عالیہ امیرعلی
طالبِ علم ساتھیو! یومِ مئی اس عظیم مزدور جدوجہد کی علامت ہے، جس نے سرمایہ داری نظام کی مزدور دشمن اصلیت کو واضح کیا اورساتھ یہ بھی ثابت کیا کہ جب محنت کشوں کی تحریک چل پڑے تو اس کے سامنے ریاستی جبر، فوج، توپ، ٹینک اور اسلحہ کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ مزدوروں کی جدوجہد، تمام رکاوٹوں کو توڑ کرایسی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے جو کہ ایک علاقہ سے دوسرے تک اور پھر ایک ملک سے دوسرے میں یک دم بھی پھیل سکتی ہے۔ یومِ مئی امریکہ کے مزدوروں کی اس تحریک کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس میں مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے بارہ سے چودہ گھنٹے مزدوری کو آٹھ گھنٹے تک محدود کروایا۔ اورجس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں مزدور طبقہ اوورٹائم اور دیگر سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
لیکن یہ مضمون یومِ مئی کے واقعات یا اس کی اہمیت پر نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آج کے دور میں، جس میں دنیا بھرکی طرح پاکستان کی مزدور تحریک بھی پسپائی کا شکار ہے (وقتی طور پر ہی صحیح) اورآج کی طلبہ تحریک سیاسی طور پر اس سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ بذاتِ خود ایک سوال بنتا ہے کہ ہم یوم ِ مئی کیوں مناتے ہیں؟ کیا اس لیے مناتے ہیں کیوںکہ ہم بائیں بازو کی تنظیم ہونے کے ناطے اس دن کو روایتی طور پر مناتے آ رہے ہیں لہٰذا آج بھی اس روایت کے ساتھ قائم ہیں؟ روایات کا ہونا کوئی بری بات نہیں بلکہ ہر تنظیم، ہر فکر، ہر گروہ اور جہاں جہاں بھی تسلسل کے ساتھ کسی قسم کا اجتماعی عمل چل رہا ہو وہاں روایات جنم لیتی ہیں۔ لیکن سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ہم محض روایت کے طور پر اس دن کو مناتے ہیں؟ یا پھر اس لیے مناتے ہیں کیونکہ ہم اس تحریک کے طرز کی ایک اور تحریک کے انتظار میں ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے حالات تبدیل کر دے گی؟ اس سے بھی شائد بنیادی سوال جو کہ مجھے یقین ہے کہ اس میگزین کو پڑھنے والے بیشتر طلباء کے ذہنوں میں ابھرتا ہوگا وہ یہ کہ آخر ہم طالبِ علموں کا یومِ مئی سے تعلق ہی کیا ہے؟ ایک طلباء تنظیم ہوتے ہوئے مزدورتحریک کے بارے میں کیوں لکھا جا رہا ہے؟ ایسی تحریک سے واقف ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جس کا تعلق پاکستان سے ہے بھی نہیںـ اس تاریخ کو پڑھنے اور جاننے سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ کیا یہ زیادہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی کاوشیں طلبہ کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل نکالنے تک رکھیں؟ آخر ہماری اپنی تحریک تو شائد مزدور تحریک سے بھی کمزور ہے تو ہم اپنا شمار مزدور تحریک کی یاد منانے کی بجائے اپنے روزمرہ مسائل پر توجہ دینے کیلئے کیوں نہیں استعمال کرتے؟
اس نقطہِ نظر میں جہاں کچھ حوالوں سے وزن ضرور ہے، یہ محدود بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ سمجھنے والی ہے کہ ہم جس طرح اپنے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کی خاصیت یہ ہے کہ ہم ہرمسئلے کو اس کے مکمل تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم آج کی بڑھتی ہوئی فیسوں، اکیڈمی کلچر اور نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار، سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کی نجکاری، اور مختلف تعلیمی شعبوں اور ڈگریوں کی مانگ میں اور قیمت میں اتار چڑھاؤ کو سمجھنا چاہتے ہیں (جو کہ ضروری ہے ان مسئلوں کا حل ڈھونڈنے کیلئے) تو ہمیں ان عوامل کو اس پورے نظام کے اندر رکھ کر دیکھنا ہوگا، جس کا وہ حصہ ہے اور جس کی وجہ سے تعلیمی نظام کی موجودہ شکل ترتیب پا رہی ہے۔ یقیناً ایک ملک کا تعلیمی نظام، اس کے صحت کے نظام، دفاعی نظام، اقتصادی نظام اور مجموعی طور پر ملک کے معاشی اورسیاسی نظام سے کوئی تو تعلق رکھتا ہوگا۔ جب ہم اس تعلق کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائیں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ موجودہ تعلیمی نظام کا تعلق نہ صرف گہری سطح پر ملک کے معاشی سیاسی اور سماجی ڈھانچہ سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس بات کا بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ ادراک ہوگا کہ نہ صرف اپنے فرسودہ تعلیمی نظام کو بدلنے کیلئے، بلکہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل تلاش کرنے کیلئے ہمیں ان طبقات کا سہارا چاہئیے جوکہ اس نظام کے اندر اپنی اپنی جگہ تنگ ہیں، جنہیں اسی طبقاتی نظام اور اس سے مستفید ہونے والے اشرافیہ نے ذلیل و خوار کر رکھا ہے اورجنہیں اپنے حق کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا اور محنت کش طبقات کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور کہ ہم جب تک طبقاتی جدوجہد کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور اسے اپنی جدوجہد کے لازمی جزو کے طور پر نہیں پہچان سکیں گے، اس وقت تک ہم اپنی منزل یعنی طبقاتی نظامِ تعلیم کے خاتمہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ آپ خود سوچیں، کیا یہ ممکن ہے کہ امیر اور غریب کے لیے علیحدہ سکول، کالج، یونیورسٹی، علیحدہ نصاب، علیحدہ سہولیات، علیحدہ زبان، علیحدہ ریاستی پالیسی، علیحدہ روزگار، ہر سطح پر، ہر جگہ پرعلیحدہ مواقع کے غلامانہ نظام کا خاتمہ، آپ بغیرغریب کے، یعنی بغیرمحنت کش طبقہ کے ساتھ جڑے ہوئے، بغیر اس کی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیے ہوئے کیا آپ اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں؟ اسی طرح ایک ایسے سماج میں جہاں ایک طرف یا توبم دھماکوں میں یا مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں آئے روز بلوچ طلباء کا ریاستی سرپرستی میں قتل عام جاری ہو وہاں آپ بلوچ قوم (اورمجموعی طور پر دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ) یکجہتی کیے بغیرطلباء کے یا محنت کشوں کے اتحاد کو ممکن بنا سکتے ہیں؟ یا سرائیکی قوم کی منفرد زبان، ثقافت اور شناخت تسلیم کیے بغیر آپ انہیں ساتھ جوڑ سکتے ہیں؟
یاد رہے کہ جہاں سماج کو سمجھنا اک سائنس ہے، وہاں سماج کو تبدیل کرنا اک فن ہے۔ ہمارے سماج میں آج کی طلبہ تحریک جس نہج پر کھڑی ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے اندر طلبہ سیاست پر دہائیوں سے پابندی عائد ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج طلبہ کیلئے خاص طور پر وسطی پنجاب کے تعلیمی اداروں میں سیاست کا لفظ ایک گالی بن چکا ہے۔ (یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ملک میں طلبہ کا سیاسی رجحان یکساں نہیں ہے۔ مثلاً سندھ، بلوچستان، وسیب اورگلگت بلتستان میں بہرحال طلبہ میں مزاحمتی سیاسی سرگرمی نظر آتی ہے۔ وہاں ساتھ میں یہ بھی کہنا شائدغلط نہ ہوگا کہ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام اور بالخصوص اس کا انتخابی پارلیمانی نظام اربوں کروڑوں روپے کے مالک اشرافیہ کے کنٹرول اور پیسے کے عمل دخل کے مزید بڑھنے کی وجہ سے مزید عوام دشمن بن گیا ہے اور طلبہ جیسے عام سماجی گروہوں کے لیے جھنڈا ہلانے یا ووٹ ڈالنے کے علاوہ سیاست میں حصہ لینے کی گنجائش گھٹی ہے)۔
ہم ایسے دور میں رہتے ہیں، جس میں موجودہ معاشی سیاسی سماجی نظام کے مقابلہ میں کوئی متبادل تصور نہیں۔ (ہاں دیگر مذہبی بنیاد پرست تنظیمیں موجود ہیں، لیکن وہ بھی کوئی ٹھوس متبادل نظام پیش نہیں کرتیں بلکہ اپنی تنقید کو محض امریکہ دشمنی پر مرکوز کرتی ہیں اورماضی کے تجربات سے سیکھنے کی بجائے آج کے دور میں انہیں دہرانے کی بات کرتی ہیں، جسے ایک ترقی پسند متبادل تصور نہیں کہا جا سکتا)۔ یہ ہماری تنظیم کا کام ہے کہ آج کے دور میں موجودہ حاوی نظام کے مقابلہ میں ایک متبادل ترقی پسند نظام کا تصور اپنی طلبہ برادری میں متعارف کرنا اور اس کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز کرنا۔ اس متبادل نظام کی شکل و صورت کیا ہوگی؟ ہمیں اس متبادل نظام کو لانے کیلئے کیسی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی؟ جس ماحول میں طلبہ سیاست کو گالی سمجھتے ہوں وہاں اپنے پیغام کواپنی تنظیم کو کیسے پھیلایا جائے؟ ان سوالوں کے جواب کسی کتاب میں پہلے سے طے شدہ فارمولے کی صورت میں موجود نہیں ہیں۔ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب ہماری نسل کو اپنے عمل، تجربہ اور علم کے ذریعے تلاش کرنے ہوں گے۔ جوکہ بغیر ماضی کے تجربات سے سیکھے ہوئے، بغیر دنیا کے مختلف خطوں (اور اپنے ہی ملک کے دیگر حصوں) میں سماجی تبدیلیوں اور محنت کشوں کی جدوجہد کی تاریخ سے واقفیت بڑھائے ہوئے ممکن نہیں۔
ہمیں نہ توعقیدہ پرست ہونا چاہئیے اور نہ ہی عمل پرست۔ ہم اگراس شمارے میں مزدور تحریکوں کے بارے میں مضامین شائع کر رہے ہیں یا ہر سال یومِ مئی مناتے ہیں تو کسی عقیدت مندی یا اندھی روایت کے تحت نہیں بلکہ اپنے عمل کو سنوارنے کیلئے ہی کررہے ہیں۔ اس ظالم منافع خور نظامِ تعلیم میں جکڑے ہوئے لاکھوں طلباء کے مسائل کے حل تلاش کرنے میں مدد لینے کیلئے کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ہمارے عمل کا مقصد محض طلبہ کیلئے مراعات حاصل کرنا یا ہمارے اپنے شعبہ سے متعلق دشواریوں کو دور کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے تجربات کے ذریعہ ایسا علم پیدا کرنا ہے جو کہ ہمیں اپنی منزل تک یعنی ایک غیر طبقاتی سماج تک پہنچنے کے سفرمیں مدد دے سکے۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل ۲۰۱۳ء میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے میگزین “طالبِ علم” میں شائع ہو چکا ہے۔