وبائی امراض کے آنجہانی ماہرین: کووڈ۔۱۹ کا مأخذ

جورڈن لِز

راب والیس کی کتاب وبائی امراض کے آنجہانی ماہرین: کووڈ۔۱۹ کا مأخذ (۲۰۲۰) پر جورڈن لِز کا تبصرہ جو ۲۶ اگست ۲۰۲۱ کو مارکس اینڈ فلاسفی ریویو آف بُکس میں شائع کیا گیا۔ جارڈن لِز، سان ہوزے سٹیٹ یونیورسٹی، کیلیفورنیا میں فلسفے کے شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور بائیومیڈیکل اخلاقیات، طب اور نسل کے فلسفہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ راب والیس کی کتاب کو منتھلی ریویو پریس نیویارک سے ۲۰۲۰ میں شائع کیا گیا تھا۔

وبائی امراض کے آنجہانی ماہرین : کووڈ 19 کا مأخذ میں راب والیس، ہماری توجہ مسئلے کے زیادہ بنیادی مأخذ کی طرف مبذول کراتے ہیں جو کہ عالمی زرعی کاروباری صنعت اور سرمایہ داری کے تحت خوراک کی پیداوار کا پورا نظام ہے۔

منافع بخش زراعت، اپنے معمول کے پیداواری عمل کے ساتھ ساتھ ، نئی وباؤں کو بھی جنم دیتی ہے۔ والیس نے کتاب میں جو بنیادی خاکہ فراہم کیا ہے وہ اس طرح ہے: گھنا اور متنوع ماحولیاتی نظام وائرس سے پھیلنے والی وباؤں کے خلاف قدرتی رکاوٹ فراہم کرتے ہیں۔ ایک طرف ان ماحولیاتی نظاموں کا تنوع، انسان اور مہلک وائرسوں کے درمیان بڑا فاصلہ برقرار رکھتا ہے اور دوسری طرف، حیاتیاتی تنوع وائرسوں کے لیے مستقل طور پر ایک مناسب میزبان ڈھونڈنا مشکل بنا دیتا ہے جہاں وائرس تغیر پذیر ہو اور مزید پھیلتا رہے۔ صنعتی زراعت میں اضافے کے لئے، جنگلات کی کٹائی کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح وائرس اور انسانی گروہوں کے مابین فرق ختم ہوتا جاتا ہے۔ اسی دوران، صنعت کی توجہ جینیاتی مونوکلچرز (یعنی مویشیوں اور مشابہ جینومز والے پودوں) اور بڑی تعداد میں ان کی پیداوار سے ایسے حالات پیدا کر سکتی ہے، جہاں ‘ضرر رساں جرثومے (پیتھوجینز) مشترکہ میزبان کے مدافعتی جینو ٹائپ کو استعمال کر کے تیزی سے ارتقاء پذیر ہو سکتے ہیں۔ صنعتی توجہ زیادہ پیداواری عمل پہ مرکوز ہونے سے، کمزور مدافعت رکھنے والے پودوں اور جانوروں کی مسلسل پیداوار سے وائرس کی نشوونما  کے خطرات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مزید برآں، جانوروں کی ذبیح کی عمر مختصر (تیزی سے کم سے کم) ہونے کی وجہ سے، وائرس کو زندہ رہنے اور تیزی سے پھیلنے بہتر موقع مل جاتا۔ آخرکار، بڑے پیمانے پر دور دراز علاقوں میں حتیٰ کہ تمام ممالک تک، زرعی برآمدات اور درآمدات کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے، مہلک وائرس کو آسان نقل و حرکت اور انسانوں کے ساتھ رابطے کی رسائی مل جاتی ہے۔ جیسا کہ والیس لکھتا ہے، ‘وہ سرمایہ دارانہ زراعت جو زیادہ قدرتی ماحولیات کی جگہ لے لیتی ہے وہ عین وسائل مہیا کرتی ہے جس کے ذریعے پیتھوجینز، انتہائی خطرناک اور متعدی فینوٹائپس تیار کر سکتے ہیں’۔ وبائی امراض کے آنجہانی ماہرین ایک بارہ مضامین، بلاگ پوسٹوں اور انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو والیس نے کووڈ۔۱۹ کی وباء، خاص طور پر صنعتی زراعت کے کردار کے بارے میں لکھا ہے (یا شریک مصنف ہیں)۔

