وجاھت حسین
حشو کیوالرامانی 20 دسمبر 1914 کو بھریا (نوشوروفیروز) میں پیدا ہوئے اور ابھی آٹھ سال کے تھے کہ 23 دسمبر 1922 کو ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ماں نے پرورش کی۔ حشو نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم بھریا کے، “کے سی” اکیڈمی اسکول سے حاصل کی اور میٹرک کراچی کے “این جی وی” اسکول سے مکمل کیا، جس کے بعد وہ سترہ سال کی عمر میں سیلون (سری لنکا) چلے گئے۔ سیلون میں لندن جانے کے لیے امتحان پاس کیا۔ اس دوران وہ ینگ مینز کرسچن ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے ایک فعال رکن اور سیکرٹری رہے۔ ان کی والدہ اور دیگر رشتہ دار چاہتے تھے کہ وہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کر کے آفسر بنیں، جس کے لیے انہیں 1935 میں لندن بھیج دیا گیا۔ لیکن وہ ایک الگ مزاج کے تھے، اس لیے آئی سی ایس کا امتحان دینے کے بجائے وہیں کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، کبھی ایروناٹکس، کبھی معاشیات اور کبھی سیاست کے شعبوں میں۔ اسی دوران اندرا گاندھی، ان کے دوست اور بعد میں شوہر فیروز گاندھی اور والد جواہر لال نہرو کے ساتھ لندن میں قریبی تعلقات استوار ہوئے۔
انہوں نے انگریزوں سے آزادی کے لیے ہونے والے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ لندن مجلس کے صدر بھی رہے۔ وہ 1939 میں بغیر کوئی خاص امتحان پاس کیے سندھ واپس آئے لیکن دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے واپس لندن نہ جا سکے۔ سندھ واپس آنے کے بعد حشو کی زندگی نئے سرے سے شروع ہوئی۔ انہوں نے سندھ میں طلبہ تحریک میں حصہ لینا شروع کیا جس دوران انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ کراچی میں حشو انگریز سامراج کے خلاف پوسٹر نکالتے تھے، جن میں ہندوستان کے نقشے پر لانگ بوٹ اور “سامراج کا یہ مارچ بند کرو” لکھا ہوتا تھا۔ حشو کو 1940-41 میں اٹھارہ ماہ اور پھر 1942 میں دو ماہ کے لیے قید کیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ دوبارہ سرگرم ہو گئے۔
پورے ملک کی سیاسی فضا گرم ہونے لگی تھی، اسی طرح کراچی بھی ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا۔ ان دنوں خاص طور پر طلبہ تحریک اپنے عروج پر تھی جس کی رہنمائی حشو کیول رامانی کر رہے تھے۔ حشو کیول رامانی بائیں بازو کے سوشلسٹ تحریکوں کے زبردست حامی تھے۔ اس زمانے میں آزادی ہند اور سوراج کا نعرہ تمام سرگرمیوں کا محور تھا، خاص طور پر طالب علم تنظیموں میں، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے طلبہ میں بھی اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن بائیں بازو کے زیراثر کام کرنے والی طلبہ تنظیمیں زیادہ تر سوشلسٹ پروگرام کے تحت سماجی انقلاب کے نعرے لگاتی تھیں۔ ان کا یقین تھا کہ ہندوستانی سماج میں مزدوروں، محنت کشوں، غریبوں اور کسانوں کو بھی اقتصادی اور سیاسی آزادی حاصل ہونی چاہیے اور غریب کے بچوں کو بھی تعلیم کے مساوی حقوق حاصل ہوں۔ انھیں زیادہ سے زیادہ تعلیمی مراعات دی جانی چاہیئیں اور حصول تعلیم کے بعد کامیاب طلبہ کو مناسب ملازمت کی ضمانت بھی فراہم کی جائے۔
حشو نے جہاں طلبہ تحریک کو منظم کیا، وہیں بعض نوجوان دوستوں کو ترقی پسند خیالات اور یورپ میں چلنے والی انقلابی تحریکوں اور نئے رجحانات سے بھی آگاہ کیا تھا۔ انھوں نے انگریزی ادیبوں اسٹیفن اسپنڈر، کرسٹوفراشروڈ اور آڈن کے بارے میں بہت معلومات افزا لیکچر دیئے۔ وہ بہت اچھا مقرر اور تنظیم کار تھا لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ طلبہ کمیونٹی کے مختلف گروپوں کو منظم کرنا تھا۔ حشو نے سوبھو گیانچندانی کے ساتھ پورے سندھ کا دورہ کیا اور کراچی سے سکھر تک طلبہ تنظیموں کو نئے سرے سے منظم کیا۔ اس وقت سندھ کی پوری شاگرد کمیونٹی، حشو کیول رامانی کے زیر اثر تھی۔ چنانچہ اسٹوڈنٹس یونیوں میں اپنے اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوۓ حشو کیول رامانی نے سوبھو کو سندھ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا سیکریٹری منتخب کرا دیا۔
