سنجھا چنا
زبان اظہار کا ذریعہ ہے۔ دیکھا جائے تو اظہار کے بہت سے ذریعے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ “اشارے، نشانات، تصویریں” وغیرہ لیکن زبان کے مقابلے میں یہ سب ناکافی ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں زبان کی تشریح اس طرح کی گئی ہے۔
“1-The Language which a person has grownup speaking from early childhood.
2-Mother tongue, the first language you learn you are a baby rather than a language learned at school or us an adult “
زبانوں کے عمل سے ہی قوموں کے عروج اور زوال کا سوال جڑا ہوا ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی، جغرافیائی، تہذیبی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور تاریخ کا آئینہ ہوتی ہے۔ زبان کسی بھی قوم کی تہذیب و ثقافت کا جز ہوتی ہے۔ زبان ایک سماجی عمل ہے، کیونکہ سماجی پیداواری عمل کے ذریعے زبان وجود میں آئی۔ زبان انسانی عمل کو شعوری انداز سے جوڑے رکھنے کا کام کرتی ہے۔ زبان ایک طرف سے اظہار کا ذریعہ ہے،تو دوسری طرف معلومات کا ذریعہ ہے۔ انسانی سوچ براہ راست اظہار زبان ہے۔ ڈیوڈ کرسٹل کہتے ہیں کہ معاشرے کے اندر اپنی رائے کا اظہار کرنا، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے، اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے، زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
زبان کسی بھی قوم کی پوری شناخت ہوتی ہے۔ کیونکہ زبان کا کسی بھی معاشرے کے مختلف، سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات سے تعلق ہے۔ زبان اور سماج ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ بغیر زبان کے سماج کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سماج کا زبان سے گہرا تعلق ہے، اور زبان سماجی تعلقات اور پیداوار کے عمل کے دوران وجود میں آئی۔ جیسا کہ ثقافت قوموں کو باندھے رکھنے کا کام کرتی ہے، اسی طرح زبان ثقافت کو زندہ رکھنے کا کام کرتی ہے۔ زبانیں ہماری پہچان ہیں۔ جیسا کہ کوئی سندھی ہے، تو اس سے واضح ہوتا ہے کے سندھی زبان بولنے والا ہوگا، کوئی بلوچ، سرائیکی، مراٹھی، ہیں تو وہ بلوچی، سرائیکی، مراٹھی زبانیں بولنے والے ہیں۔ زبان بات چیت کے ساتھ ساتھ خیالات کو منظم کرنے کا کام بھی کرتی ہے۔
نیلسن منڈیلا نے مقامی زبان کی اہمیت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اگر آپ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ ڈالنا چاہتے ہیں، تو ان سے سمجھ میں آنی والی زبان میں بات کریں، لیکن اگر آپ لوگوں کے دلوں کو چھونا چاہتے ہیں تو ان کی مادری زبان میں بات کریں۔ اسی طرح مقامی زبان وجود کا سوال ہے۔ زبان کے سوال سے کسی بھی قوم کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ زبان سیاسی، سماجی، قومی، نفسیاتی، ثقافتی، تخیلاتی سوال کے ساتھ ساتھ ہمارے داخلیت کا سوال بھی ہے۔ ہم جس ریاست میں رہ رہے ہیں، وہ بنیادی اور مقامی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بجائے اس کو ثانوی زبان کے طور پر پیش کر کے، غیر مقامی زبانیں عوام پر مسلط کر کے، بچے کی پوری نفسیات اور داخلیت پر وار کرتی ہے۔ جب ریاست اپنی ذمہ داری نہیں ادا کر رہی، تو ایک قوم ہونے کی حیثیت سے مقامی زبان کو قومی درجہ دلانے والے سوال پر ریاست کی بجائے خود ہی اٹھنا پڑے گا۔ سندھی زبان کو قومی حیثیت دلانے کے لئے قوم کے ادیبات، شاعر، مصنف، وکیل، استاد، خواتین، مزدور، اور طلبہ کو متحد ہونا پڑے گا اور ایک منظم مضبوط تحریک چلانی پڑے گی۔