پہلا باب، ‘نوٹس آن ناول کورونا وائرس’، پوری کتاب کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ مضمون، امریکہ میں وباء کے باضابطہ طور پر اعلان ہونے سے پہلے لکھا گیا تھا جس میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ کس طرح نیولبرل ازم عوامی صحت کے اقدامات کی صلاحیت کو کمزور کرتا ہے اور وباؤں کی ساختی وجوہات کا باعث بنتا ہے۔ اس کی بجائے، وبائی امراض اور صحت عامہ کے ماہرین کے پاس ان مسائل کے محدود جوابات موجود ہیں جن میں آلودگی، ماحولیاتی تباہی، جنگلات کی کٹائی اور یہاں تک کہ وباؤں کا پھوٹنا شامل ہیں۔ اور ساتھ ساتھ ان ماہرین کو ذیلی سطح پہ بائیوکنٹرول کے طریقوں کا بھی دفاع کرنا پڑتا ہے۔

دوسرا باب، ‘زرعی کاروبار لاکھوں اموات کا باعث بن سکتا ہے’ کے عنوان سے ایک انٹرویو ہے، جس میں، کئی موضوعات بشمول وبائی شک و شبہات، صنعتی زراعت کا کردار اور وباء کے دوران (اور اس سے پہلے) غریب محنت کشوں کو لاحق خطرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہاں، والیس نے مختصراً بیان کیا کہ کس طرح کسانوں کی خودمختاری، تدبیری بحالی، جانوروں کو افزائش کرنے کی اجازت جیسے عوامل، زراعت کا ایک پائیدار نظام تشکیل دینے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔

تیسرا باب، ‘کووڈ۔۱۹ اور دارالحکومت کے سرکٹس’، ایک مضمون ہے جس کے مشترکہ مصنفین میں الیکس لیب مین، لوئی فرنانڈو شاویز، روڈریک والیس اور کینیچی اوکاموٹو شامل ہیں۔ وائرس سے پھیلنے والی وباؤں اور صنعتی زراعت کے مابین تعلقات کا انتہائی تفصیلی ذکر کرنے کے علاوہ، مصنفین نے ان تعلقات کو چھپانے والے کچھ عوامل کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ان عوامل میں قریبی جغرافیہ کی بجائے مطلق جغرافیہ پر زور دینا شامل ہے۔ یعنی، اس تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق، چین، بھارت، انڈونیشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے کچھ حصوں میں مستقبل کے مہلک پیتھوجینز کے ابھرنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ اس سے صحت عامہ کے ماہرینوں اور سیاست دانوں کو موقع مل جاتا ہے کہ عالمی غریب اور غیر سفید فاموں کے ‘گندے’ ثقافتی طریقوں کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ تاہم، ایک قریبی نقطہ نظر یہ ہے، جو اس بات کا پتہ لگاتا ہے کہ نیو یارک، لندن اور ہانگ کانگ جیسی جگہوں کو غیرملکی سرمایہ کس طرح وباؤں کے پھیلاؤ کا مرکز بنا دیتا ہے۔ یقیناً، یہ غلطی کوئی حادثہ نہیں ہے۔ اس طرح کی تحقیق کو باقاعدگی سے زرعی کاروبار کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔

چوتھا باب، ‘انٹرنیشنل ازم کو گلوبلائزیشن کو دور کرنا ہوگا’، چین اور کیوبا کے مقابلے میں وباء کے بارے میں امریکی ردعمل پر بحث کرتا ہے۔ والیس کے لیے، جو ایک سلطنت کے زوال کا اشارہ ہے، امریکہ سرمایہ داری کے پیدا کردہ مسائل کا مناسب جواب دینے سے قاصر ہے۔ بہترین طور پر، یہ صرف طاقت کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، مثال کے طور پر، کچھ سیاستدانوں نے ابتدائی طور پر یہ پیشکش کی کہ وائرس کو اس وقت تک چلنے دیں جب تک کہ ہجوم میں قوت مدافعت حاصل نہ ہوجائے۔ یہ بیان بازی سیاسی غیر موثریت کو ایک سیاسی فیصلے میں بدل دیتی ہے جو کہ پارٹی سیاست پھر بھیس پالیسی بناتا ہے۔ چین کو، جسے والیس نے ‘ریاستی سرمایہ داری’ کی توثیق کے طور پر بیان کیا ہے ، سرمایہ جمع کرنے کے عمل کے آغاز میں ہے اور اس طرح اب بھی اپنے مسائل کا جواب دینے کے قابل ہے۔ مزید یہ کہ ، چین اور کیوبا جیسے ممالک کے مضبوط نظامِ صحت انہیں اپنے شہریوں کی حفاظت کے قابل بناتے ہیں، ساتھ ساتھ انہیں بین الاقوامی سطح پر پھیلنے والی وباؤں سے نمٹنے کے لیے اپنے ڈاکٹر بھیجنے کے قابل بھی بناتے ہیں۔

