ذیشان احمد
مورت ہوں مگر انسان ہوں میں بھی
جینے کا مجھ کو بھی حق دو۔
بھیک نہیں دو یہ حق ہے میرا۔
مجھ کو اب پہچان میری دو۔
مجھ کو بھی تعلیم کا حق ہے۔
مجھ کو اب عزت سے جینے دو۔
میں نے ماں کا پیار نہ پایا۔
باپ کا میں دلار نہ دیکھا۔
ہر پل ہر دن تم نے دھتکارا۔
چوک چوراہوں پہ مجھ کو نچایا۔
بھیک بھی مانگی تو جسم کو نوچا۔
پل پل مجھ کو اذیت دی ہے۔
ملاؤں کے اس بریگیڈ سے کہہ دو۔
دین کے ٹھیکیداروں سے کہہ دو۔
میرے حق پر ڈاکہ نہ مارے۔
اپنے گند اور غلاظت کو وہ۔
مجھ پر تو نہ تھوپے۔
میں بھی مخلوق اسی کی۔
جس نے مرد و عورت بنایا
کیا تم کو خطرہ ہے مجھ سے
کیوں تم مجھ کو حق نہیں دیتے۔
کس مذہب کے ہو تم باسی۔
کس رب کے تم ماننے والے۔
ہم بھی ہیں اس رب کے بندے۔
اس دھرتی پہ جتنا حق ہے تیرا۔
اتنا ہی حق میرا بھی ہے۔
مورت ہوں مگر انسان ہوں میں بھی۔
جینے کا مجھ کو بھی حق دو۔