سوشلزم کیوں؟

البرٹ آئن سٹائن

کیا یہ مناسب ہے کہ اقتصادی اور سماجی معاملات کے ماہر نہ ہونے کے باوجود آدمی سوشلزم پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جائز ہے۔

 پہلے اس سوال کو ہم سائنسی علم کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ماضی کے اکثر و بیشتر طاقتور ممالک دیگر ممالک کی فتح پرمشتمل تھے۔ فاتح قوم نے معاشی اور قانونی طور پر ان فتح کئے ہوئے ممالک میں سب سے بالادست طبقے کی حیثیت اختیار کر لی۔ انہوں نے زمین کی ملکیت پر مکمل قبضہ کر لیا اور مذہبی طور پر اپنے آپ کو بالاتر قرار دیتے ہوئے معاشرے میں بھی انہیں ہی کا قبضہ تھا، اور انہوں نے طبقاتی تقسیم کو مستقل بنایا۔ جو اقدار انہوں نے معاشرے پر مسلط کئے وہ سماج میں مروج ہو گئے۔

 یہ ماضی کی حقیقت ضرور تھی لیکن ایک بہت اہم حوالے سے ہم آج بھی ماضی سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہیں ۔ سماجی ارتقاء اب تک شکار خوری کے طرز پر ہو رہا ہے۔ ہمارے سامنے تمام کے تمام معاشی حقائق، اُصول قوانین، وغیرہ اس دور کے ہیں جس میں ایک طبقہ دوسرے طبقے کا شکار کرتا ہے۔ یہ قوانین اور اصول سوشلسٹ معاشرے میں بالکل بے کار ہوں گے کیونکہ سوشلزم کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس شکارخوری کو ختم کر کے آگے بڑھا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سوشلزم ایک اخلاقی مقصد کے حصول کے لئے سرگرم ہے۔ سائنس مقاصد نہیں متعین کر سکتی، وہ صرف مقاصد کے حصول کے لئے ذرائع فراہم کرسکتی ہے۔ یہ مقاصد وہ لوگ معین کر تے ہیں جو ایک بہتر معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔

ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سائنس اور سائنسی طریقے کی اہمیت کو زیادہ ترجیح  نہیں دینی چاہیے جب ہم انسانی مسائل پر غور کررہے ہوں ۔ اور ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ صرف ماہرین ہی اس موضوع پر رائے کا اختیار کر سکتے ہیں۔ بہت سارے لوگ کچھ عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انسانی سماج ایک شدید بحران سے دوچار ہے اور کہ وہ مستحکم نہیں رہا۔ اس صورت حال کی خصوصیت ہے کے افراد اپنے معاشرے سے لاتعلقی اورنفرت پر اتر آتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہے ہوں تاکہ میرا مطلب واضح ہو۔ چند دن پہلے میں ایک باشعور آدمی سے جنگ کے خطرات پر گفتگو کر رہا تھا جو میرے خیال کے مطابق، انسانی وجود کوخطرے میں ڈال سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ صرف ایک عالی تنظیم ہمیں اس خطرے سے بچا سکتی ہے۔ یہ سن کر میرے مہمان نے بڑے ٹھنڈے دل سے کہا کہ “آپ کو انسان کے مفقود ہو جانے پر اتنا اعتراض کیوں ہے؟“۔ مجھے یقین ہے کہ ایک صدی پہلے کوئی آدمی اتنے سکون سے اس طرح کی بات نہ کر سکتا۔ یہ وہ بات ہے جو ایک ایسے آدمی کے اندر سے آئی جس نے اپنے اندر جنگ لڑی ہے اور اب یہ توقع کھو بیٹا ہے کہ کبھی بھی یہ جنگ جیتے۔ یہ ایک تکلیف دہ تنہائی اور بےگانگی کی نشانی ہے جو آج کے بہت سے لوگوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سے نپٹنے کا کوئی طریقہ بھی ہے؟