پانچواں باب، ‘دی کِل فلور’، وائرس سے پھیلنے والی وباؤں پر گوشت کو پیک کرنے کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ خاص طور پر، یہ دریافت کرتا ہے کہ کس طرح کارپوریشنیں، یو ایس ڈی اے جیسی سرکاری ایجنسیاں اور سیاست دان، کارپوریٹ ایگزیکٹوز کے فوائد کی خاطر، فیکٹری ورکروں کی صحت اور حفاظت کو خطرے میں ڈالنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ باب چھ، ‘اسکوائر روٹس’، خود رو زراعت اور صنعتی زراعت کے مابین واضح اختلافات اور سابقہ قسم کی زراعت کی ​​سرمایہ داری کے ساتھ عدم مطابقت کا جائزہ لیتا ہے۔

ساتواں باب، ‘مڈوینٹر ۔۱۹’ (۲۰۱۹ کی فلم مڈسومر کے نام پہ)،  والیس کے مطابق کووڈ ۔۱۹ کے ‘وبائی تھیٹر’ کا جائزہ لیتا ہے۔ اس طرح کے تماشے کئی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں، چاہے چین بمقابلہ امریکہ (مثال کے طور پر چین ذمہ دار ہے؟ کیا امریکہ نے وائرس کو روکنے کے لیے کافی اقدامات اٹھائے؟)  یا حکومت بمقابلہ سائنس، (مثلاً کیا کووڈأ۱۹ کسی لیبارٹری میں ظہور پذیر ہوا؟ کیا عوام کی صحت کے اقدامات  اور طبی ماہرین، عوام کے ہمدرد ہیں؟) اگرچہ یہ بحث مباحثے مرکزی توجہ حاصل کر لیتے ہیں مگر حقیقت میں سرمایہ داری اور نیو لبرل ازم کے حقیقی صحت پہ خطرات، عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔

آٹھواں باب، ‘بلڈ مشینز’، ہارس شو کیکڑے کی صنعت کے بارے میں ہے۔ یہاں، والیس مختصر طور پر طب اور دواسازی کی صنعتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی اور میٹابولک خرابیوں کا جائزہ لیتے ہیں جو ویکسین بنانے کے لیے نامیاتی وسائل کا استحصال کرتی ہیں۔ ویکسین کی ضرورت اس ماحولیاتی تباہی کے بعد لازمی ہو جائے گی جو ان صنعتوں کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔

باب نو، ‘صنعتی زرعی پیتھوجینز کا آغاز’ کو الیکس لیب مین، ڈیوڈ وائیزبرجر، تمی ہوناس، لیوک برجمن، رچرڈ کاخ اور روڈریک والیس نے مشترکہ طور پہ تصنیف کیا۔ یہ باب دریافت کرتا ہے کہ کس طرح زرعی پیداواری عمل، سرمایہ جمع کرنے کے عمل کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوا ہے اور ماحولیاتی نظام پر ایک حملہ آور، ناپائیدار اور تباہ کن قوت بن چکا ہے۔ خاص طور پر، یہ خیال کرتی ہے کہ جدید زراعت کے مطابق حیاتیاتی تنوع ایک ایسا ممکنہ خطرہ ہے، جسے کیڑوے مار، جینیاتی تبدیلی والے مونوکلچرز اور یہاں تک کہ لیبارٹری میں تیار کردہ سمیلکرمز کے قابو کیا جانا چاہیے۔

باب دس، ‘عوام کی خاطر۔ وباء پہ تحقیق’، مختصر طور پر لوگوں کے لیے عوامی وبائی تحقیقی منصوبے کے متعلق، بنیادی سوالات اور خدشات کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ جیسا کہ والیس لکھتا ہے، ‘یہ منصوبہ، عوام کی طرف سے کی جانے والی مالی امدادی کوشش ہے جو فوری تحقیقاتی کوششوں کا مقصد رکھتی ہے تاکہ  جاری کووڈ۔۱۹ سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہو سکے جو دنیا بھر کی عوام کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔‘

گیارہویں باب ، ‘دی برائٹ بلبز’ میں، والیس اور شریک مصنف، میکس اجل، وبائی امراض کے ارد گرد نقصان دہ اقدامات کے ایک سلسلے کا جائزہ لیتے ہیں۔ باب کا بیشتر حصہ مغربی معاشروں میں لیبارٹی میں تیار شدہ گوشت کی بڑھتی ہوئی قبولیت پر مرکوز ہے۔ کووڈ۔۱۹کی ابتداء کے ماخذ کے طور پر چین کی کھلے گوشت کی منڈیوں پر اعتراض اٹھائے گئے اور بہت سے لوگوں نے مصنوعی گوشت کو وباء کے خطرے کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم، یہ نقطہ نظر کچھ سطحوں پر ناقص ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی کی مقدار، پلاسٹک اور یہاں تک کہ نامیاتی مواد (مثال کے طور پر گائے کے نومولود بچے کا خون اکثر لیبارٹری کا گوشت بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے) اس عمل کو ناپائیدار بنا دیتا ہے، خاص طور پر اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اسی طرح، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بحث، زرعی کاروبار اور ان وباؤں کو پیدا کرنے والی صنعت، معاشرے کے نجات دہندگان کی حیثیت سے دکھانے لگتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ‘حیرت انگیز’ اور ‘محفوظ’ متبادل تیار کرکے کرہ ارض کو بچائیں گے۔ درحقیقت، ستم ظریفی اتنی گہری ہے کہ اس نقطہ نظر کے مطابق ، پائیدار مقامی طریقوں کے مطابق گوشت  کی پیداوار کو رکاوٹوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم جعلی گوشت کے عالمی دور میں منتقل ہوتے جائیں گے۔