پاکستان بننے کے بعد حشو کیولرامانی کی سرگرمیوں اور وجود کو پاکستان کے نئے حکمران اپنی پالیسیوں کے لیے خطرناک سمجھتے ہوئے، حشو کو 1949 میں چارج شیٹ دیے بغیر دس ماہ تک جیل میں رکھا، اور سندھ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ حشو کیولرامانی ان محب وطن لوگوں میں سے ایک تھے جو کسی بھی حالت میں اپنا دیس سندھ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن جیل میں رکھ کر، ان پر الزامات لگائے اور انہیں سندھ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ہندوستان منتقل ہونے کے بعد حشو کیولرامانی نے صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ جلاوطن سندھیوں کے مسائل اور ہندوستان کے مسائل پر اخبارات اور رسائل میں بہت سے مضامین لکھے۔ دہلی میں، انہوں نے “سندھی سماج” کے قیام کے لیے پہلا “سندھی کنونشن” بلانے میں حصہ لیا، جس میں ہندوستان کے صدر، رادھا کرشنن کو بھی مدعو کیا گیا، ہندوستانی آئین میں سندھی زبان کو شامل کرنے کی تحریک چلی تو حشو کیولرامانی نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
حشو کیولرامانی کے سندھ میں قیام کے دوران اور سندھ سے ہجرت کے بعد بھی سائیں جی ایم سید سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا اور 20 خطوط، سائیں جی۔ ایم سید نے اپنی کتاب ‘اڄ پڻ چڪيم چاڪ’ میں شامل کئے جو حشو نے 1948 سے اگست 1966 تک لکھے تھے۔ حشو نے انگریزی اخبارات میں سندھی ہندوؤں کی ہجرت اور بحالی، پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی صورت حال کے بارے میں جو کالم لکھے ان کو ترتیب دیا اور انہیں “پاکستان ایکس ریڈ” کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔
حشو کیولرامانی نہ صرف ایک اچھے سندھی کہانی کار تھے بلکہ انہوں نے کئی سندھی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا، جو بعد میں “سندھی شارٹ سٹوریز” کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ 1963 میں جب شیخ ایاز اور رشید بھٹی دہلی گئے تو دوستوں کی ایک محفل میں شیخ ایاز حشو کے پاؤں چھو کر بولے “آئی اوو ہاف مائی ایگزسٹینس ٹو حشو”۔ ایاز کی حشو کے ساتھ وہ آخری ملاقات تھی۔
حشو نے سندھ آنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ سندھ وطن کی جدائی کے درد اور یاد میں مبتلا رہا اور اس کی ذہنی حالت بھی بہت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ غربت، افلاس اور تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ کبھی دہلی میں، کبھی بمبئی میں، کبھی الہاس نگر کے ریلوے سٹیشنوں، شمشان گھاٹوں اور فٹ پاتھوں پر سوتے تھے، اور ایسے ہی مایوس کن حالات میں وہ 1980 کی ایک رات الہاس نگر سے اچانک غائب ہو گئے، پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں گیا؟ اور ان کا انجام کیا ہوا۔
الہاس نگر کی تیز ہوائیں حشو کو ڈھونڈتی رہتی ہیں، وہ حشو جو سندھ تھا، تاریخ تھا، تہذیب تھا، وہ وطن کا دیوانہ نا جانے کس دیس چلا گیا۔ آج بھی سندھ کی ہوائیں حشو کو یاد کرتی ہیں۔ (شیخ ایاز)
حشو کیولرامانی کی زندگی، علمی قابلیت اور ان کی تصانیف کے تراجم کی صورت میں سندھ میں مدد علی سندھی اور ڈاکٹر پارس نواز گھانگھرو نے کتابیں لکھی ہیں، سائیں جی ایم سید کی کتابوں، شیخ ایاز کی آپ بیتی، موھن کلپنا کی کتاب “آفتاب انقلاب”، دایو نتھانی کی کتاب “سٹوڈنٹس آن دا مارچ” اور سوبھو گیان چندانی کی شخصیت اور فن پر سید مظہر جمیل کی کتاب میں حشو کیوالرامانی کا ذکر ملتا ہے، جنہیں پڑھ کر سندھ کے سوشل سائنٹسٹ حشو کیوالرامانی کی زندگی کو سمجھ سکتے ہیں۔