سنجھا چنا
مجموعی طور پر موجودہ صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ مگر ہم بات کرتے ہیں حال کی، یہاں کے ماضی کے حالات بھی کون سا تسلی بخش رہے ہیں۔
کیونکہ 2010ع میں جو بھی سیلاب آیا تھا، اس وقت بھی خیرپور ناتھن شاہ ڈوب گیا اس وقت سے لے کر 2022ع تک سندھ حکومت نے اس شہر کو بچانے کی خاطر اس بارہا سالوں میں کون سے اقدامات اٹھائے؟ وہ آپ اور ہم سب کے سامنے ہے۔ “کے این شاہ” شہر کو دوبارہ سے اجاڑ دیا گیا، ویران کر دیا گیا۔ وہ شہر جس کے نوجوان ادبی، سیاسی، سماجی اور انقلابی حوالے سے تاریخ میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ وہ شہر جو کے اشعار کا امین ہے۔ ماضی میں ایم آر ڈی تحریک کے دوران سندھ میں دوسرے شہروں کے نسبت “کے این شاہ” شہر مزاحمت، اور جدوجہد کی علامت رہا ہے۔ وہ شہر جس نے آمریت کے خلاف ناصرف اپنی آواز بلند کی، بلکہ عملی طور پر جدوجہد کی پہلی صف میں کھڑا ہوتے نظر آیا۔ اس شہر کے لوگوں نے جمہوریت کی خاطر جیلیں کاٹی، زخمی ہوئے، اور سو کی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں، اس شہر کے 9 ساتھیوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا اور جمہوری نظام کی خاطر شہید ہو گئے تب سے اس شہر کو شہداء کا شہر کہا جانے لگا۔ یہ تالکہ پورے ملک کی جمہوریت پسندی، انسان دوست اور محنت کش طبقہ کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن شہر ڈوبا کیسے؟ اور اس کے ڈوبنے کے پیچھے کون سے محرکات رہے ہیں؟ جن پہ سوچنا اور بات کرنا لازم و ملزوم ہے۔ پہلے تو سپریو بند کو گھارا لگا، اور پانی ان حملہ آوروں کی طرح تیزی سے شھر اندر داخل ہوگیا۔ پر اس شہر کے لوگوں، نوجوانوں نے بڑی دلیری، ہمت اور جرات سے شہر کو ڈوبنے سے بچانے کی خاطر بند کو مضبوط کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ مگر افسوس کہ شہریوں کا آخری سہارا بھی خدادواھ بند 20-20 فٹ کے گھارے لگنے کے بعد ٹوٹ گیا اور شہداء کا شہر پھر سے ڈوب گیا۔ جب وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے دل دہل جاتا ہے۔ اور مجھے لوگوں کا اپنے شہروں، دیہاتوں سے ہجرت کرنے کا منظر اس اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جیسے تقسیم کے دوران سندھی ہندوؤں کو سندھ چھوڑنے کے وقت ہوئی تھی۔
ایسے دیکھا جائے تو تقسیمِ ہند، لوگوں کی ایک تاریخی ہجرت تھی، جس میں دس سے بیس ملین لوگ شامل ہوں گے جبکہ اس وقت سیلاب کی زد میں لوگوں کی جو ہجرت ہوئی ہے وہ 34 سے لے کر 40 ملین سے بھی زائد ہے۔ اس وقت کیا بیتتی ہے جب حکومت کا کام محض خطرے کی گھنٹی بجانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اور آدھی رات کو شہر کو خالی کرنے کا الرٹ جاری کیا گیا ہو۔ جنھوں نے عمریں لگادی شہر، گھر کو آباد کرنے میں۔ اس وقت گھر کے ڈوبنے کا خوف، کیسے اپنوں سے بچھڑنے کا خوف، اور لوگوں کے پاس زیادہ سوچنے کی مہلت بھی کہاں تھی۔ کیونکہ پانی ان کا پیچھا کرتا رہا۔ جیسے تیسے کر کے اپنی جانیں بچانے کی خاطر گود میں بچوں کو، تو سروں پر سامان اٹھائے نکلے اور ایسے حالات میں سندھ کے حکمران، ضلعی انتظامیہ، آب پاشی نظام کے عملدار عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں، نہ ریسیکو آپریشن، اور نہ ہی کوئی ٹرانسپورٹ کی سہولیات, اور اسی وقت قیامت زدہ وقت میں منافع خوروں نے بھی مظلوم، بے سہارا لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا نہیں چھوڑا۔ کرایہ ہزاروں میں کر دیا گیا، مہنگائی اور زیادہ ہو گئی۔ جن کے پاس پیسے تھے وہ تو بس، رکشا کے ذریعے نکل پڑے اور جو خالی ہاتھ نکلے ان کا تو کوئی سہارا ہی نہیں تھا۔ پیدل اپنی جان بچانے کے خاطر بھاگتے رہے۔ ایسے جدوجہد کی علامت یہ شہر ایک بار پھر سے ویران ہوگیا۔ اس شہر کی وہ ہوائیں، شامیں، پیڑ جہاں پرندوں کی گیت سننے کو ملتے تھے، وہ ہوٹل جہاں نوجوان بحث مباحثے کیا کرتے تھے، وہ گلیاں، وہ راستے، سب ڈوب گئے ان کے ساتھ سالوں سے جڑی ہوئی جمع پونجی بھی گئی اور وہ جو دلھن بننے جا رہی تھی۔ ان کے سارے ،جہیز جو سالوں سے والدین نے پائی پائی جوڑ کر بنائے، مال مویشی جو کہ لوگوں کے لئے کسی اولاد سے کم نہیں اور وہ مسکراہٹیں، وہ خواب اور وہ گھر جن سے لوگوں کا بچپن گزرا تھا، یادیں جڑی تھی سب بہہ کر چلا گیا۔ اور اب شہر نہیں صرف پانی ہے پانی نظر آتا ہے۔ اس سارے درد بھرے داستان میں سندھ حکومت کا کردار کیا رہا؟ ضلعی انتظامیہ، آبپاشی عملدار کہاں تھے؟ یہ سوالات ہر اس شہری کے ذہن میں ابھر رہے ہیں جن کو مرنے کی خاطر ان حکمرانوں نے چھوڑ دیا جو ان کے ہی ووٹ کی بدولت آج اس کرسی پر ہیں۔
جب کبھی ملک بحران کے زد چڑھتا ہے، محنت کش طبقہ بکتا ہے۔ ملک کرپشن کا شکار ہوتا ہے، مظلوم، محکوم طبقہ بکتا ہے۔ ایک حوالے سے یہ آفتیں حکمران طبقے اور ریاستی نمائندوں کے اصل چہرے دکھاتی ہیں۔ پر یہ قیامت پیدا بھی تو انہی کی، کی ہوئی ہے۔ کہ کیسے پی پی ایم این اے رفیق جمالی نے اپنی زمینیں بچانے کی خاطر “کے این شاہ شہر” اور لوگوں کو مرنے کے لئے دھکیل دیا۔
اس مہا سیلاب کے اسباب کیا ہیں؟
دیکھا جائے تو عالمی ماحولیاتی آلودگی کی صورتحال بھی سامنے ہے۔ اور سندھ حکومت کی نا اہلی، جو کہ خود کو عوامی، اور جمہوری کہلاتی ہے۔ جمہوری کس بنیاد پر ہے جب کے ان کا ہر عمل آمرانہ ہے۔ اور دیکھا جائے تو اس ملک کی ریاست انفرسٹکچر، ڈولپمینٹ پہ تو کوئی خرچہ نہیں کرتی، آئے دن سارا پیسا محض دفاع پہ ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ ایک طرف وفاق ہے جو ملک کو تباہ و برباد کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ تو دوسری طرف پی پی حکومت جو ہاتھ دھو کر سندھ کو ڈوبانے کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس کی دوستی بھی ملک ریاض جیسے شخص سے ہے اور یہ ایسے پروجیکٹس لے آتے ہیں جو دریا، اور نہروں کے قدرتی راستوں کو بند کر دیتے ہیں ،اور یہ بھی بڑا باعث ہے۔ جس وجہ سے آج پورے سندھ میں پانی ہے۔ اور گزشتہ دنوں میں سندھ کے چیف منسٹر کا کہنا تھا کے سندھ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ کیسے اور کہاں خرچ ہوا؟ کیونکہ گر سندھ کا خزانہ خالی ہو گیا ہے تو ابھی تک سیلاب زدگان کو ٹینٹ فراہمی نہیں ہوئی۔ سات اضلاع میں صرف ایک اضلاع کو ٹینٹ کی فراہمی ہے، تو دیگر اضلاع اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔ اور ابھی تک جو کے این شاہ، جوہی، میہڑ اور قمبر شہداد کوٹ، لاڑکانہ اور دیگر شہروں، دیہاتوں میں لوگ ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ “کے این شاہ” شہر میں پھنسے ہوئے لوگوں کو دو ہفتوں سے زائد وقت ہو چکا ہے۔ اور گزشتہ ہفتے سے ایک خوفناک خبر ملی کہ ایک آدمی جو کہ “کے این شاہ” سے تعلق رکھتا تھا اور شہر کے ڈوبنے کی وجہ سے، گھر کا خیال رکھنے کی خاطر گھر میں ہی رہ گیا، مگر افسوس کہ چار دن پہلے اس کی لاش ملی ہے، جس کو کتوں نے اپنی خوراک بنا لیا۔ مگر کہاں گم ہیں حکومتی نمائندے؟ جبکہ سندھ حکومت کی اس وقت دو ضروری ذمہ داریاں ہیں۔ ایک عوام کو ریسکیو کرنا اور رلیف دینا انھی دونوں میں بھی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ جب الیکشن آتا ہے تو ییی حکمران اپنے مفاد کی خاطر کتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں، مگر اس آفت زدہ وقت میں الیکشن جتنا بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
سیاسی سمجھ کا فقدان بھی بحران کا باعث بنتا ہے۔ اور اس وجہ سے ہی معاشی بحران، مہنگائی کا بحران، صحت کا بحران، تعلیم کا بحران، اور سیلاب کا بحران، ملک کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ سیاست کی کمزوری کا بڑا سبب جمہوری سیاست کی بجائے آمرانہ سیاست کا ہونا ہے۔ اور اس ملک کا ترانہ جس میں کہا جاتا ہے۔ ہم ایک ہیں جبکہ ہر مشکل گھڑی میں ہم آپ کے کون ہیں۔ ایسے جشن پوشی کر دیا جاتا ہے۔ جب ماضی میں جو مہا سیلاب آیا اس وقت ودیس سے ملنے والا امداد ہی متاثرین کو نہیں ملا۔ تو اب ایسے حکمرانوں سے امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ سندھ کا آبپاشی نظام، سندھ کا محکمہ جنگلات اور محکمہ منصوبہ بندي پوری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔
سندھ کا آبپاشی وزیر 2008ع سے ایسا شخص ہے، جو عوام کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔ سندھ میں پانی کی شديد قلت پیدا کرنا اور کالا باغ ڈیم جيسی ترکیبیں بھی ہیں جس وجہ سے سندھ ڈرینج کی کارکردگی بالکل خراب رہی ہے۔ محکمہ جنگلات کے کام کا سوال جب تک ہے، اس کا کام محض پودوں کی کھدائی، کٹائی ہی رہ گیا ہے۔ شاخوں، نہروں کے کناروں پہ پودوں کی پوکائی ایک حوالے سے قدرتی طور پر بندوں کو بھی مضبوط کرنے میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن محکمہ آبپاشی اور محکمہ جنگلات کے عملداروں نے مل کر کناروں سے پیڑوں کو اکھاڑ پھینک دیا ہے۔ رہا سوال محکمہ منصوبہ بندی کا، تو اندازہ اس عمل سے ہی واضح ہوجاتا ہے۔ جب شہر، لوگ سیلاب کی زد میں ڈوب رہی ہو۔ شہروں کا زمینی رابطہ کٹ جائے ،اور یہ حکمران فیصلہ لینے میں مہینے لگا دیں کہ اگر بند کو یہاں سے کٹ دیا جائے تو یہ ہو گا وہ ہو گا۔
ماضی کے مہا سیلاب سے حکومت نے کیا سبق پایا؟ کچھ بھی نہیں تبھی تو شہر بندوں کو رنگ بند نہیں باندھا۔ جبکہ محکمہ موسمیات اور سائنسدانوں نے آنے والے بارشوں سے پہلے سے ہی اطلاعات دی تھی۔اس کے باوجود بھی حکومت نے کیا تیاری کی؟ کچھ نہیں۔ یہ عوام کبھی زلزلوں میں دب کر مر جاتی ہے۔ کبھی پانی کی بوند کی خاطر تڑپ کر مر جاتی ہے۔ کبھی بیماریوں میں جکڑ کر مر جاتی ہے۔ کبھی سیلاب میں ڈوب کر مر جاتی ہے۔ مگر اب عوام شدید غصے میں جس کا اظہار مکمل طور پر وہ کر رہے ہیں۔ہر ایک کی آنکھوں نے دیکھ لیا اور اب انہی حکمرانوں سے سوال بھی ہوگا۔ جواب بھی مانگا جائے گا، اور سب کا حساب بھی لیا جائے گا۔ کیونکہ عوامی مزاحمت، عوامی سیاست نے ہر دور میں لوگوں کے اعتماد کو بحال کیا ہے۔
اور کے این شاہ جیسے کئی شہروں کے چھوٹے بچے، نوجوان، خواتین، مرد حضرات ان سب کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ جس ریاست کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔کیا ایسے وہ اپنے مفادات کی خاطر عوام/ بچوں کو ہی استعمال کر دے، انہیں مار کر خود جوان ہو جائے۔ کیا ان حکمرانوں نے ماں جیسی ریاست کے عہدے کا مان رکھا ہے؟ کیا ماں ایسے ہوتی ہے جو میدان جنگ کو دیکھ کر سامنا کرنے کی بجائے بزدلوں کی طرح پلٹ کر واپس چلی جائے۔ جب کبھی مشکل وقت آتا ہے۔ اور ملک کے حکمران، سیاسی نمائندے عوام کا سہارا بننے کی بجائے، ایسے اپنے بنگلوں میں چھپ جاتے ہیں۔ جیسے چور چوری کر کے چھپ جاتا ہے۔ اب ان حکمران سے پورا حساب ہوگا اور سیلاب کی زد میں عوام کی جتنی زندگیاں قربان ہوگئیں۔ اس ہر قربانی کا، ظلم کا، نا انصافی کا حساب بھی ہوگا۔ اور یہ جاگیرداری، سرمایہ داري، پدرانہ نظام ہی عوام کے ہر درد کا باعث ہے، جس کی وجہ سے ایک جیتے جاگتے انسان کی قدر و قیمت ایک بے جان ورکر کے سوا کچھ نہیں۔ اس نظام کو جڑوں سے اکھاڑنا ہوگا، تب ہی ہم ایک انسان دوست معاشرہ جوڑنے میں کامیاب ہوں گے، جس میں کسی انسان کو ورکر، چیز یا جنس طور پر نہیں بلکہ انسانیت کے طور پر پر جانا جائے گا۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
فیضٓ
نوٹ: اوپر دیا گیا کور فوٹو بی بی سی کی “خیر پور ناتھن شاہ” بارے رپورٹ سے لیا گیا ہے۔