ظہیر بلوچ
مسلسل بارشوں اور سیلاب کے بعد بارانی کاشتکاری علاقہ جات، جہاں بارشوں کے سبب فصلیں کاشت ہوئیں، دہائیوں کے بعد سرسبز ہونے والے کچھی کی زمینوں پر زمینی تکرار دوبارہ شدت سے ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ کچھی کینال کی بحالی کا کام ادھورا پڑا ہے، مگر زمینوں پر قبائلی اور لسانی بنیاد پر لوٹ مار ابھی سے جاری ہے۔ سیلاب کے بعد آباد ہونے کے بعد زمینوں پر قبضہ گیریت مذید شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔
گزشتہ روز ڈیتھ اسکواڈ سے تعلق رکھنے والے مسلح جتھے چھوٹے کاشتکاروں کی زمینوں پر یہ کہہ کر چڑھ دوڑے اور دو کسانوں کا قتل کر کے زمینیں قبضہ کرنا شروع کیں کہ خان آف قلات نے انہیں یہ زمینیں فراہم کی۔ دوسری طرف کے سندھی بولنے والے چھوٹے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ مہرگڑھ کی تاریخ جتنی پرانی تاریخ رکھتے ہیں، اور مہرگڑھ کے وارث ہیں۔ قبائلی قیادت بھی اس معاملے پر نسلی تعصب کو ہوا دے رہی ہے۔ یعنی کہ پیور بلڈ کی تلاش میں اب جیسے مہرگڑھ کے نوادرات کی ڈی این اے کرانے کی نوبت آ پہنچی ہو۔ دونوں اطراف کے نیشنل بورژوازی نسلی تعصب کو جواز بنا کر ان ڈیتھ اسکواڈ کے جتھوں کو یہ کہہ کر سپورٹ کررہے ہیں کہ “زمین کے مالک براہوی بولنے والے قبائل ہیں جبکہ جاموٹ بزگر ہیں”۔ ان کی اس دلیل کے پیچھے منتق یہ ہے کہ ریاست قلات کے آخری حاکم انہیں جیسی زبان بولتے تھے۔
نوآبادیاتی دور کا تنخوادار طبقہ موجودہ وقت کا نیشنل بورژوازی ہے جن کے ایتھوز کے تحت قبائل پرستی اور قوم پرستی جنم لے رہی ہیں۔ ہے جو یہاں زرعی سرمایہ داریت کو فروغ دے رہی ہیں۔ زرعی سرمایہ داریت اور بلوچستان کا گرین بیلٹ ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ اس پر تو ابھی تازہ بحث چھڑی ہے۔ معاشی تبدیلی سماجی اور سیاسی تبدیلوں کا موجب بنے گا۔ زرعی سرمایہ داریت عوام کو رنگ نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کرکے ان پر حکومت قائم کرنے اور انہیں امتیازی بنیادوں پر عوام کا استحصال کرنے والی قوتوں کو مضبوط کررہی ہے۔
زرعی سرمایہ داریت کے خلاف پہلی دفعہ 70 کی دہائی کے پٹ فیڈر کے کسانوں نے سر اٹھایا تھا۔ اور دیکھا جائے کہ اس لڑائی میں کسانوں کو نمایاں کامیابی کیوں نا مل سکی تو معلوم پڑتا ہے کہ تنظیمی سطح پر کسانوں کی غلطیوں کے باعث جاگیرداروں کا بیانیہ حاوی رہا، جس میں وہ اس جنگ کو طبقاتی جنگ کے بجائے قبائلی جنگ تصور کرتے رہے۔ براہوی زبان بولنے والے کسانوں نے بھی اس غلطی کو دہرایا اور اسے جاگیرداروں کے طرز پر ہی لڑائی لڑنے اور اپنے قبیلے اور زبان بولنے والوں پر انحصار شروع کر دیا، جس کے بعد تحریک معدوم پڑ گئی اور مزاحمت کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ جاموٹ کسان ایسی کوئی سیاسی غلطی دوبارہ نا دہرائیں۔ ماضی میں ہونے والے زرعی اصلاحات کی مخالفت پر پٹ فیڈر کے کسانوں کی تحریک اور حال ہی میں جھل مگسی میں اٹھنے والی کسان تحریک سے سبق سیکھا جائے۔
