درمیانے طبقے کی تحریکیں اور بائیں بازو کا رویہ

آزاد

ہمیں اکثر دکھائی دیتا ہے کہ بائیں بازو کے دانشور حضرات بالخصوص، درمیانے طبقے کی تحریکوں سے اتنے لطف اندوز ہو جاتے ہیں کہ وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پرولتاریہ بھی کوئی طبقہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ پیٹی بورژوا سیاست ہی ان کی راہ نجات ہے۔ “لبرل لیفٹ” کا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے، لیکن جب اچھے بھلے سوشلسٹ یا وہ جو خود کو مارکسی نظریے سے جوڑتے ہیں، وہ بھی درمیانے طبقے کی تحریکوں سے اپنی امیدیں جوڑتے ہیں تو واقعی تعجب ہوتا ہے۔

نوے کی دہائی میں بشمول پاکستان کے، دنیا بھر کی محنت کش تنظیموں اور تحریکوں نے ترمیم پسندی اپنا کر حقیقی معنوں میں محنت کش طبقے کی سیاست کرنا بھلا دیا۔ ہم نے پاکستان میں بھی دیکھا کہ کس طرح سماج کی نچلی سطح پر اتر کے تنظیم سازی کرنے کی بجائے بائیں بازو کی قیادت خود کو پاپولسٹ لیڈر سمجھنے لگی اور محنت کش طبقے کی سیاسی قوت بڑھانے کے بجائے “نمبرز گیم” میں پڑ گئی۔ بپھری ہوئی عوام سے ان کے روزمرہ کے مسائل پر مخاطب ہونا ایک نہایت ہی اہم عمل ہے، جس کے بغیر کوئی بائیں بازو کی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب یہ عمل ایک طبقاتی نکتہ نظر سے نہیں کیا جائے، جب اس کا مقصد صرف مجمع کو اپنی طرف متوجہ کروانا ہو، ایک موجودہ تحریک یا ابھراؤ کا طبقاتی کردار سمجھے بغیر اس کی حمایت کرنا ہو، یعنی مختصر میں ماس لائن کی جگہ پاپولزم کی طرف رجوع ہو تو یہ عمل مفاد پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ کسی فرد تک محدود نہیں ہے بلکہ بائیں بازو کی سیاست میں پایا جانے والا ایک فکری و عملی رجحان ہے، تو میں کسی کا نام لئے بغیر صرف اس رجحان سے وابستہ لوگوں کے موقف پر تنقید کروں گا اور آپ سب سمجھ جائیں گے کہ کن کی بات ہو رہی ہے۔

کسی بھی رجحان پر تنقید کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس رجحان کا صاف الفاظ میں تعارف کیا جائے تاکہ بات موضوع سے نا ہٹے۔ اس رجحان، جسے میں درمیانے طبقے کی پاپولزم کہوں گا، کا بھی تعارف کرنا ضروری ہے۔ عملی طور پر یہ رجحان تب ظاہر ہوتا ہے جب بھی درمیانہ طبقہ ذرا سا بھی سیاسی شعور دکھاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف یلغار ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں یہ رجحان رکھنے والوں کا جی للچاتا ہے کہ وہ بھی ایسی تحریک کا حصہ بنیں اور بحائے اس کے کہ وہ مزدور طبقے کی اپنی کوئی تحریک منظم کریں، وہ درمیانے طبقے کی تحریکوں سے جا ملتے ہیں۔ یہ رجحان فوری پارلیمانی جیت کو ترجیح دینے لگتا ہے اس لئے وہ ہر اس تحریک سے جڑنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اسے ووٹ حاصل کرنے کی توقع ہو۔ کیونکہ یہ رجحان بنیادی طور پر پیٹی بورژوا دانشوروں کا ہے، اس لئے اس کے فکری پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے ان کی اکیڈمک تھیوریوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے۔ ان تھیوریوں میں ماؤ سے لے کر گرامشی، لوکاش، التھوزر اور ہر قسم کی انقلابی اور نیم انقلابی شخصیات کے حوالے دے کر اپنی مفاد پرستی کی وضاحت کی جاتی ہے۔ ان سب تھیوریوں کی باریکیوں میں جانے سے یہ مضمون زیادہ طویل ہو جائے گا تو خلاصے میں یہ کہنا کافی ہے کہ یہ موجودہ صورتحال میں ریاست سے نسبت پانا سب سے اہم کام سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بنیادی تضاد سمجھا ہے اور درمیانے طبقہ کی سیاست ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ کے مخالف ہے۔ یہ درمیانے طبقے کی تحریکوں سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے پہلے ایک جمہوری نظام قائم ہوگا جس کے بعد ہی سوشلسٹ انقلاب کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔

اس رجحان کی اول غلطی تو یہ ہے کہ جس درمیانے طبقے کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ صلاحیتوں پر وہ اپنی امیدیں لگا بیٹھا ہے وہ درمیانہ طبقہ بذات خود ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ نہیں ہے۔ درمیانہ طبقہ ایک چنچلا طبقہ ہے جو صرف طاقت کا ساتھ دیتا ہے، چاہے وہ طاقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں۔ ہر طبقہ اپنے مفاد کی سیاست کرتا ہے چاہے وہ محنت کش طبقہ ہو یا سرمایہ دار طبقہ۔ کیونکہ یہ ریاست ایک طبقاتی ریاست ہے جو حکمران طبقے کا آلہ ہے، اس لئے حکمران طبقے کے مفاد بھی ریاست سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ طبقاتی ریاست محنت کش طبقے کو کچلنے کے لیے حکمران طبقے کا آلہ ہے، تو محنت کش طبقے کے مفاد اسے گرانے میں ہیں۔ درمیانے طبقے کا ریاست سے تعلق اتنا سیدھا نہیں ہے۔ مختلف اوقات پر درمیانے طبقے کے مفاد ریاست سے جڑے بھی ہیں اور اس سے تضاد میں بھی رہے ہیں۔ اس ہی لئے ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ کبھی درمیانے طبقے نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ بھی دیا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی کھڑی ہوئی ہے، لیکن اگر جمہوریت کے لئے جدوجہد ہی مقصد ہے، تو ایسا چنچلا کھلاڑی اس مقابلے کے لئے نامناسب ہے۔

لیکن ہم ایک لمحے کے لیے یہ تصور کر لیتے ہیں کہ درمیانے طبقے کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک مخاصمانہ تضاد ہے۔ اس کے باوجود یہ رجحان درست نہیں ہو گا اور اس کی وجہ ہے اس کی دوسری غلطی، کہ اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت پہلا سیاسی فریضہ ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ فوج اور بیوروکریسی نے مل کر پاکستان کی سیاست کو اپنے جکڑ میں لیا ہوا ہے اور بے شک ملک کی عدلیہ سے لے کر پارلیمنٹ تک ہر ادارہ ان کے قبضے میں ہے اور داخلی، خارجی، معاشی ہر طرح کی پالیسی ان کے ایجنڈا کے تحت چلتی ہے۔ اس سب کے باوجود، اسٹیبلشمنٹ کا کردار پاکستانی ریاست کی سب سے اہم خصوصیت نہیں ہے۔ نا ہی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سب سے اہم معاشی و سیاسی قوت ہے، بلکہ وہ اس قوت کے بھی سپرد ہے اور اس کا ہر عمل اس کی حمایت میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک جدید نوآبادیاتی ریاست ہے۔ یعنی پاکستان میں اس وقت سب سے اہم سیاسی و معاشی قوت بین الاقوامی سرمایہ ہے۔ تقسیمِ ہند سے آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ عالمی سامراج کی حمایت کی ہے چاہے وہ سامراج برطانوی ہو، امریکی ہو یا چینی، آج پاکستان کی معیشت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے شکنجوں میں ہے اور زراعت سے لے کر کوئلہ نکالنے تک تمام معاشی سرگرمیاں عالمی سرمایہ کاری کی محتاج ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ طبقات جو ان سرگرمیوں میں مبتلا ہیں، یعنی جاگیردار و سرمایہ دار، بھی عالمی سرمایے کے محض گماشتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ یا تو خود بھی ایسی سرگرمیوں میں شریک ہے یا ان طبقات کی حمایت کرتی ہے جو ان سرگرمیوں میں شریک ہیں۔ اس نکتہ نظر کی روشنی میں ہم اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح سمجھتے ہیں وہ بھی بدل جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کے جدید نوآبادیاتی کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اسٹیبلشمنٹ کو اس پیرائے میں سمجھ سکتے ہیں کہ وہ تمام ریاستی ادارے؛ فوج، سول بیوروکریسی، ادالیہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ جو پاکستان میں عالمی سامراج یعنی بین الاقوامی مالیاتی اداروں، عالمی سرمایہ کاروں اور سامراج ممالک کے مفادات کا تحفظ اور ان کے گماشتے طبقات کا تحفظ کرتے ہیں، ان کا کل اسٹیبلشمنٹ ہے۔

