قید خانہ

پروفیسر کلام اشعر

جبر و قہر کے بے انت سلسلے
گھٹا ٹوپ اندھیرا، نہ کوئی روشنی نہ کرن
سکوت و جمود نزاع کوئی خواہش نہ کوئی لگن
کہ جیسے بند ہو گئی وہ حیات، صدیوں پرانے غاروں میں
کوچے، گلیاں، سڑکیں ویران
نہ قہقہے نہ تبسم نہ حکایات و شکایات
ہر لب کہ لب گریزاں
ہر ذہن کہ ذہن پریشاں
دیس ہے کہ کوئی اذیت خانہ
چمن و بیاباں و کوہِ دامن میں زندگی مفقود
چرند سر نیوڑھائے ہوئے، طیور کی بے ربط نغمہ گری
صبا لرزاں، مجو جستجوئے راہِ حیات
راحتِ جاں کی تلاش
وطن ہے کہ کوئی قید خانہ
مگر شب ہائے سیہ کے اسیرو، نہ گھبراؤ
ابھی اجالوں کے نقیب باقی ہیں
پھر کھلے گا درِ زندان وطن ایسا
کہ زمام اقتدار لرزہ بر اندام ہو گا
موت ان کا مقدر ہو گی
اور ہمارا مقدر نئی سحر ہو گی

نوٹ: یہ نظم اس سے قبل عوام مزاحمت کی جلد ۶ شمارہ ۱۲ میں ۲۰۱۱ میں شائع ہو چکی ہے۔
آرٹ ورک: پنک فلوئیڈ دا وال

Spread the love

Leave a Reply