عدنان سومرا
کتاب۔ جھوٹے روپ کے درشن از انور راجہ
کتاب تبصرہ از عدنان سومرا
“دنیا میں لگ بھگ دس ہزار مذاہب ہیں لیکن ہر شخص کا اپنا مذہب ہے۔ اسی طرح دنیا میں آٹھ ارب لوگ ہیں اور ہر شخص کی محبت بھی اپنی اپنی ہے۔ ہم نا تو مذہب کو معاشرتی عمل سمجھ سکتے ہیں اور نا ہی محبت کو۔ جبکہ دونوں معاشرتی و سماجی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔” تھل بک کلب کی اکیسویں نشست پر دادا کے ان الفاظ نے محفل میں موجود سبھی محبت کرنے والوں پر سکتا طاری کر دیا۔ دادا تب ہماری گفتگو میں وارد ہوئے جب تمام دوست محبت کی بگڑی ہوئی ڈور سلجھا رہے تھے۔ دادا ہمارے لیے ایک دلچسپ انسان ہیں۔ ویسے تو ان کو بازیچہ اطفال کامریڈ فاروق کے نام سے جانتی ہے لیکن ہم انہیں دادا بلاتے ہیں کیونکہ وہ عمر کے ساتھ ساتھ فکر میں بھی ہم سے بڑے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی کہا “سو ٹو ڈے آئی ایم ہوسٹنگ دی تھل بک کلب اینڈ دا ٹاپک از لوو۔ ایک وقت تھا جب محبت کا نام غلطی سے بھی کسی کی زبان پر آ جاتا یا کسی کے کانوں میں پڑ جاتا وہ شرم سے پانی پانی ہو جاتا۔ آج بھی لوگ کسی بڑی محفل میں محبت پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ آج ہم سب محبت پر بات کریں گے”۔ نومبر کی آخری شاموں میں دسمبر کی سی اداسی اور رومانویت لیے یہ سب لوگ اپنی اپنی محبتوں کی طرف گامزن تھے کہ کسی نے ان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی۔ معصوم سے خواب آنکھوں میں جنم لیتے ہی مر گے اور ایک مرتبہ پھر بدھا نے واعظ سنایا تمام دکھ ہے۔ کہ ہم ایسے سماج میں سانس لیتے ہیں جہاں محبت ایک نکمے ذہن کی خام خیالی سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھی جاتی۔ پھر بھی خواب ہیں کہ آنکھوں کا رستہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔
جھوٹے روپ کے درشن از راجہ انور ہر اس محبت کا نوحہ ہے جو معاشرتی ناسوروں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہی اپنے انجام کو جا پہنچی۔ روایتی محبتوں اور لوک داستانوں کی طرح راجہ انور کی محبت بھی سماجی بتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ لیکن محبت میں لکھے خط اگر ایک کتاب کی شکل اختیار کر لیں تو دقیانوسیت کے پیمبروں کو منہ پر طمانچے محسوس ہوتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ مکتب کے ایک پیامبر نے برملا یہ اعلان کیا “اس کتاب کو اگر میری محفل میں دوبارہ لائے تو مکتب سے نکال دئیے جاؤ گے”۔ ہم بھی سوچتے رہے کہ عالمی جنگوں پر تو بات کی جا سکتی ہے لیکن محبت اور امن پر نہیں، آخر یہ کیسی دنیا ہے اور کون لوگ ہیں جنہیں امن و محبت سے زیادہ جنگ و جدل عزیز ہیں۔ جہاں اب بھی محبت کو غیرفطری سمجھا جاتا ہے اور اس پر بات کرنا غیر اخلاقی، وہاں راجہ انور نے ان تمام ممنوعات کو بدل ڈالا جن پر عقیدوں کے پہرے دار صدیوں سے دھونس جمائے بیٹھے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ کتاب بینی کرنے والے سبھی دوستوں نے “جھوٹے روپ کے درشن” کو بک کلب کی نشست کا حصہ بنایا اور بہت ہی لمبی چوڑی سیر حاصل گفتگو کی۔
