حصہ اول۔ کتاب تبصرہ
ذیل میں علی رضا کی کتاب پر عاصم سجاد اختر کے تبصرے کا اردو ترجمہ درج کیا گیا ہے۔
چالیس سال قبل، سب آلٹرن سٹڈیز کی علمی سنگت نے مباحث کا ایک سلسلہ شروع کیا جس نے برصغیر پاک و ہند میں نوآبادیاتی تاریخ نوئسی کو ناقابل یقین حد تک تبدیل کر دیا۔ رناجیت گوہا کے جوشیلے مضمون، ’انسداد بغاوت کا متن (دا پروز آف کاؤنٹر انسرجینسی)‘ کو پڑھنا معمول کے خلاف جانے اور گویا (ریاست کی) تاریخ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ برطانوی ہند اور بعد از نوآبادیاتی برصغیر کے لاتعداد مورخین نے، نوآبادیاتی تاریخی ریکارڈ اور ریاستی قوم پرست ماسٹر بیانیوں پر، تنقیدی تحقیق کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
علی رضا ان مٹھی بھر پاکستانی مورخین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس بھرپور اور متنوع موضوع میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ محفوظ شدہ دستاویزی ذرائع کے ایک وسیع ذخیرے پر مبنی، ان کی تفصیلی کتاب،گزشتہ انقلابات: نوآبادیاتی ہند میں کمیونسٹ بین الاقوامیت، جو کیمبرج یونیورسٹی پریس (۲۰۲۰) نے شائع کی ہے، برطانوی ہند سے دنیا کے دیگر کونوں تک پنجابی کمیونسٹوں اور نوآبادیات مخالف آزادی پسندوں کی زندگیوں اور ان کی سفری داستانوں کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ انقلابی بین الاقوامیت کی یہ شاندار کہانی بیک وقت، ہندوستانی سماج کی طبقاتی، ثقافتی اور سیاسی ساخت کے ساتھ ساتھ (برطانوی) راج کی آخری دہائیوں کی نوآبادیاتی ریاستی ضرورتوں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستانی علماء نے اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کے مقابلے میں بائیں بازو کی سوچ اور سیاست کی اکا دکا تاریخیں پیش کی ہیں۔ گزشتہ انقلابات، کامران اسدر علی کی کتاب پاکستان میں کمیونزم (بلومسبری، ۲۰۱۵) سے قبل تحریر کی گئی تھی، جس نے تقسیم سے فوراً پہلے اور بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) اور اس کی ذیلی شاخ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے اندر نظریاتی مباحثوں کو دائمی شکل دی۔ اس کتاب کا اہم کامیابی یہ ظاہر کرنا تھا کہ پاکستان میں محصور نوزائیدہ انقلابی بائیں بازو، نئے ملک کے ابھرتے ہوئے ‘قومی کلچر’ پر ہونے والی بحثوں میں کافی اہم کردار کا درجہ رکھتا تھا۔
رضا کمیونسٹوں اور آزادی پسندوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو ایم این رائے اور سجاد ظہیر جیسے بڑے ناموں کی تعریف سے خوش نہیں ہوتے ہیں۔ اس کا کام ‘درمیانی تاریخ’ یا ‘روزمرہ کی اشتراکیت’ پر سوال اٹھاتا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی سلطنت اور اس کے مقامی ساتھیوں کے خلاف ’بظاہر عام لوگوں‘ (صفحہ ۸) کی جدوجہد کو منظر عام پر لاتے ہوئے رضا ایک عالمی انقلابی منصوبے کے لیے ان کی انمٹ وابستگی کو واضح کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے لے کر تقسیمِ ہند کے فوراً بعد کے دور تک کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ وہ انقلابی شخصیات جن کا اس کتاب میں پتہ چلتا ہے، وہ ایک ’مثالی جذبے سے سرشار ہیں جو ان کی سیاست کو قابل اور پائیدار بناتی ہے‘، ایک ایسا جذبہ جو انہیں انتہائی خطرناک اقدام اور قربانیوں کی طرف راغب کرتا ہے (صفحہ ۲)۔
سوویت یونین ان انقلابیوں کے تخیلات میں مرکزی مقام رکھتا ہے، دنیا کے پہلے کمیونسٹ ملک میں ان کے مختصر قیام نے ان کی سوچ کو نئی شکل دی۔ یہ انقلابی، اپنے آبائی ملک میں سیاسی جدوجہد اور بالشوزم کی کوششوں کو تقریباً ایک شاندارعالمی مہم جوئی کے ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہیں، جس میں برطانوی سلطنت کی دیگر قبضہ گیریوں جیسے سنگاپور اور ہانگ کانگ، اور امریکہ اور ارجنٹائن جیسے ’آزاد ممالک‘ کو بےنقاب کرنا بھی شامل ہے۔ یہ ذاتی تبدیلی اور انقلابی بغاوت کا مسلسل سفر ایک مادر ہند میں استعمار کے خلاف جدوجہد کی صورت ختم ہوتا ہے۔ تاہم، بالآخر، مرکزی کردار ایک ’خواب التوا‘ کے المیے کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پنجابی انقلابی بننا
