ترقیاتی منصوبے اور جبری بے دخلیاں

رپورٹ

ٹینتھ ایوینیو روڈ منصوبے کی آڑ میں سیکٹر ایچ نائن کی رمشا کالونی کچی آبادی کے مکینوں کی بےدخلی کسی بھی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ سی ڈی اے، اسلام آباد انتظامیہ اور وفاقی حکومت، بیس ہزار محنت کشوں کی آبادی کے مستقبل بارے کوئی بھی فیصلہ لوگوں کی شمولیت کے بغیر نہ کرے۔ غریب عوام کو پانچ لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والی حکومت کم ازکم موجود کچی آبادیوں کو تحفظ فراہم کرے۔ عوامی ورکرز پارٹی

وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر ایچ نائن میں واقع مسیحی کچی آبادی، رمشا کالونی کے سینکڑوں مکین ایک بار پھر پرامن احتجاج کے لیے جمع ہوئے اور کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے حقِ رہائش کی ضمانت کے ساتھ ساتھ اس بات کا مطالبہ کیا کہ انھیں یقین دہانی کرائی جائے کہ آبادی کے بیس ہزار رہائشی، ٹینتھ ایوینیو کی تعمیر سے بری طرح متاثر نہیں ہوں گے۔ 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے قریب قریب منعقد ہونے والے اس اجلاس میں اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ پاکستان میں محنت کش طبقے کے عیسائیوں کے ساتھ اب بھی دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عوامی وکررز پارٹی کی رہنما عالیہ امیرعلی نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (ای پی اے) اور سی ڈی اے، دونوں نے فروری میں جناح کنونشن سینٹر میں منعقدہ عوامی سماعت کے دوران رمشا کالونی کے رہائشیوں سے اس منصوبے کے بارے میں مشاورت کرنے کے زبانی وعدے کیے تھے، لیکن اس پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہو سکا اور حکام کی طرف سے آبادی کے مکینوں سے آج تک کوئی باضابطہ رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمشا کالونی میں گھرانوں کی تعداد کی تصدیق کے لیے سروے کرانے کا سب سے بنیادی کام بھی ابھی تک شروع نہیں کیا گیا اور اس سے بستی کے مکینوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے عمار رشید نے کہا کہ 2015ء میں اے ڈبلیو پی کے اپنے تاریخی سپریم کورٹ کیس میں رہائش کو تمام پاکستانی شہریوں کے آئینی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اور حکام رمشا کالونی کے ہر ایک رہائشی کے حقوق کو برقرار رکھنے کے پابند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی شہریت کا کوئی معنی خیز تصور نہیں کیا جا سکتا جب وفاقی دارالحکومت کی تعمیر، صفائی اور نگہداشت رکھنے والے مسیحی کارکنوں کے حقوق کی پامالی کرتے ہوئےسڑک کی تعمیر کی جائے۔

اے ڈبلیو پی کے عاصم سجاد نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسلام آباد اس وقت سیاست کا گڑھ ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی متحرک ہیں لیکن کسی بھی فریق نے رمشا کالونی یا عام طور پر محنت کش عوام کے مسائل پر آواز نہیں اٹھائی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بے روزگاری اپنی بلند ترین سطح پر ہے لیکن نعرے بازی سے آگے حکمران طبقے کی کسی بھی جماعت کے پاس ایسا پروگرام نہیں ہے جو محنت کش طبقات کے حقیقی مسائل کو حل کرے۔ عاصم سجاد نے کہا کہ جیسے جیسے بڑی سیاسی جماعتیں محض ’طاقت کے مظاہرے‘ اور ’لانگ مارچ‘ کر کے اسلام آباد کو بند کرواتی ہیں، اسلام آباد کے مسیحی محنت کش طبقے کے باشندے صرف انہی سیاسی قوتوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو حقیقتاً ان کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہیں۔

مقامی رہائشیوں  بشمول بابر مسیح، پادری عمران، پادری وارث اور ثمینہ ممتاز سمیت دیگر نے کہا کہ آبادی کے رہائشی اور حامی باہمی طور پر مفید نتائج کے لیے سی ڈی اے اور وفاقی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں تاکہ ٹینتھ ایونیو منصوبہ آگے بڑھے اور رمشا کالونی کے مکینوں کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت میں کھوکھلے وعدوں پہ یقین نہیں کیا جائے گا۔

اجلاس کا اختتام اس عزم پہ ہوا کہ رمشا کالونی کے محفوظ مستقبل کے بارے میں حکام کی طرف سے فیصلہ ملنے تک پرامن طریقے سے مطالبہ جاری رکھا جائے گا۔ رہائشیوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد رہنے کا وعدہ کیا اور تمام ترقی پسند اور جمہوری قوتوں سے اپیل کی کہ وہ اس مقصد کے لئے ان کی آواز بنیں۔

کور: ۸ مارچ ۲۰۲۲ کو جی سکس اسلام آباد میں تیس برس سے قائم کچی آبادی گرانے کا منظر

Spread the love

Leave a Reply