ایسے میں پھر ایک حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک صرف وہ ہی ہو سکتی ہے جو بین الاقوامی سرمایے کی بےدخلی کے لئے لڑے اور سامراج اور اس کے گماشتوں کی مخالفت کرے۔ قارئین شاید اس پر اعتراض اٹھائیں کہ درمیانے طبقے کی تحریکیں اکثر کم از کم نام میں ہی سامراج مخالف ہوتی ہیں۔ لیکن سامراج مخالف ہونے کے لئے امریکہ کو گالیاں دینا ہی محض کافی نہیں بلکہ جب تک ان طبقات کے لئے آواز نا اُٹھائی جائے اور ان کے ساتھ نا جڑا جائے جن کا سامراج اور اس کے گماشتے استحصال کرتے ہیں، تب تک کوئی تحریک سامراج مخالف نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ تحریکیں مزدوروں اور کسانوں سے جڑنے کی بجائے انہیں کوستی ہیں، تو یہ تحریکیں سامراج کی مخالفت نہیں کرتیں بلکہ استحصال سے کمائی ہوئی دولت میں سے بس اپنا حصہ مانگتی ہیں۔ معاشی بحران کے وقت درمیانہ طبقہ مزدوروں اور کسانوں میں دوست طبقات ضرور ڈھونڈتا ہے لیکن کیونکہ وہ سماجی سیڑھی چڑھ کر حکمران طبقے کا حصہ بننا چاہتا ہے اور محنت کش عوام جیسے “انجام” سے بچنا چاہتا ہے، اس لئے درمیانے طبقے کی پاپولسٹ تحریکیں ہمیشہ اصلاح پسند ہوتی ہیں اور مزدوروں اور کسانوں کی سیاسی قوت محض ریاست سے اپنے لئے دولت کا زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ پھر جب اسٹیبلشمنٹ درمیانے طبقے کا ساتھ دیتی ہے تو فوراً یہ طبقہ اس کی حمایت میں جا کھڑا ہوتا ہے چاہے اس وقت اسٹیبلشمنٹ جتنا بھی سامراج کی حمایت کرے اور مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی پامالی کرے۔ اس طرح کی سیاسی قوت کے ساتھ نا اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور نا ہی جمہوریت کی جدوجہد ہو سکتی ہے، سوشلزم کی تو بہت دور کی بات ہے۔

تیسری غلطی اس رجحان کی یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ریاست سے رسائی کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ یہ رجحان بالکل سہی سمجھتا ہے کہ مظلوم کی جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست اور اس کا جبر ہے لیکن اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مظلوم طبقہ ریاست کی حمایت حاصل کر کے اپنی جدوجہد چلا سکتا ہے۔ اس ناسمجھی کے تحت وہ کوشش کرتا ہے کہ ہر اس تحریک کے ساتھ جڑے جو اسے ریاست سے قریب کر سکے یعنی اس کو پارلیمنٹ تک پہنچا سکے۔ یہاں پہنچ کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ حکمران طبقوں کی بالادستی توڑ کر ایک رد بالادست سیاست کی بنیاد ڈال سکتا ہے۔ اپنی اس موقع پرستی کی پھر وضاحت کرنے کے لئے یہ لینن کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس نے بھی ڈوما میں بیٹھنے کو کہا تھا جیسے کہ لینن نے اپنی 54 سالہ زندگی میں صرف یہ ہی کام کیا ہو اور اس کے بعد مارکسی سیاسی فکر و عمل میں کوئی اضافہ نا ہوا ہو۔