تقسیم کے بعد پاکستان میں، پنجاب اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا گڑھ رہا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے، پاکستانی پنجاب نے درحقیقت ایک متحدہ ریاستی قوم پرستی کی بنیاد کا کام کیا ہے جس نے کمیونسٹ بائیں بازو اور پاکستان کے بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر نسلی علاقوں سے نکلنے والی تحریکوں سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ رضا کی کتاب کے بنیادی کرداروں کا تعلق پنجاب سے ہے، اور یہ کہ صوبہ درحقیقت تقسیم سے پہلے کئی دہائیوں تک انقلابی شورش کا گڑھ تھا، ہندوستان اور پاکستان دونوں کے مستقبل کی سیاست پر پنجاب کی تقسیم کے گہرے اثرات کا حساب مانگتا ہے۔
رضا کی پانچ دہائیوں کی داستان میں پنجاب سے مضبوط تعلق رکھنے والے پنجابی سکھ واضح اور مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھگت سنگھ جیسی عظیم شخصیات کے بارے میں مشہور بیانیوں نے ہمیشہ آخری برطانوی دور میں سکھ برادری کے استعمار مخالف بائیں بازو کے ساتھ ملنے کا اشارہ کیا ہے، لیکن رضا سکھ کمیونسٹوں اور آزادی پسندوں، دونوں کے منتخب نظریات اور ساتھ ساتھ برطانوی سلطنت کے خلاف عالمی جدوجہد میں ان کے مرکزی کردار بارے حقیقی طور پر گہری نظر ڈالتے ہیں۔
ء۱۹۱۰ اور ء۱۹۲۰ کی دہائیوں میں امریکہ میں مقیم سکھ تارکین وطن کے تعاون سے غدر تحریک پر سوال اٹھانے کے ساتھ شروع ہونے والی کتاب میں نینا سنگھ دھوت، سوہن سنگھ جوش اور سنتوکھ سنگھ جیسی شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو اگلی چند دہائیوں میں بغاوت کی سیاست کے لیے ابھرنے والے راستوں کو مرتب کرتے ہیں۔ کیرتی کسان پارٹی، رضا کے مطابق، ‘برطانوی پنجاب میں سب سے نمایاں کمیونسٹ نیٹ ورک تھا’ (صفحہ ۲۴)، یہ پارٹی سکھ بنیاد پرستی کے اعلیٰ مقام کی نمائندگی کرتی تھی۔ لیکن رضا قارئین کو یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ سکھ نوآبادیات مخالف سیاسی جذبات کو اکالی تحریک جیسی غیر سیکولر تشکیلات کے ذریعے راستہ ملا۔
کمیونسٹ بائیں بازو کی دیگر مذہبی ‘صلیبی جنگوں’ سے بھی وابستگی تھی، خاص طور پر تحریک خلافت، پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد، برطانوی راج کو درحقیقت ‘پان اسلامزم اور بالشوزم کے مشترکہ خطرے’ (صفحہ ۵۳) کا مقابلہ کرنا پڑا۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رضا کا انقلابیوں پر لکھنا، ان کے نظریات اور عمل کی حمایت کرنا تھا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ’’سیاسی حدود ہمیشہ بے ساختہ اور مسلسل بہاؤ میں رہتی ہیں‘‘ (صفحہ ۱۰)۔
رضا کی کتاب میں، ممتاز مسلم کرداروں میں سے دادا امیر حیدر خان نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک بارانی گاؤں سے تعلق رکھنے والے، دادا کی زندگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، وہ نہ صرف ایک بےمثال سیاسی کارکن تھے بلکہ ایک عالمی مہم جو بھی تھے۔ رضا، دادا کی زندگی کو ایک بحری مسافر کے طور پر دیکھتا ہے جو ایک دہائی سے زیادہ سمندروں کے سفر پر ہے، جس کا امریکی شہریت حاصل کرنا، امریکی نسل پرستی کی بدنمائی کو قریب سے دیکھ پانا؛ سوویت یونین میں وقت گزاری، جہاں اسے مشرق کے محنت کشوں کی مشہور کمیونسٹ یونیورسٹی میں تفصیلی ہدایات ملتی ہیں؛ اور اس کی بالآخر ہندوستان واپسی جہاں اسے طویل عرصے تک نظربندی برداشت کرنی پڑتی ہے (تقسیم سے پہلے اور ۱۹۴۷ء کے بعد نئی پاکستانی حکومت کے تحت)۔ کم از کم پاکستانی قارئین کے لیے، ایک (نوجوان) دادا کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا یہ واضح کر سکتا ہے کہ پنجابی اور انقلابی ہونا، نوآبادیات کی طرف لے جانے والے پرانے دنوں میں، ناممکن کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
بقیہ اگلے شمارے میں۔۔۔۔
گزشتہ انقلابات: نوآبادیاتی ہند میں کمیونسٹ بین الاقوامیت۔ ۲۸۰ صفحات، کیمبرج یونیورسٹی پریس ۲۰۲۰ ۔علی رضا
کتاب پہ تبصرہ، انگریزی زبان میں، اپریل ۲۰۲۱ میں بلومزبری پاکستان میں شائع کیا گیا۔