 اس طرح کے سوال اٹھاتا تو آسان ہے لیکن جواب بہت مشکل سے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ میری یہ ضرورت ہے کہ میں یہ جواب ڈھونڈنے کی کوشش تو کروں چاہے میں راستے ہی میں کیوں نہ رہ جاؤں۔

 انسان بیک وقت تنہائی پسند اور گروہ پسند جانور ہے۔ تنہائی پسند ہوتے ہوئے وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے مفاد اور وجود کا تحفظ کرتا ہے، اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے اور اپنی ذاتی خواہشات پوری کرتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف سماجی جانور ہوتے ہوئے وہ اور انسانوں کی عزت اور محبت چاہتا ہے، ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتا ہے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دو وجود ایک تنہائی پسند اور دوسرا گروہ پسند اکثر آپس میں متضاد ہوتے ہیں اور یہی تضاد ہے جو انسان کی خصوصیت ہے۔

ان دو کیفیتوں کا انسان کی شخصیت میں توازن أس معاشرے میں خوشحالی پیدا کرنے کی صلاحیت کی بنیاد ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ یہ توازن پیدائشی طور پر مقرر ہو۔ لیکن جو شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ معاشرتی ماحول، ڈھانچے، اس کے مروّج اقدار اور رسم و رواج کی پیداوار ہوتی ہے۔ فرد اکیلے میں سوچ ضرور سکتا ہے جذبات محسوس کر سکتا ہے کام کر سکتا ہے لیکن اس کو معاشرے سے الگ کر کے سمجھا نہیں جا سکتا۔ اس کا معاشرہ ہی ہے جو اسے کھانا، کپڑے، گھر، کام کے اوزار، زبان، سوچنے کے طریقے وغیرہ فراہم کرتا ہے ۔ فرد کی زندگی اس شکل میں اس لیے ممکن ہوتی ہے کیونکہ اربوں انسانوں کی کوششوں پر مشتمل ہے۔ یہ ساری کوششوں اور ان کے نتیجے “معاشرے” کے چھوٹے سے لفظ میں چھپے ہوئے ہیں۔

 اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کا اپنے معاشرے پر انحصار ایک قدرتی عمل ہے جس کو ہم ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ چیونٹیوں اور دیگر جانوروں میں بھی یہ انحصاری پائی جاتی ہے۔ لیکن انسان اور جانور میں فرق یہ ہے کہ چیونٹی جیسے جانور کی زندگی کا عمل مکمل طور پر موارثی حوالے سے مقرر ہوتا ہے انسان کے آپس کے رشتے اور سماجی تعلقات تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ ہماری یاداشت زبان اور شعوری صلاحیت نے انسان میں ایسی تبدیلیاں لائی ہیں جو حیاتیاتی طور پر انسان کی مجبوری نہ تھی۔ یہ تبدیلیاں یا ارتقاء ہمارے رسم ورواج، اداروں، ادب، سائنسی ایجادات، موسیقی وغیرہ میں واضح ہوتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی بناوٹ میں دو پہلو ہوتے ہیں ایک جو قدرتی طور پر مقرر ہوتا ہے اور ساکن ہوتا ہے جبکہ دوسرا سماج مقرر کرتا ہے اور یہ بدلتا رہتا ہے۔ انسان اور سماج کا آپس میں جدلیاتی رشتہ ہے۔ جدید ینتھروپالوجی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانی سوچ، رویے، حرکتیں وغیرہ تاریخ کے مختلف ادوار سے گذرتے گذرتے بہت تبدیل ہوئی ہیں ۔ ہم جو ایک بہتر دنیا کے خواہش مند ہیں اس بات سے حوصلہ لیتے ہیں کہ انسانی فطرت میں قتل وغارت اور دوسروں کا استحصال نہیں ہے۔