آخری یعنی بارہویں باب میں، ‘چمگادڑوں کی غار میں’، والیس اور ڈیبورا والیس نے سارس-کووڈ ۔۲ اور ہارس شو چمگادڑ کے تولیدی چکر کے درمیان حیرت انگیز مماثلت کا جائزہ لیا۔ مجموعی طور پر، وبائی امراض کے آنجہانی ماہرین ایک بروقت اور اہم کتاب ہے۔ یہ نہ صرف کووڈ۔۱۹ کے متعلق ہونے والی بحثوں میں ایک ضروری مداخلت فراہم کرتی ہے، بلکہ ہمیں ایک بہت ضروری نقطہ نظر بھی پیش کرتی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داری کا موجودہ نظام ہمیں وباؤں کے سامنے کس قدر بےبس بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ جو کووڈ۔۱۹ کے ماخذ کا سخت اور منظم تعلیمی تجزیہ تلاش کر رہے ہیں، وہ والیس کے زیادہ براہ راست اور دوٹوک نقطہ نظر سے مایوس ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ کتاب یقینی طور پر اس طرح کے تجزیے سے خالی نہیں ہے، لیکن یہ اکثر درسی لفاظی کے مقابلے میں زیادہ واضح طور پر بات کرتی ہے۔ پھر بھی، میری نظر میں، یہ کتاب کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ کتاب کو قابل رسائی بناتی ہے اور اگر ہم ایک عالمی برادری کے طور پر، والیس اور ان کے ساتھیوں کے بیان کردہ مسئلے سے نمٹ رہے ہیں تو کتاب کا قابل رسائی ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

مزید یہ کہ والیس کا دوٹوک مؤقف، بالآخر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسئلہ واقعی کتنا بنیادی اور واضح ہے۔ اور یقینی طور پہ، ایک زیادہ پیچیدہ معلومات بھی فراہم کی جا سکتی تھیں جس سے نسل پرست سرمایہ داری، جانوروں کی فلاح و بہبود، نو لبرل ازم، ماحولیات اور صحت عامہ میں خوراک کی پیداوار کے مغربی طریقوں کے پیچیدہ طریقہ کاروں پر اہم تصوراتی روشنی ڈالنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، اس طرح کا تجزیہ بالآخر اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ صنعتی زراعت صحت عامہ کے لیے مستقل خطرہ ہے۔

بنیادی طور پر یہ کتاب صرف کورونا کی شروعات کا پتہ لگانے کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے ماضی اور مستقبل پر روشنی ڈال کر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ اگر ہم نے تباہ‌کن و ناپائیدار سرمایہ‌دارنہ زراعت پر انحصار ترک نہیں کیا، تو مستقبل میں کووڈ۔۱۹ کی طرح کے مذید بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زراعت کے شعبے میں اکا دکا ترامیم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس طرح کے ممکنہ وائرس سے بچنے کے لئے لیباٹری میں تیار شدہ گوشت اپنانا کافی نہیں ہے۔ کھلے گوشت کی منڈیوں پہ پابندی اور “تیسری دنیا” کے لوگوں کے کھانے پینے کی اطوار کو ریگولیٹ کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ والیس ہمیں ترغیب دیتے ہیں کہ آئیں ماحولیاتی-سوشلزم اپناتے ہیں جو ماحول اور معیشت، اور شہر، دیہات اور جنگل کے درمیان تعلق کو ٹھیک کرے، تاکہ اس طرح کی وباؤں کو پیدا ہونے سے روکا جا سکے۔ چلیئے دنیا بھر کے عام انسانوں کے درمیان یکجہتی کی بنیاد ڈالیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کریں۔ چلیں دنیا میں ایک نئے نظام کی شروعات کریں، جس میں علاقائی آزادی، کسانوں کی خودمختاری، اور علاقے کے مناسب زرعی معیشت ہو جو کہ زندگی کی حفاظت ممکن بناسکے، مویشیوں، مرغیوں اور میں فصلوں کی مختلف اقسام میں وباؤں سے لڑنے والی مدافعت کو دوبارہ جنم دے سکے۔

Spread the love

Leave a Reply