یہاں پھر وہ پرانا کلیشہ دہرانا ضروری سمجھوں گا: یہ ریاست ایک طبقاتی ریاست ہے۔ اس فقرے کا مطلب کچھ یہ ہے کہ ریاست ایک ایسی شے ہے جو ایک طبقاتی نظام کے تضادات کی وجہ سے جنم لیتی ہے اور اس نظام کے حکمران طبقے کا آلہ ہوتی ہے۔ ایسی ریاست صرف اس مخصوص حکمران طبقے اور اس کے دوست طبقات کے مفادات کی حفاظت کرتی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی صرف ان کی ہی نمائندگی ہوتی ہے۔ ریاست کی موخرالزکر خصوصیت پر شاید کچھ دانشور ضرورت سے زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ ریاستی اقتدار حاصل کرنے کے لئے لیکن فقط نمائندگی حاصل کرنا کافی نہیں ہے۔ تاریخ میں ایسے اصلاح پسند تجربات کی ان گنت مثالیں ہیں جو ریاستی اداروں میں نمائندگی حاصل کر کے بھی ناکام ہوئے لیکن افسوس کہ ان کی غلطیوں سے ابرت حاصل کر کے انقلابی راستہ اختیار کرنے کے بجائے بیشتر انہیں راہ نجات سمجھ بیٹھے ہیں۔

اس سب کے باوجود لیکن درمیانہ طبقہ، یا کم از کم درمیانے طبقے کا بھی نچلا حصہ، محنت کش طبقات کے دوست طبقات میں شامل ہے۔ اس لئے اس کی تمام خامیوں کے باوجود اس سے مکمل طور پر قطع تعلق نہیں کیا جاسکتا۔ درمیانے طبقے کا ہر حصہ یکساں نہیں ہے، اس طبقے کے بھی مزید زمرے ہیں۔ درمیانے طبقے کا کھاتا پیتا زمرہ ایک رد انقلابی اور مفاد پرست کردار کا حامل ہے، وہ ریاست کا محنت کش طبقوں پر تشدد کی حمایت کرتا ہے، نجکاری کے حق میں بات کرتا ہے اور عموماً نیولبرل نظریے سے جڑتا ہے۔ درمیانے طبقے کا مطوست زمرہ ایک چنچلا کردار کا حامل ہے جو اکثر محنت کش طبقے کو اپنے سے نیچ سمجھتا ہے اور کھاتے پیتے طبقے کا حصہ بننے کی آرزو رکھتا ہے لیکن معاشی بحران آنے پر نجکاری اور ریاست کے تشدد کے خلاف یلغار ہو سکتا ہے۔ درمیانے طبقے کے سب سے نچلے زمرے کی معاشی صورتحال ہمیشہ نازک ہوتی ہے اور غربت میں پھسلنے کے لئے بس ایک بحران کافی ہوتا ہے، تینوں زمروں میں سے اسے ہی نجکاری کی وجہ سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ریاست کے تشدد کا ہی وہ زیادہ نشانہ بنتا ہے۔ باقی زمروں کے بر عکس نچلا زمرہ محنت کش طبقے سے سب سے قریب ہے، صرف آمدنی کے حوالے سے نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی میں بھی وہ محنت کش طبقے سے زیادہ رابطے میں رہتا ہے۔ یہ زمرہ پارلیمانی راستے سے بھی باقی زمروں کی بنسبت زیادہ مایوس ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ طلباء بھی درمیانے طبقے کا ایک گروہ ہیں جس میں انقلابی تنظیم سازی کی گنجائش ہے۔ طلباء ایک اقتصادی طبقہ نہیں ہے، اس کو اس کے ذرائع پیداوار سے تعلق کی بنیاد پر نہیں پہچانا جاتا، بلکہ وہ ایک سماجی کردار ہے جو درمیانے طبقے کے افراد اپنی زندگی میں کسی وقت ادا کرتے ہیں۔ اپنے منفرد سماجی مقام کی وجہ سے طلباء کو انقلابی تنظیم سازی کی طرف متحرک کیا جا سکتا ہے۔ نجکاری کی وجہ سے یونیورسٹی فیسوں میں اضافے اور کیمپسوں پر رینجرز کی موجودگی کی وجہ سے انہیں نیولبرلزم اور ریاستی تشدد کے خلاف متحرک کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے نظریاتی کردار کی وجہ سے طلباء کو نیم جاگیردارنہ اور جدید نوآبادیتی نظریات کی مخالفت کرنے پر اکسایا بھی جا سکتا ہے۔

