تباہ حال وسیب میں سیلاب، وجوہات اور ممکنہ حل


انجینئر امین

اگر آپ میڈیا پہ خبروں سے استفادہ کرتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو رہا ہو گا کہ وسیب واسی آج کل شدید سیلاب کی زد میں ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ کے ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہوتا ہو گا کے جوں ہی بارشیں زیادہ ہوتی ہیں یا موسمی حالات کی تبدیلی کی وجہ سے جب بھی سیلابی صورتِحال بنتی ہے اس میں متاثر ہونے والے خطے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سرائیکی وسیب ہیں مگر دوسری طرف اسلام آباد جس کو ان پریفریز کے لوگوں کے حصے کے ٹیکس اور جنریٹ کیے گیے ریونیو سے باقاعدہ منصوبے کے تحت بنایا گیا اس میں سیلابی صورتحال تو دور کی بات ایک گھنٹے بعد بارش کا پانی تک ہی نظر نہیں آتا، تو کیا یہ بارشیں صرف خدا کی طرف سے عذاب ہمارے خطوں کے لیے ہی بنتی ہیں اسلام آباد یا سنٹرل پنجاب کے لیے کیوں نی بنتی۔ سرائیکی وسیب جو موجودہ پنجاب کا جنوبی اور خیبرپختونخواہ کا جنوب مشرقی علاقہ پر مشتمل ہے جس کی اپنی شناخت، نام، زبان، ثقافت چھین کر اس کو تقسیم کیا گیا اور اب کیونکہ اس کا زیادہ تر ایریا موجودہ پنجاب کے جنوب میں ہے تو وسیب واسیوں کے معاشی قتل کے ساتھ ساتھ ان کی دھرتی کو پنجاب حصہ سمجھتے ہوئے اس کی زبان کو بھی پنجابی زبان کا لہجہ قرار دینے کی بھی ایک ناکام کوشش کی گئی۔ موضوع کو پرکھتے ہیں وسیب جو کہ ماضی کی طرح آج کل بھی شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اس آنے سیلاب کی زمینی وجوحات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انیس سو ترانوے کے ترقیاتی منصوبوں میں زراعت پر خصوصاً زور دیتے ہوےئ بارانی علاقے جہاں پر پانی کی قلت اور بلواسطہ نہریں موجود نہیں کو بارشوں کے پانی کو اکٹھا کر کے چھوٹی بڑی بہت سی نہروں کی صورت میں ڈیرہ غازی خان کے بارانی ایریا کو سیراب کرنے کا انتظام کیا گیا اس بات سے قطع نظر کے بارش کا یہ پانی کتنا بڑا عذاب بن سکتا ہے، پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے کو روک کر اس منصوبے کی مد میں دو بڑی نہریں ڈی جی خان اور داجل برانچ اور اس سے ملحقہ کئی اور چھوٹی بڑی نہریں نکالی گئیں۔ ان میں بنائی گی چشمہ رایٹ بنک کینال جو صرف تین ماہ سے بھی کم چلتی ہے برساتی دنوں میں، جو کے ایک اوور ہیڈ کینال ہے کو بنانے کے لیے مختلف پُل بنائے گئے اور رود کوہیوں کی گزرگاہ پہ پلوں کی کم کپیسٹی نے پانی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی جب بارشوں کا پانی ممکنا حد سے بڑھا تو کوئی حل تو دور کی بات، محکمہ آب نے لوگوں کو خبردار تک نہ کیا اور انھیں سنبھلنے کا کوئی موقعہ دیئے بغیر پانی سب کچھ بہا لے گیا، ان میں آباد بستیاں، بڑے سے لے کر چھوٹے انسان، معصوم بچے، جانور، وسیب کے