 اگر ہم اس پر غور کریں کہ سماجی ڈھانچہ اور انسانی روپے کیسے تبدیل کیے جائیں تو ہمیں یہ ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ کچھ ایسے حالات ہیں جن کو ہم بدل نہیں سکتے۔ پچھلی چند صدیوں کی تکنیکی ایجادات اور آبادی میں اضافے واپس نہیں لیے جا سکتے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں جہاں آبادی بہت زیادہ ہے وہاں محنت کے مختلف عوامل کی تقسیم اور پیداواری نظام میں مرکزیت کے بغیر گزارا نہیں۔ وہ وقت ختم ہو گیا ہے جب چھوٹے چھوٹے گروہ خودفیل ہو سکتے تھے۔ آج یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پوری دنیا ایک ہی جال میں لپٹی ہوئی ہے۔

 اب میں اس بحران کی طرف آتا ہوں جو آج کے نظام کا سب سے خطرناک بحران ہے اور وہ فرد اور معاشرے کے رشتے کا ہے۔ فرد اپنے معاشرے پر انحصار کو اب اچھی طرح سے پہچانتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بجائے اس رشتے سے تسلی حاصل کرنے کے یا تحفظ محسوس کرنے کے وہ اسے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے جو اس کے حقوق اور معاشی اور سماجی وجود کو مقید کرنے میں مصروف ہے۔ اس سماج میں فرد کی حیثیت کچھ ایسی ہے کہ وہ اس کی انا اور خودپسندی اجاگر کرتی ہے، نہ کہ اس کی (رواداری) بر فرد اس کا سماج میں کچھ بھی کردار یا حثیت ہو اس مرض میں مبتلا ہے۔ و اکثر اکیلے پن کا شکار ہوتا ہے اور زندگی کی خوشیوں سے محروم رہتا ہے۔ اس کا سکون اسی میں ہے کہ وہ معاشرے کی خدمت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض کی جڑ سرمایہ داری نظام میں پائی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسی صورتحال ہے جس میں انسان دوسرے انسانوں سے اپنی اجتماعی محنت کے پھل چھیننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ کوشش طاقت کے بل بوتے پر ہی نہیں ہو رہی بلکہ مکمل طور پر قانونی طریقے سے کی جارہی ہے۔ یہاں پر یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ دنیا کے تمام پیداواری ذرائع قانونی طور پر مٹھی بھر  افراد کی ملکیت ہو سکتے ہیں اور ہیں بھی۔

 پیداواری ذرائع کا مالک مزدور کی محنت خریدتا ہے۔ مزدور سے ہماری مراد ہے وہ آدمی جس کا ان ذرائع کی ملکیت میں کوئی حصہ نہیں۔ ان ذرائع کو کام میں لا کر ان پر محنت کر کے، مزدور نیا مال بناتا ہے جو مالک کی ملکیت بن جاتا ہے۔ اس عمل میں غور کرنے کا نقطہ یہ ہے کہ مزدور کی اجرت اس کی بنائی ہوئی اشیاء سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ اس کی کم از کم جسمانی ضرورت اور مزدوروں کی دستیابی پر مبنی  ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تھیوری میں بھی مزدور کی تنخواہ یا اس کی محنت کی اجرت اس کی بنائی ہوئی چیز کی قدرو قیمت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔

 سرمایہ داروں کا آپس میں مقابلہ اور جدید تکنیکی ایجادات کی وجہ سے سرمایہ کم از کم ہاتھوں میں جمع ہوتا جا رہا ہے۔ تکنیکی ایجادات اس طرح کے ہو رہی ہیں کہ وہ چھوٹے یونٹس کی بجائے بڑے یونٹس کو فروغ دے رہے ہیں اور محنت کی تقسیم کو اور زیادہ بڑھا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ سرمائے کی چند سری حکومت ہے جس کو ایک جمہوری طرز پر ڈھالا ہوا سماج بھی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یہ اس لیے حقیقت ہے کیونکہ قانون سازی کے اداروں کے ممبران سیاسی پارٹیاں چنتی ہیں اور یہ سیاسی پارٹیاں سرمایہ داروں کے اثر میں ہوتی ہیں چاہے مالی امداد کی بناء پر یا اور حوالے سے۔ قانون سازی کرنے والوں میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے نمائندے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اور پھر سرمایہ داروں کا ذرائع ابلاغ پر بھی قبضہ ہوتا ہے اور عام آدمی کے لیے یہ تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی حقوق کو عمل میں لاکر باشعور انداز میں اپنے سماج پر اثر انداز ہو۔

