بس اسی معیار کے ہو تم

زندگی چنا

کتنے ادھار ہیں تم پہ اس دھرتی کے

پھر بھی کیوں غدار ہو تم؟

چند پیسوں پہ بک جاتے ہو

بس اسی معیار کے ہو تم۔

لوگوں کا درد نہیں دِکھتا تمہیں؟

ان کی آہیں نہیں سنائی دیتی تمہیں؟

شاید پیسے کے بیمار ہو تم۔

کرسی پہ بیٹھ کے بھی کرسی کو بچانے کی سوچتے رہتے ہو

نجانے کتنے مکار ہو تم۔

قسم لیتے ہو قوم کو بچانے کی

پھر اسے ڈوبانے میں پہلے ہوتے شمار ہو تم۔

سارے غریب دربدر ہیں

پھر بھی محلوں کے اندر ہو تم۔

کہتے ہو یہ سیلاب عذاب ہے خدا کا

پھر تو سب سے پہلے اسی کے حقدار ہو تم۔

سارے عذاب کیوں مظلوموں کے لئے ہی ہوتے ہیں؟

بس اسی سوال کے جوابدار ہو تم۔

تاریخ بھی یاد رکھی گی تجھے اور تیرے کارناموں کو

ہزاروں معصوم زندگیاں چھین کر

 پھر بھی جیلوں کے باہر ہو تم۔

Spread the love

Leave a Reply