کانبھو خان عمرانی
ماضی سے لے کر حال تک، تاریخ کی گہرائیوں میں جھانکنے سے پتا چلتا ہے کہ سندھ کی طلبہ سیاست نے زمین سے آسمان اور آسمان سے لے کر زمین تک پہنچنے کا سفر طے کیا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ سیاسی طریقہ کار کے علاوہ بہت سے رحجانات نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
بطور ایک ترقی پسند سیاسی کارکن، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی طریقہ کار حاوی ہونے کی وجہ سے اُس کلچر نے جنم لیا، جس نے طلبہ کے سوال کو غیر تعلیمی سرگرمیوں اور طلبہ دشمن پالیسیوں کی طرف راغب کردیا ہے۔ سندھ کے دیہاتی علاقوں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ “بہتا ہوا پانی، کبھی ڈوباتا نہیں”، اگر واقعی دیکھا جائے تو، جب ہمارا شعوری اور علمی نقطہ نظر محدود دائرے کے بیچ میں کھڑا رہا ہوگا تو پھر یقیناً ڈوبنا لازم ہوجاتا ہے۔
کہیں نہ کہیں سندھ کی طلبہ سیاست بھی ایسے رجحانات کے اثرات میں رہی ہے۔ ترقی پسند سیاست، “ترقی پسند” لفظ کی معنی جاننے سے نہیں ہوتی، بلکہ علمی اور عملی میدانوں میں فکری طور پر اپنے آپ کو ثابت کرنے سے ہوتی ہے۔ جو چیز ماضی کے دور میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
ہتھیار کلچر، غنڈا گردی، بھتہ خوری جیسی اصطلاحات، ریاست نے جبری طور پر ہم پر نہیں مسلط کیں، مگر ہمارے سامنے ضرور رکھیں۔ جبکہ ہم تو پہلے سے ہی اسے کنارے پہ کھڑے تھے کہ کسی کو دھکا دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ ہم نے اپنے آپ کو خوشی خوشی اس سارے ریاستی طریقہء کار کا حصہ بنا ڈالا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ساری کی ساری طلبہ سیاست کا ہی حال ایسا تھا۔ ماضی کی بہت ساری تحریکیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ سندھ کے طلبہ نے بہت سی جگہوں پر سرخرو ہو کر مزاحمت کی ہے۔ ون یونٹ ہو، ایوب، ضیاء یا اور کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہو، سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کی تحریک ہو یا قدرتی وسائل پر قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کی تحریک ہو، ہر جگہ پر طلبہ کے نعرے گونجتے رہے ہیں۔
یہاں تک کہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب ایک طرف ریاستی مؤقف کو قبول کر کے طلبہ دشمن پالیسیوں کو اپنایا جا رہا تھا، اس وقت بھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد، ان رجحانات کی مخالفت کر کے جنگ میں مصروف تھی۔ اگرچہ اور بھی آسان الفاظ میں کہیں تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں اس وقت بھی مزاحمت کے عمل میں تھیں۔
اگر ہم واقعی ترقی پسند اور نظریاتی سیاسی کارکن ہوں گے تو بڑے صبر و تحمل کے ساتھ اس بات کو مانیں گے، کیونکہ ہم چاہے کتنا بھی ماضی سے بھاگیں، لیکن تاریخ ہمیں کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔
سندھ کے تعلیمی اداروں میں اب بھی ایسے اقسام کے رحجانات کو فروغ دیا جارہا ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ ان پر عمل بھی وہی جماعتیں کر رہیں ہیں، جو ماضی کی انھی جماعتوں کا تسلسل ہیں، جو پہلے بھی ریاستی طریقہ کار پر اپنا کردار ادا کر چکی ہیں۔
ایک قسم کا عام رواجی کلچر، جس کو انگریزی میں “ہیروازم ” کہہ سکتے ہیں۔ یہ رجحان بڑے جاندار طریقہء کار سے کام کر رہا ہے۔ ترقی پسند اور نظریاتی بنیادوں پر طلبہ سوال کو دیکھنے والی جماعتیں، آج بھی “انتطامی جماعت” کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی تربیت اور نظم و ضبط آج بھی کتابی باتیں، مانی جاتی ہیں۔ اگر کوئی فرق رہ گیا ہے تو یہ کہ پہلے سامنے، اب پیٹھ پیچھے اس عمل کی اہمیت کو گھٹایا جا رہا ہے۔
بہرحال ان سارے عوامل کے علاوہ ایک اور رجحان، آج بھی طلبہ سوال کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ ہے “ایڈوینچرزم”۔
مزاج اور طبیعت میں جذباتی ہونا، ہر نوجوان میں لازمی ہے، لیکن اس کا وقتی اور بہتر استعمال ایک گہری نظر رکھنے والا سیاسی نوجوان ہی کر سکتا ہے۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور دیکھنے کو ملتی ہے، جس وجہ سے بہت جلدی میں بہت ہی بڑے فیصلے اٹھائے جاتے ہیں، جن کا ردعمل وقتی طور پر تو بہت خوب ملتا ہے، لیکن بعد میں ایک نئے طریقہ کار سے طلبہ دشمن قوتیں کسی نہ کسی طرح سے نئی طرح سے طالب علموں کا استحصال بڑھ جاتا ہے۔
ایسے بہت سے اور رحجانات ہیں، جو آج بھی سندھ کی صحت مند طلبہ سیاست کے راستے کی رکاوٹ بن کر سامنے آتے ہیں۔ خود کو سیاسی عمل کا حصہ بنانا تو ہر انقلابی سیاسی کارکن کا پہلا مقصد ہونا چاہیے، لیکن خود کو سپرد کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ” جان دے دیں گے، لیکن نظریاتی طور پر مضبوط ہونے، سیکھنے اور اس پر عمل کرنا اپنا کام نہیں!۔۔”
یہ سارے آج کے سوالات نہیں لیکن آنے والے نسلوں کے مستقبل اور ہمارے موجودہ وقت کے سوالات ہیں کہ آخر ان رحجانات کا ہوگا کیا، جو ماضی میں ہم پر حاوی ہوئے، موجودہ وقت میں ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں اور مستقبل کی طرف بڑھے جا رہے ہیں. لیکن آج تک ان کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا…؟؟