استحصال زدہ واسیوں کی املاک، لاکھوں مکانات، ہزاروں ایکڑ فصلیں کچھ نہی بچا، اور رہی کثر وہاں کے جاگیردار اور سردار طبقے نے پوری کر دی اپنے ذاتی املاک کو بچانے کے لیے انسانوں کو ڈبو دیا گیا یہ وقعہ ڈیرہ غازی کا موضع چٹ سرکانی کا ہے جو مقامی سرداروں کی تاب نہ لاتے ہوئے زیر آب آگیا جہاں وڈور نالے کا پانی بجائے مقامی آبادی کو بچانے کے آبادی کے قریب سے بند کو توڑا گیا کیونکہ اگر چٹ سرکانی کی آبادی کو بچایا جاتا تو مقامی سرداروں کے فارم ہاؤس اور فصل زیرِ آب آتی تھیں انہیں بچانے کے لیے انسانی بستیوں کو ڈبو دیا گیا ایسا ہی کچھ راجن پور کے بڑے برساتی نالا کو بند کر کے ایک چھوٹے نالے میں سے سارے پانی کو گرنے پہ مجبور کیا گیا کیونکہ اگر ان کیس بڑے نالے کی کپیسٹی سے پانی بڑھتا تو قریب سرداروں اور دریشقوں کی زمینیں اور فصل زیرِآب آتی تو سردار کی زمینوں اور باغات کو بچانے کےلیے عام آبادی کو نقصان پہنچایا گیا۔
سیلاب کی وجوہات کو مزید جانیں تو ہمیں ایک بڑی وجہ رود کویوں کے راستے کو ڈائیورٹ کرنا شامل ہے۔ ڈجی خان اور تونسہ میں دس سے زیادہ بڑی اور بہت سی چھوٹی رود کویاں ہیں، ماضی میں پندرہ سال پہلے جب بارشیں آتی تھیں تو رودکوی یا نیں کی صورت میں ایک قدرتی راستہ پانی کو مل جاتا تھا اور وہ بنا کسی نقصان کیے دریائے سندھ میں گرتا تھا اور کہا جاتا ہے کے جن زمینوں سے یہ گزرتا تھا وہاں دوبارہ پانی لگانے کی ضروت نی پڑتی تھی اور فصلیں شاندار پک جاتی تھیں اور یہ بارش کا پانی ایک لحاظ سے خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پھر ہوا یوں کہ کچھ مفاد پرست اشرافیہ اور حکمران طبقے نے ترقی کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیز کو استحصال کرنے کی اجازت دی جن میں سیمنٹ فکڑیز، کرش پلانٹس، نیوکلیئر پروجیکٹس جنہوں نے شدید نوعیت کے ماحولیانی تباہی کو جنم دیا اور ساتھ میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ان رودکوی کے پانی کو چھوٹے ڈیمز میں سٹور کرنا اور پھر اس کو کرش پلانٹس، سیمنٹ فیکڑیز اور نیوکلیئر پروجیکٹس کے لیے استعمال کیا گیا اور کرنے کی کوشش کی گی اس بات سے قطع نظر کے ایکسیس میں سیلابی پانی کے لیے کیا متبادل ہو گا ۔
اس سیلابی وجوہات کی ایک اور وجہ دریا کےدونوں اطراف تقریباً پچاس کلومیڑ ویڈتھ اور گیارہ سو کلومیڑ پر مشتمل کچے کا علاقہ ہے جس کے واسی مویشیوں کو پال کر گزر بسر کرتے تھے اور تقریبًا پانچ سو سے زیادہ جھیلیں تھی پانی کو سٹور کرنے کے لیے تاکہ مویشی اور انسانوں کے لیے زندگی کی امید رہے، اس ایریا کو غیر ضروری طور پر زرعی بنایا گیا اور دریا کے دونوں اطراف سے زمینیں اشرافیہ میں تقسیم کی گئیں، کئی جگہوں پر تو دریا کی کچھ گزرگاہوں پہ بند بھی باندھے گئے اور اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کے دریا کی گزرگاہ چھوٹی راہ بن گئی اور سیلابی صورتِ حال میں دریا سب بہا لے گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسیب واسی آخر دیکھیں تو کس کی طرف دیکھیں، کیا یہ مقامی سردار جو حکومت کے آلہِ کار ہیں سے امیدیں لگائیں یا کہ وہ پاکستان کے حکمرانوں کی طرف دیکھیں جو لاہور میں اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں اس بات سے نالاں کہ وسیب ڈوب رہا ہے انسانوں کی لاشیں بےیارومددگار جنہیں پانی نگل گیا کسی باپ کو اپنا بیٹا نہیں مل رہا تو کسی ماں کی نظریں گم ہوی بیٹی کو ایک نظر دیکھنے کے لیے تڑپ رہی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں یہ سیلاب مین میڈ ہے پانی گزرگاہوں کو مختلف طریقوں سے متاثر کیا گیا بنا زمینی حقائق کو سمجھے، میں سمجھتا ہوں یہ پورا سیلاب متاثرہ خطہ مکمل ہیل ٹورنٹ سولیوشن مانگتا ہے۔ ابھی چھوٹی موٹی امداد کر کے وسیب واسیوں کے دکھوں کا مداوا نہیں کیا جا سکتا۔ کیا جو لاکھوں گھر، فصلیں تباہ ہوئی ہیں حکومت کی یا کسی این جی او کی چھوٹی موٹی امداد مداوہ کر سکتی ہے؟ کبھی نہیں، وسیب واسی جو کہ میں سمجھتا ہوں دوہرے استحصال کا شکار رہے ہیں، پہلا تخت لاہور جو کہ وسیب کو 30 فیصد سے بھی کم بجٹ میں حصہ دار سمھتا ہے جبکہ اس کے سارے پنجاب کا 51 فیصد زمینی حصہ جو وسیب کے محکوم عوام کا ہے، کے وسائل پر قابض ہے اور جو مجموعی ریونیو وسیب سے جنریٹ ہوتا وہ تقریبًا سو ارب ہے اور ملتا اس کو ایک ارب بھی نہں کیونکہ نا تو کوئی صوبہ ہے نا ہی کوئی این ایف سی ایوارڈ کی لسٹ بنتی ہے، اور دوسرا وسیب کی دھرتی پہ قابض سردار، جاگیردار یہ سیمنٹ فیکڑیوں کے مالک سرمایہ دار یہ قریشی، لغاری، ترین، گیلانی، دریشک، کھوسے، مزاری، پولیٹیکل ایلیٹ، جو برطانوی سامراج کے پٹھو اور آلہِ کار تھے کبھی عوام دوست اور سماج دوست نہیں ہو سکتے۔ میرے وسیب کی عام عوام طلبہ، محنت کش، مزدور اور کسان جو کے دھرتی کے اصل مالک ہیں کو اس بات کو اب سمجھ جانا چاہیئے یہ پولٹیکل ایلیٹ کوئی حل نہیں دینے والی۔ اگر یہ صوبہ بنائیں گے تو اپنے مفاد کے لیے بنائیں گے۔ وسیب کے باشندوں کو اپنی شناخت، زبان، تہذیب اور اپنے آپ کو اور آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے ان مٹھی بھر دھرتی کے لٹیروں سے جان چھڑانے کے لیے قومی یعنی وسیب دھرتی پر وسیب واسیوں کا حق اور طبقاتی بنیادوں پر یعنی ان سرداروں، جاگیردارں ، مُٹھی بھر سرمایہ دارں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کسی موجودہ پولٹیکل پارٹیوں سے امید لگائے بغیر منظم ہونا ہو گا۔ اپنے جمہوری اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے ہوں گے اور اپنے زمینی حقائق کے مطابق اپنی دھرتی اور وسیب کی خوشحالی کے لیے کام کرنا ہو گا۔

نوٹ: لکھاری پروگریسو سٹوڈنٹس فیڈریشن سندھ کے جوائنٹ سیکریٹری ہیں۔

Spread the love

Leave a Reply