈ سینگار نوناری کو اپنے گھر سے رینجرز، پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ اٹھا کر کے گئے تھے۔ اگلے دن یعنی 27 جون کو ان کی پارٹی ‘عوامی ورکرز پارٹی’ کا زمینوں پر غیر قانونی قبضے اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف ملک گیر احتجاج طے تھا، احتجاج کے سلسلے میں کامریڈ سینگار اپنے شہر میں لوگوں کو منظم کر رہے تھے تو اس احتجاج کے ایک دن پہلے ہی انہیں جبری طور اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔
کامریڈ سینگار نوناری، عوامی ورکرز پارٹی سندھ کے قائم مقام مزدور سیکرٹری ہیں۔ جب یہ پارٹی (مختلف تنظیموں کے انضمام سے) بنی تھی، تب سے کامریڈ سینگار نوناری اس کا حصہ رہے ہیں اور شہر نصیرآباد میں بائیں بازو کی سیاست کرتے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ لیبر پارٹی کا حصہ تھے۔ بعد میں لیبر پارٹی اور دیگر دو پارٹیوں کے انضمام سے عوامی ورکرز پارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔
کامریڈ سینگار نوناری نے نصیرآباد میں ہی 5 مارچ 1980ء کو مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک گھر میں جنم لیا۔ ان کی پرورش اپنی نانی کے گھر ہی ہوئی۔ کامریڈ سینگار نے ابتدائی تعلیم، نصیرآباد سے ہی حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے لیے، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کا رخ کیا، جہاں پر انہوں نے بے اے کی ڈگری حاصل کی۔
شمالی سندھ کا تعارف ایک حوالے سے وڈیروں اور سرداروں کے نظام کے طور پر ہوتا تھا، ساتھ ہی اس نظام کے خلاف لڑنے والے کامریڈ حیدر بخش جتوئی جیسے ناموں سے بھی یہ علاقہ پہچانا جاتا ہے۔ سیاسی و سماجی طور پر متحرک علاقے سے تعلق ہونے پر کامریڈ سینگار کو پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لئے کام کی ذمہ داری وراثت میں ہی ملی۔
کامریڈ سینگار نے سیاست کے سوا کوئی اور ہنر نہیں سیکھا۔ڈگری کے بعد روزگار کے لئے انہوں نے ایم آر انٹرپرائز میں بطور ایریا مینیجر کام کیا۔ مگر وہ نوکری بھی تھوڑا عرصہ کر سکے۔ اس کے بعد انہوں نے خانگی سکول میں ٹیچنگ کی، بعد میں وہ کل وقتی سیاست کرنے لگ گئے۔ ان کا ذریعہ معاش، خاندان کی طرف سے ملی ہوئی دوکان، کچھ زمین اور مچھلی کا چھوٹا سا فارم ہے۔ کامریڈ سینگار کو کسی بڑی نوکری یا پیسہ کمانے کی خواہش ہی نہیں تھی، یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے انھوں نے اپنے شہر میں ہی رہ کر شہریوں کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی۔
کامریڈ سینگار نے سیاسی جدوجہد کا آغاز بچپن سے ہی کر دیا تھا۔ بچپن سے ہی وہ نمسوا “نوناری محلہ ویلفیئر ایسوسی ایشن” کے پلیٹ فارم پر سرگرم رہے۔ جس کے بعد کچھ وقت قوم پرست سیاست میں رہے۔ اس کے بعد گزشتہ 16 سال سے کامریڈ سینگار نوناری، بائیں بازو کی سیاست کرتے آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ “شہری اتحاد نصیرآباد” میں بھی متحرک رہے اور دو مرتبہ صدر بھی رہ چکے ہیں۔سینگار نوناری کی جدوجہد، کمٹمینٹ اور جذبے کو دیکھ کر ہی مزدوروں، طلبہ، کسانوں، عورتوں نے ان پر اعتماد کیا، جب انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو بہت کم وسائل کے باوجود سینگار نے وڈیروں کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست دی۔ کامریڈ سینگار نوناری، عوامی ورکرز پارٹی کی ٹکٹ پر 2018ء میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔
کامریڈ سینگار اپنے شہر اور قریبی علاقوں میں مزدوروں، کسانوں، طلبہ، عورتوں، اور عام شہریوں کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے رائس ملز مزدوروں کو منظم کیا، مناسب دیہاڑی اور یونین سازی کے حق کے لئے جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کی بدولت دیہاڑی میں اضافے کے ساتھ مزدوروں کے دیگر مسائل بھی حل ہوئے۔ کسانوں کے ساتھ بھی شانہ بشانہ کھڑے رہے، نقلی زرعی ادویات اور اجناس، فصل کے کم ریٹ اور دیگر مسائل پر کامریڈ سینگار اپنی تنظیم اے ڈبلیو پی کے پلیٹ فارم سے احتجاج کرتے رہے۔
علاقے میں سکولوں کی کمی کے سوال پر بھی کامریڈ سینگار مسلسل آواز بلند کرتے رہے۔ نصیرآباد، فریدآباد اور دیگر شہروں میں لائبریریوں کے قیام کے لئے ہونے والے احتجاجوں میں طلبہ کا ساتھ دیا۔ اور اس کے ساتھ نصیر آباد میں پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کرکے متحرک کیا۔ طلبہ یکجہتی مارچ اور دیگر احتجاجی ریلیوں میں طلبہ کے حقوق کےلئے آواز بلند کرتے رہے۔ اور ان احتجاجوں کے پلے کارڈز خود بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی تعاون کرتے رہے۔
جہاں پر قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرے کی جڑیں ہوں، وہاں پر ایسی عوام دوست سیاست کرنا آسان کام نہیں، اسی معاشرے میں کامریڈ سینگار نے لوگوں کو قائل کیا کہ اپنی لڑکیوں کو سکولوں میں داخل کروائیں۔ جس کی بدولت کئی لڑکیاں تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہوئیں۔
نصیرآباد میں عورتوں کی سیاسی تربیت کے حوالے سے کامریڈ سینگار کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ نصیرآباد جیسے شہر میں بائیں بازو کی سیاست میں عورتوں کی شمولیت ایک بہت مشکل کام تھا۔ انہوں نے اپنے آدرشوں کو عملی زندگی کا حصہ بنایا، اور اپنی بیوی اور بہنوں کو بائیں بازو کی سیاست میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گھر میں ہر ہفتے عورتوں کو سٹڈی سرکل منعقد ہوتا رہا اور شہر کی دیگر عورتیں بھی دلچسپی سے سٹڈی سرکلز میں حصہ لینے لگیں۔ اس طرح نصیرآباد میں “ناری جمہوری محاذ” کا قیام عمل میں آیا۔
کامریڈ سینگار نوناری، مذہبی رواداری میں بھی نمایاں کردار ہیں۔ ہولی اور دیگر تقریبات میں ہندو بھائیوں کی خوشیوں میں ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آزادی کے لیے ہونے احتجاجوں میں ہندو بھائیوں سمیت، جے یو آئی اور شیعہ علماء کونسل کے لوگ پابندی سے شرکت کرکے “کامریڈ سینگار کو آزاد کرو” کے نعرے لگاتے ہیں۔
کامریڈ سینگار نوناری نے 2018ء میں ایک ایسے سوشلسٹ اسکول کی بنیاد ڈالی، جو نہ صرف نصیرآباد، لاڑکانہ اور سندھ بلکہ ملکی سطح کا ایونٹ بن گیا۔ ہر سال ہونے والے کامریڈ حیدر بخش جتوئی سوشلسٹ اسکول میں سیاسیات، معاشیات، ثقافت اور دیگر ابھرتے ہوئے سوالات پر بحث مباحثے ہوتے ہیں، جس میں پورے ملک سے مقررین آ کر حصہ لیتے ہیں۔
کامریڈ سینگار مچ کچہریوں اور لطیف کچہری کا انعقاد کرکے ثقافت، ادب، آرٹ اور سیاست کا اصلی ملاپ کی ایک بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ جس میں صوفی کلام گانے والے، شاہ عبدالطیف کے اشعار کی تشریح کرنے والے اور سیاسی، سماجی و علمی لوگ بھرپور حصہ لے کر پروگرام کو جان بخشتے ہیں۔
ہر کسی سے بہت پیار و محبت سے ملنے والا، ہر کسی کے درد کو اپنا درد سمجھنے والا، بچے سے لے کر بوڑھے شخص کی بات کو اہمیت دے کر سننے والا، مزدوروں اور کسانوں کا ہمدرد، طلبہ اور طالبہ کا ساتھی، عورتوں سمیت ہر شہری کی انسپائریشن اور محبوب شخصیت کامریڈ سینگار نوناری اپنی آزادی کے بعد بھی اسی جذبے اور کمٹمینٹ کے ساتھ پسے ہوئے طبقات کے لئے جدوجہد کرنے کے حوالے سے پرعزم ہیں۔
Beautiful write up to acknowledge commitment, devotion and lifelong struggle of our beloved comrade Seengar Nonari.
Thanks for your contribution.
Regards
Pervez Fateh