یوسف حسن
ہمارے وطن پاکستان میں عمومی طور پر ساری دانشوری اور خصوصی طور پر ترقی پسند دانشوری ایک بحران میں مبتلا محسوس ہوتی ہے۔ اس بار ان کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے طبقاتی مفادات اور دانشوروں کی فکری ترجیحات کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے اور ترقی پسند اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کے پاس اپنے کارکنوں کی فکری تعلیم وتربیت کرنے کے لیے ترقی پسند دانش وری کا اتنا کال ہے کہ انہیں اس کام کے لئے ایسے بچھے کچھے ترقی پسند دانشوروں کو بلانا پڑ رہا ہے جن کی سیاسی سوچ سے خود ان کا نمایاں طور پر اختلاف موجود ہے۔
دانشور افراد مل کر کسی ایک طبقے کی تشکیل نہیں کرتے بلکہ ان کا تعلق سماج کے مختلف طبقوں سے ہوتا ہے۔ بالائی طبقات سے بھی اور نچلے طبقات سے بھی ۔ تاہم زیادہ تر دانشور درمیانے طبقے کی ذہنی محنت کرنے والی مختلف پرتوں میں سے آتے ہیں۔ جن میں وکیل، اساتذہ، صحافی اور دفتری ملازمین شامل ہیں۔ پاکستان میں ایسے پیشہ ور دانشوروں یعنی صرف اپنے دانشورانہ کام کے معاوضے پر گزارہ تک کرنے والے دانشوروں کی تعداد بھی کم ہے۔ دانشوروں کی اکثریت کو اپنے دانشورانہ کام کے بجائے کسی اور طرح کی ذہنی محنت بیچ کر اپنا گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ جسمانی محنت کی طرح ذہنی محنت کے استعمال کے ذرائع بھی بالائی طبقوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اس ذہنی محنت کو بھی اپنے مفادات کے حصول و حفاظت کے لئے خریدتے ہیں اس لئے کسی دانشور کی ذاتی دانشورانہ سمت اور اس کی پیشہ ورانہ ذہنی محنت کے مابین اختلاف و تضاد بھی موجود رہتا ہے اور یہ اختلاف و تضاد خاص طور پر ترقی پسند دانشوروں کو بار بار سخت آزمائشوں میں سے گزارتا ہے اور ان آزمائشوں میں اپنی ترقی پسندانہ دانشوری پر ثابت قدم رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اور اس حقیقت کی عالمی تاریخ سے بھی اور پاکستان کی قومی تاریخ سے تصدیق ہوتی ہے۔
روس میں 1905ء کی انقلابی جمہوری تحریک ناکام ہو گئی تو اس کے بعد روسی حکمرانوں نے انقلابی کارکنوں اور دانشوروں پر اندھا دھند تشدد کرنا شروع کر دیا۔ اس تشدد کا اسٹیشن سوشل ڈیمو کر یک لیبر پارٹی کے بالشویک اور منشویک دونوں دھڑوں کے متعدد اہم دانشوروں پر بھی نہایت گہرا اثر پڑا اور وہ یا تو انقلابیت سے منحرف ہو کر حکمرانوں سے جا ملے یا پھر انقلابیت کی لفاظی کرتے ہوئے اصل میں اصلاح پسندی اور مصالحت پسندی کی سطح پر اتر آئے۔ جن کے خلاف لینن کو اپنی پارٹی کے اندر بھی اور اس سے باہر بھی مسلسل سخت فکری لڑائی لڑنا پڑی۔
پاکستان میں تمام تر دشوار حالات کے باوجود 1958ء کے مارشل لاء تک ترقی پسند دانشوروں نے عوام دوستی کی راہ پر اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد 1968ء کی جمہوری تحریک اور پھر 1977ء کے مارشل لاء کے دوران میں جمہوری تحریک میں بھی ان کی ترقی پسندانہ فکری خدمات قابل قدر ہیں۔ لیکن اس کے بعد خصوصاً سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکیت کی ٹوٹ پھوٹ کے المیے اور اس کے ساتھ سامراجی گلوبلائزیشن کے عمل نے جہاں عالم گیر پر انقلابی تحریکوں پرمنفی اثرات ڈالے وہاں پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھی ان دونوں عوامل سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ان دو بڑے عوامل کے زیراثر ایک طرف محنت کش عوام کے حالات زندگی خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف ریاستی تعزیرات کے خوف یا سامراجی مراعات کی کشش میں آ کر ترقی پسند دانشوروں کی بڑی تعداد انقلابیت تائب ہو کر سامراجی اصلاح پسندی کو اپناتی چلی جارہی ہے۔ اور یہ منخرف ترقی پسند دانشور ہرچند اب بھی اپنے آپ کو ترقی پسند ہی کہتے ہیں مگر ان کی فکری رفاقت اپنے عوام سے نہیں ہے۔ بلکہ روشن فکری کے نام پر سامراجی اور مقامی بالائی طبقات سے ہے۔ اور وہ عوامی، طبقاتی فکری اور عملی جدوجہد کے مقابلے میں روشن فکری اور اوہام پرستی کے تضاد کو ادنیٰ تضاد قرار دے کر سامراج اور اپنے بالائی طبقات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب کہ ترقی پسند دانشوروں کے نزدیک اولین مسئله طبقاتی مسئلہ ہے اور وہ روشن فکری کی نفی کیے بغیر عوام کی طبقاتی جدوجہد کو اولیت دیتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ عوام کو اپنی طبقاتی جدوجہد میں روشن فکر بننا بنانا چاہیے مگر پاکستانی سماج میں اس وقت المیہ یہ ہے کہ ایسے ترقی پسند دانشوروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جن کی روشن فکری عوام دوستی کی فکری اور عملی جدوجہد سے ہم آہنگ ہو اور ثابت قدم رہنے والے ان ترقی پسند دانشوروں پر اپنے فکری کام کا بوجھ غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال میں انہیں اپنا کام کیسے کرنا ہے وہ ہم سے کہیں بہتر جانتے ہوں گے۔
ترقی پسند دانشوری کی روایت جس بحران میں مبتلا ہے۔ اس بحران میں سوال یہ ہے کہ خود عوام کیا کریں؟ کہا جاتا ہے کہ جس کے سر پڑتی ہے وہی بہتر جانتا ہے۔ چنانچہ استحصالی نظام کے نئے مرحلے میں سخت ترین زد محنت کش عوام پر ہی پڑ رہی ہے اس لئے وہی بہتر جانتے ہیں کہ اپنی طبقاتی نجات کے لئے اور اپنی انسانیت کی بقا اور آزادان نشوونما سے پہلے انہیں کیا کرنا ہے ۔ پھر بھی اس سلسلے میں یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ انہیں ایسے دانش وروں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو ترقی پسندانہ لفاظی کے پردے میں انہیں طبقاتی غلامی اور سامراج نوازی کو قبول کرنے پر مائل کرنا چاہتے ہیں یا پھر دوسری انتہاء پر جا کر انہیں مہم جوئی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں انتہاؤں کا سبب بھی ایک ہی اور نتیجہ بھی ایک ہی ہے۔ سبب ہے عوام کی طبقاتی جدوجہد پر بےاعتمادی اور نتیجہ ہے عوامی طبقاتی تحریکوں کی مزید تباہی۔
ترقی پسند دانشوری میں جو بحران موجود ہے اس نے ہماری نوجوان نسلوں کو خاص طور پر بہت متاثر کیا ہے۔ نوجوان نسلیں بے معنویت اور بےسمتی کا شکار ہیں اور یہ بے معنویت اور بےسمتی ان کی فکری اور عملی توانائیوں کو ناکارہ بنا رہی ہے وہ ایسے کاموں میں لگی ہوئی ہیں جو ان کی انسانیت کو برباد کر رہے ہیں۔ عوام کی منظم اور متحرک طبقاتی تحریکیں اور ثابت قدم عوام دوست ترقی پسند دانشوروں کی حقیقت پسندانہ فکری کوششیں مل جل کر نئی نسلوں کو اس بربادی سے بچا سکتی ہیں اور ان کی توانائیوں کو عوام کے حق میں سماجی تبدیلیوں کے کام میں لا سکتی ہیں۔ بدلے ہوئے حالات میں یہ سب کچھ کیسے کرنا چاہیے، ہم سب کو مل جل کر سوچنا چاہیئے۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل عوامی مزاحمت میں شائع ہو چکا ہے۔