جھل مگسی کی کسان تحریک اس سارے بحث کو سمجھنے کے لئے اہم کڑی ہے۔ جن کی کئی دہائیوں تک لڑائی کو مگسی قبیلے کی اندرونی لڑائی سمجھا جاتا رہا۔ مگر انہوں نے جس دن کسان فرنٹ بنا کر اپنے ہی مگسی قبیلے کے نوابوں کے خلاف جدوجہد شروع کی تو نمایاں کامیابی ملی۔ ایک بات یہاں اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پٹ فیڈر کسان تحریک کو کچلنے میں سرداروں کا ہاتھ تھا کیونکہ تب سردار ذرائع پیداوار پر قابض تھے۔ موجودہ حالات میں جھل مگسی کی سیاست کروٹ بدل رہی ہے۔ پرانا فسطائی سرداری اور نوابی نظام چیلنج ہو رہا ہے۔ ساتھ از سر نو، نئی انقلابی قوت کے ساتھ بالادست طبقے کی بالادستی پر سوال اٹھ رہا ہے۔ کچھی کے کسانوں کو بھی یہی چیز سیکھنے کی ضرورت ہے؛ سرداروں کی حمایت حاصل کرنے اور اس لڑائی کو قبائلی تکرار ثابت کرنے کے بجائے عوامی باالخصوص محنت کشوں کی حمایت پر انحصار کیا جائے، بے شک کتنا ہی کمزور ہی کیوں نا ہو۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم کی بلوچستان کو ضرورت نہیں۔ بلوچستان کے کسانوں، چرواہوں اور دہاڑی دار مزدوروں کو بغیر کسی بورژوا جتھوں سے توقع لگائے اپنی لڑائی آپ لڑنی ہوگی۔ جس طرح گرین بیلٹ کے جاگیردار اپنے طبقاتی مفاد کو بچانے کے لئے منظم ہو جاتے ہیں، اسی طرح گرین بیلٹ کے محنت کشوں کا متحدہ فرنٹ بھی وقت کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی موجودہ سیاسی فضا میں تمام تر سوال بشمول قومیت سیکنڈری ہے، طبقاتی سوال پرائمری ہے۔ کچھی سانحہ جیسے واقعات سے بچنے کے لئے زرعی اصلاحات جیسے سوشلسٹ پروگرام کی گرین بیلٹ کو اشد ضرورت ہے۔ اس کے حصول کے لئے طبقاتی شعور سے لیس سیاسی طور پر منظم ایسے انقلابی گروہ کی موجودگی ضروری ہے، جو اشرافیہ اور مراعات یافتہ متوسط طبقے کے حقیقی عزائم کو مظلوم عوام کے سامنے لے آئے اور انہیں عوامی جمہوری انقلاب کی تنظیم کی صورت میں منظم کرکے انقلاب کے نظریے کو عملی جامہ پہنائے۔ ماضی میں جب زرعی اصلاحات پارلیمان کے ذریعے نافذ ہوئی تھیں، تو وہ محض کاغذی کاروائی تک محدود رہیں اور جاگیردار ان زمینوں پر قابض رہے کیونکہ ان زرعی تعلقات کے پیچھے جاگیردار اور کسان کے استحصال پر مبنی پیداواری تعلق کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا اور نا ہی کسی پارلیمانی پالیسی کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے. صرف ایک مزدوروں اور کسانوں کی مزاہمتی تحریک ہی جاگیرداری کے پیداواری تعلقات کا خاتمہ اور حقیقی زرعی اصلاحات نافذ کر سکتی ہے. جس طرح جاگیردار استحصال پر مبنی “انفارمل پیرالل سٹرکچر” کے ذریعے قانون موڑتا ہے، اس ہی طرح کسانوں کو باہمی امداد پر مبنی “انفارمل پیرالل سٹرکچر” کے ذریعے ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
کچھی کی زمینوں پر جنگ میں ایک طرف ریاستی حمایت آفتہ سردار/جاگیرداروں کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے جتھے ہیں تو دوسری طرف کسان ہیں۔ دونوں اطراف کے زبان بولنے والے لوگ اسے قبائلی تکرار کا نام دے کر صرف ان جاگیردار سرداروں کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ جوکہ دونوں اطراف کے نیشنل بورژوازی کی عزائم کو مزید عیاں بھی کرتا ہے۔ اس وقت ضروری یہ ہے کہ گرین بیلٹ میں آباد مختلف قبائل سے تعلق رکھنے، مختلف زبان بولنے اور مختلف قوم سے تعلق رکھنے والے کسان اپنے قبائل، برادری، زبان اور قومی شناخت سے بالاتر ہوکر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہوں۔ کیونکہ ان تمام قومیتوں کے جاگیردار اپنے طبقاتی مفادات کی تکمیل کے لئے ان عزائم کا اظہار کررہے ہیں۔
ظہیر بلوچ، کسان آرگنائزر