مقامی زبان، بچے اور تعلیم کا سوال
بچے کو زبان سکھانے میں زیادہ تر ماحول کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح بچے کو جیسا ماحول دیا جائے گا بچہ اسی میں ڈھلنے لگتا ہے۔ بچے کو زبان سکھانے کے حوالے سے الھداد بوھیو کہتے ہیں کہ مقامی زبانیں یہ کام بچوں سے خود کرواتی ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی بحران کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ بچوں کو اپنی مقامی ماں زبان سے دور کر دیا جاتا ہے۔ کسی غیر مقامی زبان کی گود میں ڈالا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ بچے کے لئے مقامی زبان ماں جیسی پیاری، اپنائیت کے احساس سے لبريز، محبت سے بھری ہوئی، ماں کے دودھ کی طرح میٹھی ہوتی ہے۔ بچہ جس میں دکھ، غصے، بھوک کا اظہار آسانی سے کر سکتا ہے۔ اور جس زبان میں بچہ خواب دیکھ سکتا ہے۔ تخلیقی بن سکتا ہے۔ اپنے وجود کا سوال بھی مقامی اور بنیادی زبان سے جڑا ہوا ہے۔ مقامی زبان ہی ہے، جس سے بچے کا احساساتی، جذباتی، عقلی لگاؤ ہوتا ہے۔ اپنے وجود کو تلاش کرنے، سمجھنے کا سوال مقامی زبان سے وابستہ ہے۔ اس زبان کی وجہ سے ہی بچہ اپنی قوم، تہذیب، تاریخ اور اپنے تاریخی کردار ہیرو، شاعر، ادیبات، مصنف سے جڑا رہتا ہے۔ اور ان سے اپنائیت کا تعلق جڑتا ہے۔ بچے کے لئے غیر مقامی زبان، سوتیلی ماں جیسی لگتی ہے۔ جس کی گود، آنچل بچے کو اجنبی لگتا ہے۔ اور بچہ اس میں آسانی سے اظہار نہیں کر پاتا نہ ہی بچے کا اس سے کوئی احساساتی تعلق جڑتا ہے۔ ثانوی زبان کبھی بھی بچے کے وجود، تخیل، خیال،سوچ کی دنیا کا چھو نہیں سکتی۔
اس کی حالیہ مثال سندھ کے نجی سکول ہیں۔ جہاں بچوں کو مقامی زبان، ثانوی زبان کے طور پر اور غیر مقامی زبان انگریزی، اردو کو پرائمری زبان کے طور پر پڑھانے کے بعد جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بچہ دونوں میں کسی ایک بھی زبان میں مہارت حاصل نہیں کر پاتا۔ جس بچے کو تعلیم ثانوی زبان میں حاصل ہوتی ہے۔ اس بچے کا اپنی مقامی زبان، تہذیب و تمدن، ثقافت، مقامی شاعر، ادبیات اور تاریخی کرداروں سے گہرا تعلق نہیں رہتا۔ اور دور رہنے یا جڑے نہ رہنے کی وجہ سے، وہ آگے چل کر اپنی مقامی زبان، ادب و سماج کی ترقی کے لئے کوئی سرگرم کردار ادا نہیں کر سکتا۔
سب تعلیمی ماہرین، تعلیمی زبان کے لئے ایک ہی رائے پر آمادہ ہیں کہ بچے کو تعلیم فقط اسی زبان میں دی جائے، جو ان کی نیم شعوری زبان ہے۔ یعنی جس میں بچے خواب دیکھتے ہیں، وہ زبان جو بے اختیاری کی حالت میں بچے کے منہ سے الفاظ، جملوں کی شکل میں نکلتی ہے۔ کیونکہ بچہ، مقامی اپنی زبان میں اساتذہ کے لیکچر بنا کسی مشکل کے نہ صرف سمجھ سکتا ہے۔ بلکہ ان کی تشریح خود کر کے سمجھ لیتا ہے۔ اور کلاس کے دوران خود اس مختلف سرگرمیوں کی صورت میں حصہ لیتا رہتا ہے۔ عام طور پر سکول میں طوطے ہی تیار کیے جاتے ہیں، جن میں پڑھانے کا طریقہ کار بھی بقول پاؤلو فرارے کہ بینکاری ہے۔ ثانوی زبان میں بچہ کلاس میں موجود تو ہوتا ہے۔ پر وہ کلاس میں ہونے والے بحث مباحثے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتا۔ کیونکہ حصہ لینے کے لئے بچے کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ایسے میں اگر ایک ثانوی زبان میں پڑھنے والے بچے اور ایک مقامی مادری زبان میں پڑھنے والے بچے، دونوں کو”سکول” عنوان پہ مضمون لکھنے کا کہا جائے تو لکھنے کی قابلیت، شعور کی پرواز مقامی زبان میں پڑھنے والے میں ہی ہو گی، ثانوی زبان والا بچہ اچانک سے بے خیالی میں ایک لائن بھی نہیں لکھ پائے گا۔ زبانوں کی تحقیق سے یے بات ثابت ہوئی ہے کہ، بچوں کی مختلف مہارتیں، بولنا، پڑھنا، لکھنا صرف مقامی زبان میں ہی بہتر ہو سکتی ہیں۔
زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے سے علم و دانش میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے کئی حقوق ہیں، تو مادری زبان میں بنیادی تعلیم ہم سب کا آئینی، جمہوری حق ہے۔ جو کہ انسانی حقوق کے دائرے میں شمار ہوتا ہے۔ تعلیمی ماہر اور نفسیات دان اس بات پہ متفق ہیں کہ “تقریباً آٹھ سال کی عمر تک بچے کا ذہن چیزوں کی نوعیت، ان کی خصوصیات اور بنیادی حسی تجربات کو اپنی مادری زبان میں بہتر اور مکمل طریقے سے سیکھتا ہے”۔ مادری زبان بچوں میں جان ڈالتی ہے۔ وہ حیاتیاتی طور پر رشتہ داروں سے ملتی ہے۔ جس کے بارے میں نوم چومسکی کا خیال ہے کہ
Language is biological”
اس کا مطلب وہ جس زبان کی بات کر رہا ہے وہ مادری زبان ہے۔ مادری زبان سیکھنے، سمجھنے کے لیئے اشد ضروری ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے۔ کون سی قوتیں ہیں، جو مادری زبانوں کی ترقی کی راہ ميں رکاوٹ بن رہی ہیں؟ آخر مقامی زبانوں کے ساتھ ریاست کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ جیسا کہ پاکستاں ایک کثیر القومی ریاست ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک کثیر اللسانی ریاست بھی ہے۔ اور پاکستان کی ریاست، مادری زبانوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ جس وجہ سے کسانی استحصال آج بھی جاری ہے۔ آخر کون سے محرک ہیں جو ریاست سامراجی قوتوں سے اکٹھے مقامی زبانوں کی ارتقاء کے عمل میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟ امریکی سامراجیت، اس کا حصہ دار اور اوپر چڑھنے والی سیڑھی، اس کا اشرافیہ طبقہ، جاگیرادری، سرمایہ داری، جس میں وڈیرے، افسر شاہی، بیوروکریسی، ریاست جس طرح وہ عوام کی اقتصادی، پیداواری ذرائع پہ قابض ہیں۔ اور محنت کش طبقے کا استحصال کرتے ہیں۔ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بالکل اسی طرح لسانی سامراجی قوت بھی ہوتی ہے۔ جس کا بہت بڑا ہتھیار زبان ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے اپنی غیر مادری زبان عوام پر مسلط کر کے، مظلوم طبقے کی سیاسی، سماجی، اقتصادیات کے ساتھ ساتھ ثقافتی طور پر بھی مفلوج اور غلام بنانا چاہتے ہیں۔ ایسا کر کے وہ مظلوم طبقے کی پوری شناخت کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو اس وقت بھی ہو رہا ہے۔
بقول کامریڈ عاصم آخوند کہ زبانوں کی ارتقاء نہ صرف سماجی شعور کو، بلکہ سیاسی، اقتصادی مفادات کی جدوجہد کو بھی تیز کرتی ہے۔ عالمی طور پر بھی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ سماجی اتار چڑھاؤ یا جیسا کہ جدیدیت کا دور ہے۔ کہنے کا مقصد کہ بڑی بڑی تبدیلیاں اپنے عروج کے ساتھ ساتھ زوال کی صورتیں بھی ساتھ لے کر آتی ہیں۔ اور زیادہ تر ان کا فائدہ بورثوا طبقے کو ہوتا ہے۔ عام لوگ کو ان تبدیلیوں سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح 21 صدی کے جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں سندھی زبان ترقی کی طرف منزل طے کر کے آج جدید دور میں داخل ہو چکی ہے اور جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
