عالیہ امیرعلی
سیاست کا لفظ سن کر ہی ہم میں سے زیادہ تر عورتیں جھنجھلا سی جاتی ہیں۔ “میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں” یا پھر ” مجھے سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں جیسے جملے ہم میں سے کئیوں نے ادا کیے ہوں گے۔ ۔ یہ بات ایک لحاظ سے سمجھ میں بھی آتی ہے۔ آخر سیاست کے لفظ سے ہمارے ذہن میں جو تصور ابھرتا ہے وہ کچھ زیادہ خوشگوار تو نہیں ۔ “میرے ساتھ سیاست نہ کرو “اب ایک عام فقرہ بن چکا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست کو دھوکا فراڈ، ہیر پھیر اور دونمبری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ سیاست ایک ایسا عمل سمجھا جاتا ہے جس سے ایک فرد دوسروں کو اپنے ذاتی فائدہ کیلئے استعمال کرے۔
سیاست کے اس تصور کو ابھارنے میں ٹی وی کا بڑا کردار ہے۔ ہم ٹی وی پر سیاستدان اور ان کے کرتوت دیکھ دیکھ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ سیاست صرف سیاستدان ہی کرتے ہیں اور جو کچھ سیاستدان کرتے ہیں وہ سیاست ہے۔ اور بھلا چند ایک عورتوں اور وہ بھی ٹھیک ٹھاک گھرانوں سے تعلق رکھنے والی کے علاوہ اس عمل میں عورت ہے ہی کہاں؟ اتنے سارے مردوں میں، اور وہ بھی بڑی ذات، بڑے کاروبار، بڑی مونچھوں والے مردوں میں ہم عورتوں کےلیئے کہاں جگہ ہے؟ اور تو اور ہمارے بچارے مرد بھی سیاست میں بے حد دل چسپی رکھنے کے باوجود ٹاک شوز میں فلاں کے انکشافات اور فلاں کی قلابازیوں کا تبصرہ کرنے تک ہی محدود ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ الیکشن کے دنوں میں ایم این اے یا ایم پی اے کا امیدوار بننے والے بڑے آدمی کا چھوٹا، جو ہم سے تو بڑا ہی ہوتا بہرحال ہمارے مرد کے ساتھ کچھ ووٹ۔نوٹ کے معاملات طے کرنے آتا ہے۔ لیکن الیکشن کے فوراً بعد دوبارہ چار سال کی خاموشی چھا جاتی ہے۔ اور ایک بار پھر ہمارے مرد چائے کی پیالیاں تھامے ٹاک شوز کے تبصروں میں مگن ہوجاتے ہیں۔
تو پھر؟ کیا ہم عورتوں کا سیاست سے لاتعلق ہونا بجا نہیں ہے؟ بدقسمتی سے جواب ہے “نہیں”۔ کیونکہ ہم بےشک پارلیمان یا ایوانوں میں بیٹھنے والی ہستیاں تو نہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہاں بیٹھے ہوئے معتبر مرد حضرات ہمارے مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں ۔ روز مرہ کے آٹا چاول چینی کے بھاؤ سے لے کر قومی بجٹ، قرضے، بیرونی تعلقات اور پڑوس ممالک کے ساتھ امن یا جنگ کا فیصلہ کرنے تک؛ کتنا خرچ ہو گا تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی پر اور کتنا خرچ ہو گا ٹینک توپ اور بم پر۔ یعنی کہ وہ سارے فیصلے جو کہ ہماری زندگی کو سنوارنے یا بگاڑنے کی قوت رکھتے ہیں، چند معتبر حضرات کررہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ذاتی طور پر سیاست پسند ہو یا ناپسند، اس ماجرے پر غور کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق ہماری سب کی روزمرہ زندگی کے ساتھ ہے۔ یہ ہمارے مستقبل، ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ سیاست کشش ثقل (گریوٹی)کی طرح جو کہ ہمارے اردگرد ہمیشہ موجود رہتی ہے اور مستقل ہمارے اوپر اثر کر رہی ہوتی ہے چاہے ہمیں محسوس ہو یا نہ ہو۔
ابھی تک کی گفتگو سے شائد آپ کو یہ تاثر ملا ہو کہ سیاست سے مراد ایکشن لڑ کر قومی اسمبلی کا ممبر بنے کا نام ہے۔ یا پھر الیکشن کے دنوں میں ووٹ ڈالنے کا نام ہے۔ جن دنوں میں ان معتبر حضرات کو اچانک ہمارے شناختی کارڈ اور دیگر مسائل کو توجہ دینے کا خیال آ جاتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ الیکشن میں شرکت بطور امیدوار یا ووٹر ایک اہم فعل ہے، جس کے ذریعے ہم ملکی سطح کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سیاست، صرف ووٹ لینے اور دینے یا اس کے بعد قومی اسمبلی میں تقریریں کرنے تک محدود ہے۔ سیاست کوئی پیشہ نہیں، ٹی وی پر دن رات دکھائی جانے والی “پیشہ ورانہ سیاست” کے برعکس۔ نا ہی سیاست صرف سیاستدان کرتے ہیں۔
