ذیشان احمد
کتنی دلکش تھی زندگی
ابھی کل ہی کی بات ہے
لہلہاتے ہوئے یہ کھیت
ابھی کل ہی کی بات ہے
ہنستا ہوا گھربار میرا
ابھی کل ہی کی بات ہے
بارش اور سیلاب میں
سب کچھ بہہ گیا میرا
میں دیکھتا ہی رہ گیا
ابھی کل ہی کی بات ہے
کھنڈر بنا ہے یہ جو پانی میں
کبھی یہ گھر تھا میرا
بس ابھی کل ہی کی بات ہے
بچے میرے یہاں پہ چہکتے تھے
ابھی کل ہی کی بات ہے
بارش تو تھی رحمت
مگر زحمت ہی بن گئی
سب کچھ میرا لٹا ہے
ابھی کل ہی کی بات ہے
ہر کوئی ہے مصروفِ سیاست یہ جو آج
در پر تھے ووٹ لینے میرا
ابھی کل ہی کی بات ہے
گھر بھر لٹ گیا
میرا سنسار لٹ گیا
کتنے ہی تھے ارمان میرے
ابھی کل ہی کی بات ہے
بچے بلک رہے ہیں میرے بھوک کے مارے
سر پر نہیں ہے چھت
پاؤں پہ نہ جوتی ہے نہ تن پر کوئی کپڑا
سب کچھ ہی بہہ گیا
ابھی کل ہی کی بات ہے
سپنے ہزار ساتھ میرے گھر کے مرگئے
پانی میں میرے جانور بلک بلک کر مر گئے
وہ جانور نہ تھے وہ تھے میرا کل اثاثہ
دولت میری لٹی
ابھی کل کی ہی بات ہے
ایندھن کو جلائے جاتا ہے سامراج
زمین کو کاٹ کاٹتا ہے سامراج
کتنی ہی صاف تھی یہ فضا
ابھی کل ہی کی بات ہے
گدلا ہے یہ پانی ہم پھر بھی پی رہے
ترپال کے سایے میں دیکھو ہم جی رہے
ایسی نہ تھی یہ زندگی ہماری
ابھی کل ہی کی بات ہے
بارش کا کیا قصور، تو دریا سے کیا گلہ۔۔
اتنے نہ یہ تھے بے رحم
ابھی کل ہی کی بات ہے
کاٹے گئے درخت، محل نما عمارتیں بنانے کو
پانی پہ بند باندھ کے روکا گیا کہیں
بارش کے نالوں پہ بنائی گئیں سرنگیں
کاٹے گئے پہاڑ، سڑکیں بنانے کو
ابھی کل ہی کی بات ہے
وہ دن نہیں اب دور کہ مٹ جائے گا سب کچھ
ماحولیاتی تباہی سے سب ختم ہوجائے گا