ذیشان احمد
لینن نے کسی بھی انقلاب کے جنم لینے کیلئے 5 نکات پیش کیے تھے۔
حکمران طبقات میں ٹوٹ پھوٹ اور تضادات کا شدت اختیار کر جانا۔
سماجی عوامل کا ریاستی کنٹرول سے نکل جانا۔
درمیانے طبقے کی تلملاہٹ اور غیر یقینی کیفیت کا شدت اختیار کرجانا۔
محنت کش طبقے کا عملی میدان میں اتر کر اپنی انقلابی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا۔
انقلابی پارٹی کا وجود
ان 5 نکات کی طرف دیکھیں اور پاکستان کے موجودہ حالت پہ بغور جائزہ لیں تو پہلے کے تین نکات ہمیں پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اقتدار کی لالچ اور ہوس کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور اس میں موجود تضادات عوام کے سامنے آچکے ہیں۔
وہ سیاسی جماعتیں جو ماضی کی حریف تھیں، آج حلیف بن چکی ہیں۔ جو کل تک ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے، آج بغل گیر ہیں اور دوسری طرف تبدیلی کا علمبردار فاشسٹ عمران بھی فلاپ ہو چکا ہے اور عوام کے سامنے اس کے تضادات اور اس نظام کی تمام خرابیاں عیاں ہو چکی ہیں کہ اس نظام میں سے صرف چہرے بدلتے ہیں، حقیقت میں ہر آنے والی حکومت سامراج اور سامراجی اداروں کے غلام اور آلہ کار ہوتی ہے جو اس ریاست کو صرف اور صرف سامراجی قوتوں کی غلامی کے دلدل میں مذید دھنسا رہی ہے۔
دوسرا نکتہ دیکھیں تو اس ریاست کی باگ ڈور اب سامراجی قوتوں اور اداروں کے ہاتھوں میں جو جب چاہے من پسند شرائط لگا کر عوام کا جینا محال کر رہے ہیں اور معاشی حالات اس نہج پہ پہنچ چکے ہیں کہ غربت سے لوگ مر رہے ہیں۔ پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے خوار ہور رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں جس کے سبب معاشرہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے اور سماجی مشکلات کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ عوام پر قہر بن کر ٹوٹ چکا ہے، ریاست کی رٹ ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
تیسرا نکتہ پہ درمیانے طبقے کی تلملاہٹ اور غیر یقینی کیفیت کا شدت سے اختیار کر جانا جو ہمارے یہاں ہر طرف نظر آتا ہے، طبقاتی سوال اب سب سے بڑا سوال بن کر سامنے آچکا ہے کیوں ایک طرف اشرافیہ اور حکمران طبقہ ہے جو موج مستی میں دنیا کی ہر آسائش ان کے پاس ہے ایک طرف غریب یا تو خود کو مار رہا یا اپنے گھر والوں کو یا اپنے بچے بیچنے پہ مجبور ہیں جس کا شدت سے اظہار ہمیں ہر طرف نظر آرہا ہے۔
اب آتے ہیں آخری دو نکات پر جو انقلاب کی اصل روح ہیں۔ جب باقی 3 نکات پورے ہوجائیں تو سب سے اہم چیز ہے اس کے نتیجے میں محنت کش طبقے کا عملی سیاسی میدان میں آنا اور اپنے حق کو چھین لینا ہے جس کے لئے سب سے اہم چیز پاکستان کے تناظر میں نوجوانوں کا عملی سیاست میں آنا ہے اس ملک کی 60 فیصد آبادی 25 سال سے کم عمر افراد کی ہے جو اس معاشرے کا مستقبل ہیں اب وقت آچکا ہے کہ یہ نوجوان میدان عمل میں آئیں اور اس بوسیدہ نظام کی بساط کو لپیٹ دیں۔
یہاں آخری نقطہ سب سے اہم ہے کہ جب باقی تمام نکات جب عملی شکل میں پورے ہو تو کوئی ایسی انقلابی مضبوط سیاسی پارٹی موجود ہو جو عوام کے لئے متبادل بنے اور انقلاب کو عملی جامہ پہنائے اور اس گلے سڑے نظام کو متبادل سوشلٹ نظام سے بدل دیں جہاں تمام انسان حقیقی معنی میں برابر ہوں اور ہم بدقسمتی سے اس وقت اس منظم سیاسی جماعت سے محروم ہیں ورنہ باقی تمام نکات اپنی عملی شکل میں نظر آرہیں ہیں ایسے میں ایک حقیقی انقلابی سیاسی ورکر کی اس وقت سب سے اہم ذمہ داری یہی بنتی ہے کی جہدوجہد کے اس عمل کو تیز سے تیز کرے، لوگوں میں شعور اور آگہی کو عام کرے مزدور،طلبہ، خواتین اقلیتوں اور ہر مظلوم کو سرخ پرچم تلے لے کر آئے تاکہ ایک ایسی منظم سیاسی قوت وجود میں جو انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