سیاست ایک عمل کا نام ہے۔ جس کا تعلق فیصلہ سازی سے ہے۔ چاہ وہ کہیں بھی ہو قومی اسمبلی میں، دفتروں میں، کارخانوں میں، سڑکوں پر یا گھروں میں ۔ سیاست ہر جگہ ہوتی ہے کیونکہ فیصلہ سازی ہر جگہ ہورہی ہے اور فیصلہ سازی کے اثرات ہر جگہ پڑتے ہیں ۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر جگہ ہم اس فیصلہ سازی کے عمل سے دور ہیں۔ اس کی کوئی قدرتی وجہ نہیں بلکہ ہمیں شعوری طور پر عرصه دراز سے فیصلہ سازی سے دور رکھا گیا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے سیاست عورت کا کام نہیں۔ عورت کمزور ہے۔ کم عقل ہے، جذباتی ہے، لہٰذا فیصلہ نہیں لے سکتی۔ فیصلہ ہوتا ہے ہماری زندگی کا لیکن کرتا کوئی اور ہے کہیں اور، ہم سے دور۔ چلو اگر فیصلے کرنے والے اپنی حد تک فیصلے کرتے اور اپنے فیصلوں کے خود ہی پابند ہوتے پھر بھی سمجھ آتی۔ لیکن باوجود اس کے کہ ہمیں فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا پھر بھی ان کے کیے ہوئے فیصلے ہمیں ماننے بھی پڑتے ہیں اور ہم ان فیصلوں کے پابند ہوجاتے ہیں جبکہ فیصلہ کرنے والے اکثر خود اپنے ہی کیے ہوئے فیصلوں کے پابند نہیں رہتے لیکن ہمیں ہر وقت فرماں برداری اور اخلاقیات کے سبق پڑھاتے رہتے ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ یا تو ہمیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے یا تو پر ہمارے بغیر کیے گئے فیصلے ہمارے اوپر تھوپے جائیں!
ملک اور حکومت کی سطح پر دیکھیں۔ امیر طبقہ جس میں سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، جرنیل، بیوروکریٹ سب شامل ہیں (عددی اعتبار سے یہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے۔ لیکن پیسے، بندوق، اور ریاستی اداروں تک رسائی کی وجہ سے ملک کی سیاست پر حاوی ہیں۔ اور کروڑ عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ البتہ سیاستدان عوام سے ووٹ لیتے تو ہیں لیکن الیکشن لڑتے بھی تو وہی ہیں۔ ہم تو صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک اس عمل میں شریک ہیں ۔ ووٹ لینے اور دینے والوں میں بھی تو ایک واضع طبقاتی تفریق ہے نہ آخر۔ ہمارے پاس بھی ان کی طرح کروڑوں روپے ہوتے تو پھر الیکشن کے نتائج یقینا بہت مختلف ہوتے۔
لیکن اسی لیے موجودہ نظام میں ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ ہر سال ملک کا فیصد بجٹ فوج کے اخراجات اور ترقی کے نام پر لیے جانے والے عوام دشمن قرضوں کی واپسی کی نظر ہو جاتا ہے۔ عربوں ڈالر کے قرضے لیں وہ، لیکن واپس کریں ہم؟ ہمیں تو آج تک پتہ ہی نہیں چلا کہ کون سے پیسے کہاں لگے، کدھر لگے، کتنے آئے، کتنے گئے؟ فوری اخراجات اور اساساجات آج تک قوی اسمبلی میں پیش نہیں ہوئے۔ لیکن قرضہ کے بوجھ تلے کچلے جانے والے ہم لوگ تو ہر ماچس کی تیلی تک پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اور وہ جن پر سب سے زیادہ خرچ کیے جاتے ہیں) اور جو کہ سب سے زیادہ کماتے بھی ہیں یعنی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور جرنیلوں پر عوام کے مقابلے میں انتہائی معمولی ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں۔ ہمارے طبقہ کی ضروریات پر یعنی تعلیم، صحت، بجلی، پانی، رہائش، روزگار، پبلک ٹرانسپورٹ جیسی ضروریات زندگی پر پانچ سے دس فیصد سے زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔ جتنے منصوبے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے نام پر بنائے جاتے ہیں وہ دراصل عوام کی ضروریات پوری کرنے سے زیادہ کاروبار اور سرمایہ لہٰذا سرمایہ داروں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بنائے جاتے ہیں ۔ جن کے نام پر ترقی ہورہی ہے انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ شائد ترقی کا خود بھی کوئی تصور رکھتے ہوں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق کے نام پر بڑے بڑے پراجیکٹ اور فلاحی منصوبے تیار کیے جاتے ہیں لیکن ہمیں اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ ہم اپنی ضروریات اور خواہشات کی نشاندہی خود کریں!