 لہٰذا سرمایہ داری نظام دو اصولوں پر قائم ہے ایک تو یہ کہ ذرائع پیداوار (یعنی سرمایہ) نجی ملکیت ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ محنت کی اجرت کم از کم ہوتی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ دنیا میں کہیں بھی 100 فیصد خالص سرمایہ داری نہیں ہوتی۔ ہمیں ان مزدوروں کی جدوجہد نہیں بھولنی چاہیے جنہوں نے لمبی اور انتہائی مشکل لڑائی کے بعد مزدور طبقے کے لیے مراعات حاصل کیں، لیکن بہت حد تک ان کی سرمایہ داری خالص سرمایہ داری سے فرق نہیں۔ آج پیداواری عمل کا مقصد منافع کمانا ہے، ضرورت کی چیزیں پیدا کرنا نہیں۔ بے روزگاری ہر طرف چھائی ہوئی ہے کیونکہ لوگوں کے پیداواری عمل میں شامل ہونے سے مالکوں کی اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اور کیونکہ غریب عوام کی قوت خرید کم ہے اور ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ خرید خرید کر مالکان کے منافع میں اضافہ کریں گے۔ اس لیے ان کی ضرورت کی چیزیں بھی کم بنائی جاتی ہیں۔ تکنیکی ترقی عوام کو فائدہ پہنچانے کی بجائے بے روزگاری میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے آپس میں مقابلے کی وجہ سے بہت سے وسائل ضائع جاتے ہیں اور انسانیت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔

 انسانیت کی سیاہی سرمایہ داری کا سب سے بڑا جرم ہے۔ ہمارا پورا نظام بمعہ تعلیمی نظام اس تباہ کاری کے سبب طالب علم میں شروع سے سخت مقابلے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور یہ سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ کر ہی، ان کو فتح کرکے ہی کامیابی پائی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان خوفناک رویوں کا حل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ نظام کے قیام سے ہوسکتا ہے۔ اس نظام میں تعلیم سماجی بھلائی کے مقاصد کو پورا کرے گی۔ ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں گے اور منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیے جائیں گے۔ اس نظام میں سارا کام معاشرے کے افراد کے درمیان بانٹا جائے گا اور ہر آدمی عورت اور بچے کا حقِ روزگار پورا کیا جائے گا۔ اس سوشلسٹ سماج میں تعلیم ہر انسان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے علاوہ اس میں دوسروں کے لیے محبت اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرے گی، نا کہ طاقت کی حمد و ثنا۔

 لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک منصوبہ ساز معیشت حقیقی معنوں میں سوشلسٹ ہو۔ یہ ہوسکتاہے کہ ایک منصوبے کے تحت چلنے والی معیشت میں فرد کی آزادی ختم کر دی جائے اور وہ غلامی کی کیفیت میں جیئے۔ سوشلزم تک پہنچنے کے لیے کچھ انتہائی مشکل سوالات کے جوابات ڈھونڈھنے ہوں گے۔ مثلاً ایک منصوبہ بندی کی بنیاد پہ چلنے والی معیشت میں جہاں مرکزیت ضروری ہے، یہ کیسے ممکن ہوگا کہ بیورو کریسی کی طاقت کو کنٹرول میں رکھا جائے؟ فرد کی آزادی فکر وزباں اور اس کے حقوق کا کس طرح سے تحفظ کیا جائے؟ بیوروکریسی کے خلاف کون سی جمہوری قوت ہوگی جو معاشرے میں طاقت کا توازن برقرار رکھے گی؟

 سوشلزم کے مقاصد اور ان کو پانے میں پیش کردہ مسائل پر آج غور کرنا بہت ضروری ہے۔

نوٹ: ترجمہ آشا امیر علی
یہ مضمون اس سے پہلے عوامی مزاحمت میں شائع ہو چکا ہے۔

Spread the love

Leave a Reply