ان دونوں طبقات کی تنظیم سازی لیکن ضروری ہے کہ محنت کش طبقے کی قیادت میں ہو۔ بیشک یہ شروع میں اپنی پیٹی بورژوا اکڑ کی وجہ سے مزدوروں اور کسانوں کی قیادت تسلیم نہیں کریں گے، یہاں کچھ عرصے ان کے ساتھ متحدہ محاذ کا حصہ بن کر کام کرنا ہوگا۔ لیکن ایک متحدہ محاذ اپنے آپ میں کسی انقلای تنظیم کا مقصد نہیں ہو سکتا، اس محاذ میں درست سیاسی موقف پر جدوجہد کرنا لازمی ہے تاکہ اصلاح پسند اور پارلیمانی رجحانات کی مخالفت کی جا سکے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں درمیانے طبقے کا ایک محنت کشوں سے وفادار حصہ حاصل ہو گا۔

لیکن درمیانے طبقے کا ہر فرد جو محنت کش طبقے کی جدوجہد میں شامل ہوگا، صداقت کے ساتھ شامل نہیں ہو گا۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اکثر محنت کش تحریکوں میں شامل ہونے والے افراد صرف اس کے ذریعے اپنے سیاسی مفاد پورے کرنے کے لئے شامل ہوتے ہیں۔ اور اگر ان کی نیت واقعی محنت کش طبقے کی بحالی ہو تب بھی ہمیں اکثر ایسے لوگ ملتے ہیں جو خود کو محنت کشوں کا مسیحا سمجھتے ہیں اور عوام کے ساتھ تقریباً پدرانہ رویے سے پیش آتے ہیں۔ یہ دونوں طرح کی شخصیات پاپولزم کو اجاگر کرتی ہیں جو محنت کشوں کو بھیڑ سمجھتی ہے۔

ان افراد کی نیتیں صاف بھی ہوں اور مسیحانہ رویہ نا بھی ہو، درمیانے طبقے میں ہمیشہ چنچلاپن اور اصلاح پسند رجحانات موجود رہیں گے۔ انہیں جدوجہد میں شامل ضرور کرنا چاہیے لیکن کبھی انہیں اس کی قیادت نہیں دینی چاہیئے۔ جب بھی کوئی محنت کش تنظیم یا تحریک ترمیم پسندی کی طرف رجوع ہوئی ہے تو اس کے قصوروار اس میں پائے جانے والے پیٹی بورژوا عناصر تھے۔ ایسے انجام سے بچنے کے لئے ایک تنظیم کو ماس لائن کی ضرورت ہے، یعنی سیاسی حکمت عملی دانشوروں کے بجائے محنت کش عوام سے حاصل کرنا اور تنقید و خود تنقید کے ذریعے اس حکمت عملی کے پابند رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ پاپولسٹ سیاست کے ذریعے نہیں بلکہ محنت کش طبقے کو اپنی سیاست لڑنے میں خود مختار بنانے سے ہو گا۔ آخری تجزیے میں اس درمیانے طبقے کی پاپولزم کی طرف رجحان کی وجہ محنت کش عوام میں عدم اعتماد ہے اور اس کا حل محنت کش طبقے کی خود مختاری ہے۔

Spread the love

Leave a Reply