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے گھروں، خاندانوں، قبیلوں اور برادریوں میں ہے۔ خاندان اور برادری میں تمام اہم فیصلے بڑے کرتے ہیں یعنی مرد۔ عورت سے اگر رائے لی بھی جائے وہ مرد کی اپنی خوش نودی پر منحصر ہے۔ اس رائے کی اہمیت اور وزن کا تعین بھی مرد ہی کرے گا یعنی عورت کی حیثیت رائے دینے تک ہی ہے، فیصلہ مرد ہی لے گا۔ اگر شوہر اپنی بیوی کی مرضی کے مطابق فیصلہ لے بھی لے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کی حکمرانی ہے (جیسے اکثر مرد مذاق میں کہا کرتے ہیں)۔ کیونکہ بیوی کی بات ماننا نہ ماننا آخر مرد کا ہی اختیار ہے۔ شوہر کی بات ماننا نہ ماننا بیوی کا حق نہیں سمجھا جاتا بلکہ بیوی کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی بات مانے اور اس کا فیصلہ قبول کرے۔ اگر بیوی شوہر کی بات نہ مانے تو وہ بری عورت کہلاتی ہے۔ لیکن وہ شوہر جو کہ بیوی کی بات نہ مانے اسے نافرمان نہیں کہا جا تا۔ بلکہ بیوی کو صبر سے کام لینے اور اپنے شوہر کی ہر حال میں خدمت کرنے کا درس دیاجاتا ہے۔
فیصلہ سازی کی کچھ اور مثالیں لیتے ہیں۔ باضابطہ سرکاری عدالتی نظام کی جگہ آج بھی بیشتر فیصلے پنچائیت، جرگہ، اور فیصلو جیسی مقامی عدالتوں میں ہوتے ہیں ۔ ان اداروں میں بھی صرف مرد بیٹھتے ہیں حالانکہ بہت سے مسئلے اور فیصلے”زن، زر، زمین” کے گرد ہوتے ہیں۔ عزت اور غیرت کے نام پر جنگیں چھیڑ دی جاتی ہیں جنہیں ختم کرنے کیلئے پھر عورت کو ہی مویشی کی طرح بدلے یا صلح میں دے دیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ تمام مردوں کو بھی ان اداروں میں برابر حیثیت حاصل نہیں البتہ عورت سے تو زیادہ ہی ہے۔ فیصلہ سازی وہ ہی مرد کرتے ہیں جو کہ حثیت والے ہوں، یعنی ذات برادری اور معاشی لحاظ سے معتبر ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف عورت پر مرد کی بالادستی کا نہیں ہے بلکہ طبقه، ذات، قوم اور دیگر حوالوں سے طاقتور کی کمزور پر بالادستی کا سوال ہے۔
بہرحال عورت کی سماجی لہٰذا سیاسی حیثیت مردوں سے کچھ حوالوں سے منفرد ہے۔ ہمارے بھائی بھی شائد مکمل طور پر اپنی مرضی خاص طور پر باپ کی موجودگی میں نہیں چلا سکتے اور فیصلہ سازی میں ان کی رائے بھی باپ کے مقابلے میں فیصلہ کن نہ ہو لیکن انہیں کئی ایسی آزادیاں میسر ہیں جو کہ ہمیں میسر نہیں۔ ہماری ذات کے فیصلے، آئے روز گھر کے مرد (باپ، شوہر بھائی یا بیٹے کی صورت میں) کرتے ہیں: شادی بیاہ کے فیصلے، پردہ کرنے نہ کرنے ، ووٹ ڈالنے نہ ڈالنے، گھر سے باہر نکلے نہ نکلنے تعلیم حاصل کرنے نہ کرنے، نوکری کرنے نہ کرنے جیسے فیصلوں میں ہم میں سے بیشتر عورتیں خودمختار نہیں۔ گھر سے باہر نکلو تو اجازت لو، فون پر بات کرنی ہے تو اجازت لو، کوئی خاص لباس پہننا ہے تو اجازت لو، اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ یونیورٹی ٹرپ پر جانا ہے تو اجازت لو۔ ہر چیز جو ہماری ہے اسے استعمال کرنے سے پہلے اجازت لو۔ مطلب یہ کہ کوئی دوسرا جب مرضی چاہے ہمارے معاملات میں دخل دے سکتا ہے یا سکتی ہے، تحقیق کرسکتا ہے، ناخوش ہونے پر سزادے سکتا ہے۔