ایرک فرام “دی آرٹ آف لونگ” میں لکھتے ہیں ‘وجودیات کے مسائل کا واحد قدرتی حل محبت ہے۔ اور محبت کسی احساس کا نام سہی لیکن یہ انفرادی طور پر سوچ سمجھ کر کیا گیا ایک فیصلہ ہوتا ہے۔’ راجہ انور کے خطوط پڑھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ راجہ صاحب محبت کے معاملے میں ایک حساس ترین لیکن درویش صفت ہستی کے مالک ہیں۔ وہ پہلے خط سے ہمیں چونکا دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ان کی محبت کا انجام کیا ہونا ہے لیکن پھر بھی وہ محبت کیے جاتے ہیں جب تک کہ انجام تک نہیں پہنچ جاتے۔ اب خود ہی سوچیے اس سود و زیاں کی دنیا میں محبت میں بھلا کون گھاٹا کھانا چاہے گا؟ وہ ایسے درویش ہیں جو محبت کو سماجی زنجیروں سے پرے احساس کے دھاگوں میں پروتے ہیں جبکہ وہیں اس کا محبوب محبت کے معاملے میں انتہائی سمجھ بوجھ سے کام لیتا ہے۔ محبوب تو سماجی بتوں کو پوجتا ہے دولت، بنگلہ اور کاریں اس کے لیے محبت کا سامان ہیں۔ جبکہ راجہ انور ان بتوں کو پوجتا ہے جن کی تراش خراش وہ خود کرتا ہے۔ اب یہ بت بنانے والے کی منشاء کہ وہ بت توڑ بھی سکتا ہے۔ راجہ صاحب محبت میں ناکام ہو کر لوٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس امر کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ‘راستے میں مجھے احساس ہوا۔ میں خدا ہوں۔ میں نے تمہارا بت بنایا تھا۔ تم ٹوٹ گئیں، میرا خدا ہونا نہیں چھنا۔’ (ص، 145) راجہ صاحب کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اس کی محبت سماجی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے وہ اپنے خطوط میں بھی دیوی کو لکھتے ہیں کہ وہ عورت ہونے کے ناطے، انسان ہونے کے ناطے سوچے کیا اس سانس برابر زندگی کو کار، بنگلے، اور دولت کے بوجھ تلے دبا کر ختم کر دینا کوئی عقل مندی کی بات ہے؟ راجہ صاحب نے جو خطوط لکھے ہیں وہ فقط محبت کا نغمہ نہیں ہیں۔ وہ تو انسانیت کے نام لکھے چند گیت ہیں جو وقت کی ہمیشہ پر بجتے رہیں گے۔
گفتگو آگے بڑھ رہی تھی۔ دادا اتنے میں اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر لے آئے۔ ہمارے ہاں چائے اور بیٹھک یا محفل کا آپسی تعلق وہی ہے جو ساقی اور میخانے کا ہوتا ہے۔ اور اگر ساقی خود مے کو جام تک لے کر آئے تو وہ منظر کتنا دل کش ہوتا گا؟ فوڈزی والے چائے کے ساتھ لنچ بھی بہت اچھا بناتے ہیں۔ بالکل راجہ صاحب کے خطوط کی طرح میٹھا اور لذیذ۔ “جھوٹے روپ کے درشن ہر اس شخص کو پڑھنی چاہئے جو دل رکھتا ہے جس نے محبت کی اور ناکام رہا یا اگر کامیاب بھی ہوا تو اسے بھی یہ سمجھنے کے لیے پڑھنی چاہیے کہ دوسری محبتیں آخر کیوں پروان نہیں چڑھ پاتی اور اپنی بلوغت کے دنوں میں ہی مر جاتی ہیں” دادا نے چائے کے چھوٹے چھوٹے سپ لیتے ہوئے بتایا۔