علم و ادب کی ترقی کے ذریعے اشرافیہ طبقے کو بھی سیاسی، سماجی معاملات سے متعارف کروا رہی ہے۔ تو عوام کا شعور بھی بیدار ہونے لگتا ہے۔ یہی سبب ہے جس سے ریاست اور سامراجی قوتیں خائف ہوتے ہیں۔ کہ اگر عوام کا سماجی شعور بیدار ہوگا، حالات کے بارے ان کی سمجھ میں اضافہ ہو گا تو یقیناً ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی، کہ وہ صدیوں سے بےجا غلامی، مظلومیت، بربریت، استحصال و جبر کا شکار ہوتے رہے ہیں، اس کا سبب اور کوئی نہیں یہی آمری قوتیں ہیں۔ اس لئے پاکستان کا حکمران طبقہ، قابض گروہ اور سول فوجی، عملداری اردو کو زبردستی دوسرے سماج پہ مسلط کرنے کے عمل کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ جیسے اس وقت امریکی سامراجیت پوری دنیا پہ انگریزی مسلط کر کے اپنا غلام بنانا چاہتی ہے، ان پہ قابض ہونا چاہتی ہے۔ اپنی انگریزی زبان کے ذریعے اپنی ثقافت کو فوقیت دینے کے لئے محکوموں کی ثقافتی شناخت کو مٹانے چاہتی ہے۔ وہ اس لئے بھی خائف ہیں کہ اگر پاکستان میں موجود عوامی زبانوں کو قومی درجہ دیا گیا اور یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی تو، انہی کے کرتوت کے بارے میں اشرافیہ طبقے کی حقیقت علم کے ذریعے نچلے طبقے کے سامنے آجائے گی، اور علم کے ذریعے سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ریاست بھی اس میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ قوموں کی شناخت اور طبقاتی شعور کی ترقی کو روک دیتی ہے۔ مادری زبان کے ارتقاء کے عمل میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ صرف اس وجہ سے اقوام کے نچلے طبقے کو بالائی طبقے سے الگ کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سندھی بچوں کی ذہنی، فکری، ترقی کو روکنے کے لئے ان پہ غیر مادری زبانیں مسلط کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام اس کی صاف تصویر ہے۔ سندھی طلبہ کی ذہنی سطح کو گھٹانے کے لئے کیسے غیر مادری زبان ان پر مسلط کی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان، امریکی سامراجی ثقافت کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے مفادات کا بھی دفاعی ذریعہ ہے۔ جس وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام میں فرد کی طرح انگریزی زبان بھی جنس ہے جس کا واضح مقصد ہے گاؤں سے دور دور تک کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ جس کا مثال ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ جدید تعلیمی نظام جو کہ محض نجی سکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں کی ملکیت بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی بنگالیوں جیسی صورتحال ہے۔ ریاست اپنے آئینے بنانے والی آئینی بھول چکی ہے۔ اور اقوام اپنے مادری زبان کی تاریخ جمہوری اور آئینی حقوق یاد دلاتے رہتے ہیں۔ مادری سندھی زبان ماضی کے پوری لوک دانش کی وارث ہے۔ زبانیں تہذیب و ثقافت کی وراثت ہوتی ہیں اور تو زبانوں کی حفاظت آپ کو اور ہمیں کرنی چاہیئے یہ ہمارا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔
جيڪا ٻولي ٿڃ سان تنھنجي پٽ پئي
سا تو ڪئن ڪئي، اڄ ڪلھ آھي اوپري
شیخ ایاز
(شعر کا مفہوم: جو زبان ماں کے دودھ کے ذریعے تمہارے اندر گئی، اس کو تم نے آج اور کل کیسے پرایا کر دیا ہے۔)