تیری برائیوں کو ہر ” اخبار” کہتا ہے
اور تو میرے گاؤں کو ” گوار ” کہتا ہے
اے شہر مجھے تیری اوقات پتا ہے
تو چلو بھر پانی کو بھی” واٹر پارک” کہتا ہے
تھک گیا ہے ہر شخص کام کرتے کرتے
تو اسے امیری کا ” بازار” کہتا ہے
گاؤں چلو وقت ہی وقت ہے سب کے پاس
تیری ساری فرصت تو تیرا” اتوار” کہتا ہے
خوش ہو کر فون پر رشتے نبھائے جاتے ہے
تو اس مشینی دور کو ” پریوار ” کہتا ہے
جن کی خدمات میں کھپا دیتے تھے زندگی ساری
تو ان ماں باپ کو اب اپنا ” بار ” (بوجھ ) کہتا ہے
وہ ملنے آتے تھے تو کلیجہ ساتھ لاتے تھے
تو دستور نبھانے کو” رشتے دار” کہتا ہے
بڑے بڑے مسئلے حل کرتی تھی پنچیاتے
تو یہاں کے اندھے قانون کو” دربار ” کہتا ہے
بیٹھ جاتے تھے سب اپنے پرائے ” بیل گاڑی ” میں
پورا گھر بھی نہ بیٹھ سکے اسے تو ” کار ” کہتا ہے
اب تو بچے بھی بڑوں کا ادب بھول بیٹھے ہیں
تو اسے نئے دور کا ” سنسکار (تہذیب )” کہتا ہے