محبت کے معاملے میں ہر انسان حساس واقع ہوا ہے۔ راجہ صاحب محبت کے ناممکنات میں بھی کسی ایسے حادثے کا تصور کرتے ہیں جس میں وہ اور کنول اکیلے ہوں۔ دنیا میں اتنے معجزے ہوئے ہیں اگر ایک اور ہو جائے تو کونسا بڑی بات ہو گی۔ راجہ صاحب لکھتے ہیں “چلو آؤ کوئی اور بات کریں جو تلخیء فردا کو شیرینی ء امروز میں بدل دے۔ جو تمہارے لمس سے جاوداں ہو جائے۔ آؤ کہ لب و رخسار اور چشم و ابرو کی بات کریں۔ کوئی ایسی بات جو اندیشہ ہائے دور دراز کے کرب سے نجات دلا دے۔ کوئی ایسا ذکر جو بےخود کر دے۔” (ص، 64) لیکن وہ جانتے ہیں کہ زندگی حادثات کا نام ہے ایک حادثہ یہ تھا کہ وہ اور کنول ملے اور ایک حادثہ یہ کہ وہ بچھڑ گئے۔ راجہ صاحب آخری خطوط میں دل شکستہ ملتے ہیں۔ وہ اپنی محبت کی ناکامی کا ذمے دار کنول کے بجائے اس سماج کو ٹھہراتے ہیں جس میں محبت پروان نہیں چڑھ سکتی، اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی بھٹک جایا کرتی ہے۔ ایسا سماج جو دولت کے انبار تلے دبا ہوا ہو کہاں سمجھ سکتا ہے کہ محبت کی کھلی فضاء میں سانس لینا کتنی بڑی نعمت ہے۔ راجہ صاحب کہتے ہیں کہ جب تک سماج پر دولت کی حکمرانی رہے گی تب تک محبت میں کامیابی بھی ناکامی ہے اور ناکامی بھی ناکامی ہے۔
احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ انسانوں کے جبلی اور بنیادی جذبات کی قدر کرنا نہیں جانتے، وہ ادھورے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن راجہ صاحب ایک مکمل انسان ہیں۔ وہ انقلابی بھی ہیں اور مصلح بھی لیکن ان کا زاتی پیشہ امن ہے، محبت ہے۔ وہ دولت کے انبار کھڑے کرنے اور جاگیر داری سماج کے بہت بڑے دشمن ہیں۔ وہ ایسے سماج کو انسانیت کا استحصالی سماج سمجھتے ہیں۔ جب ایک معاشرہ دولت کی ڈھیری دیکھ کر یہ فیصلہ کرے کہ ایک انسان اہم ہے یا نہیں تو اس معاشرے نے کہاں انسانیت کا سبق پڑھا ہو گا؟ اور جب ایک صنف نے دوسرے انسان سے جڑنے کے لیے دھن دولت کو اپنا پیمانہ بنا رکھا ہو تو وہاں محبت کیسے پنپ سکتی ہے؟ جھوٹے روپ کے درشن تاریخ ساز کتاب ہے۔ ہم تاریخ کے اندر بہت دور تک جھانک سکتے ہیں۔ آدم و حوا کے ملن سے لے کر راجہ انور اور کنول کے بچھڑنے تک ان سبھی عوامل کو بڑی گہرائی سے دیکھنا اور جانچنا پڑے گا جن کی وجہ سے آدم و حوا کے درمیاں موجود رشتے میں فاصلے بڑھ گئے اور خلاوں نے جنم لے لیا۔
برٹرینڈ رسل کے نزدیک ایک بہترین زندگی وہ ہے جو محبت اور علم کے چراغ سے روشنی لیتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب بھی مکتب کے کسی کونے میں مجھے کوئی نوجوان جوڑا دکھائی دیتا ہے تو مجھے یہ احساس ہوتا ہے یہ ان کی زندگی کا سب سے حسین ترین وقت ہے۔ لیکن محبت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ایک دنیا ایک سماج اور ایک خاندان میں جنم لیا ہے جہاں محبت کرنا باعث شرمندگی اور غیرفطری عمل ہے جب کہ جھوٹ، رشوت، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور دولت کے انبار لگانا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ اور انہی انبار تلے راجہ انور کی محبت بھی دم توڑ گئی۔ تھل بک کلب کی نشست ابھی جاری تھی کہ افق کی طرف سے لوٹتے پرندوں نے ہمیں بھی گھروں کو لوٹ جانے کی نوید سنائی۔ ایک دوست نے نشست کے اختتام پر سرائیکی شاعر احمد خان طارق کی نظم “کیڑھے ڈساں سجڑیں دے ونڑ، سجڑیں دے ونڑ بہوں دور ہن” کے چند اشعار گا کر سنائے جن کا خمار لیے ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