بات سادی سی ہے بہنو! ہم پوری زندگی ہر طرح کی محنت اور خدمت کرتی رہی ہیں۔ کہیں گھر کے اندر کہیں گھر سے باہر کہیں ماں باپ ساس سسر شوہر اور بچوں کی، کہیں کسی ٹھیکہ دار، مالک، بیگم، مینجر یا باس کی۔ کیا ہمارا حق نہیں بنتا کہ ہماری محنت سے چلنے والے گھر، ہماری محنت سے پلنے والے بچوں، ہماری محنت سے اگنے والی فصلوں، ہماری محنت سے چلنے والے اداروں، ہماری محنت سے چلنے والے اس ملک کی فیصلہ سازی میں ہمیں بھی شریک کیا جائے؟ باقی سب چھوڑیں، کیا ہم اپنی ذات پر، اپنے جسم پر اپنے اظہار پر اپنے لباس، اپنے آنے جانے اٹھنے بیٹھنے لکھنے پڑھنے مرنے جیسے معلاملات میں فیصلہ لینے کے حقدار نہیں ہیں؟
سیاست سے دور رہنے کا مطلب خودکشی ہے۔ ہم سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اپنی غلامی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ اور ایک شتر مرغ کی طرح خطرہ کو دیکھ کر اپنا چہرہ ریت میں دبارہے ہیں۔ اسے نہ صبر، نہ دلیری، نہ تابعداری، نہ فرماں برداری کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ شتر مرغ اپنی آنکھیں ریت میں دبا کر نہ خطرہ سے مقابلہ کر رہا ہے اور نہ ہی خطرہ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے خودکشی یا پھر بیوقوفی! کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
ہمیں زندہ رہنا ہے تو سیاست کرنی ہوگی۔ حکمرانوں والی سیاست ہیں جو وہ محض اپنے ذاتی مفاد کیلئے کرتے ہیں۔ ہم اجتماعیت کی بنیاد پر اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے دکھ درد کو پہچانتے ہوئے، ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے ایک طاقت بننا چاہتے ہیں جس کا مقصد ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی آزادی خوشحالی اور انسانیت کی بحالی ہے۔ ہماری خوشی کسی اور پر حاوی ہونے سے نہیں آتی۔ ہم خودمختاری چاہتے ہیں، غلام نہیں انسان بننا چاہتے ہیں، سب کے ساتھ مل جل کر پیار محبت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر جینا چاہتے ہیں۔ آئیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں اور سیاسی عمل میں اپنا پہلا قدم رکھیں!
یہ مضمون مورخه 12 فروری 2017 کو فیصل آباد کے مقام پر عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کی جانب سے منعقد ہونے والے عورتوں کے تربیتی سکول میں پڑھا گیا جو کہ قارئین کی خدمت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کو عوامی مذاحمت کے شمارہ ۸، جلد نو میں بھی شائع کیا جا چکا ہے۔
آرٹ ورک: فرانسیسی انقلاب کے موقع پہ جشن مناتی ہوئی خواتین۔ تصویر ہسٹری داٹ کام