مقسوم حسین
کورونا کے دنوں میں جب سب کُچھ بند ہے، سبھی روزگار بند ہیں، تاجر اور مزدور
طبقہ انتہائی پریشان ہے کہ دو وقت کی روٹی کہاں سے کمائی جائے۔موجودہ حالات کا
جائزہ لیتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کورونا سے پہلے بھی اِس حکومت نے کسی بھی
شہری کو نئی پچاس لاکھ نوکریاں اور روزگار دینا تو درکنار ،پہلے سے موجود
روزگار/ نوکری بھی عزت سے نہیں کرنے دی۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج کا نوجوان اگر
وزیراعظم کے دفتر کے سامنے خودسوزی پہ مجبور ہوتا ہے تو کیا ریاست اُس کی ذمہ
دار نہیں؟؟
ہر انسان کے کُچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں جو ریاست کے ذمہ ہوتے ہیں، روزگار اُنہی
میں سے ایک ہے، ریاست کی ذمہ داری بنتی کہ وہ اپنے شہریوں کو روزگار یا اتنے
وسائل فراہم کرے کہ ہر شہری با عزت طریقے سے اپنا روزگار چلا کر ریاستی ترقی
میں اپنا کردار ادا کر سکے۔یہاں باتیں اور مثالیں ریاست مدینہ کی دی جاتی ہیں مگر
عملی طور پہ عوام کو وعدوں پہ ہی ٹرخایا جاتا ہے۔
معاشرے میں انسانیت کے اخلاق اُس وقت تباہ ہو جاتے ہیں جب اُنہیں معاشی تنگی میں
دھکیل دیا جائے، آج کا نوجوان اگر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے، دھوکہ دہی، چوری،
منشیات، ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث ہے تو اس کی ذمہ داری سراسر ریاست کے
سر جاتی ہے چاہے ریاست تسلیم کرے یا نہ کرے۔
یوں لگتا ہے جیسے ریاست نے اپنے نوجوانوں سے لا تعلقی اختیار کی ہوئی ہے۔جہاں
ہر وقت مدینہ مدینہ، ریاست مدینہ کے فلک شگاف نعرے بلند رہتے ہیں وہاں نوجوانوں
سے لاتعلقی والا برتاؤ معاشرے کو کس زوال کی طرف دھکیل دے گا وہ اہل علم و عقل
سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔یہاں سوال کرنے والوں کو نوجوانوں کے اور باقی شہریوں کے
حقوق کی بات کرنے والوں سے نوکریاں چھین لی جاتی ہیں ۔
گزشتہ دنوں بلوچ طلبہ جو آج کے دور کے حساب سے اپنا ایک بنیادی حق” تیز انٹرنیٹ
“کی فراہمی مانگ رہے تھے، جس کےلئے طلبہ نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ، یہاں تک کہ
ریاست کو جگانے کے لیے قوم کے معماروں نے بھوک ہڑتالی کیمپ تک لگائے مگر
مجال ہے جو انتظامیہ کے کان پر جُوں تک رینگی ہو۔۔۔ اِسی طرح مشہور طبیعیات دان
اور سائنسدان ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کو نوجوانوں کی آواز بننے پر جس طرح سے انتقام
کا نشانہ بنایا گیا ، اُس سے ریاست و حکومت کےذہن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ریاست نے کبھی اپنی نا اہلی اور کوتاہی کو قبول نہیں کیا، کورونا کے حوالے سے
اقدامات ہر پاکستانی کے سامنے ہیں۔ چلیے ریاستی نا اہلی کے حوالے سے ایک تازہ
واقعہ مُختصراً بیان کرتا ہوں۔افسوس کے ساتھ یہ واقعہ میری ہی آپ بیتی ہے:
“میں مقصوم حسین بیس سال کا ایک نوجوان، بچپن سے زندگی کی مشکلات کا شکار
ایک نوجوان، جس نے ہمت و حوصلہ نہیں ہارا، وقت کی بے رحم ہواؤں نے کئی مرتبہ
اذیتوں کے صحرا میں لا پھینکا مگر مُجھے تو انتظار تھا اپنے اچھے وقت کا،۔۔۔۔۔
میرا دن، میرا وقت جو شاید سالوں بعد آنا تھا مگر مُجھے معلوم تھا کہ میرے اچھے دن
آئیں گے ضرور۔
زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرتے کرتے بچپن نجانے کب گُزر گیا، لڑکپن میں قدم رکھا تو
عام مڈل کلاس گھرانوں کی طرح مجھے بھی جائز اور عزت کا روزگار تلاش کرنا
تھا۔عزت بھرے روزگار کی تلاش، قائد اعظم یونیورسٹی کی طرف کھینچ لائی۔ 100
روپے روزانہ کی اُجرت پر بطور ہیلپر کام ملا، مگر محنت کرتا گیا کیونکہ ذہن میں
ایک ذمہ دار شہری بننے کا بھوت سوار تھا۔ جلد ہی قریب میں ایک فوٹو کاپی کی دکان
پر کام مل گیا جہاں سے میں روزگار کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکتا
تھا۔۔۔قریباً چار سال محنت کرکے پائی پائی جوڑی اور اگست 2018 میں کُچھ جمع
پونجی اور کُچھ اُدھار پکڑ کے وہی دکان خرید لی، مگر قسمت میں ابھی چین کہیں دور
ہی لکھا تھا اور دسمبر2019 میں میری غیر موجودگی میں سی ڈی اے نے میری دکان
گرا دی، جس سے دکان میں موجود سب سامان بشمول فوٹوکاپی مشینیں، کمپیوٹر لیپ ٹاپ
وغیرہ مکمل طور پہ تباہ ہو گئے۔
یہ میرے لیے ایک ایسا سانحہ تھا جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو، جیسے کمسن
بچے کے سر پر پورے مکان کی چھت آن گِرے، میری زندگی کی محنت یوں ملبے تلے
دب جائے گی ، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
سی ڈی اے نے نااہلی چھپانے کی خاطر لوگوں کے روزگار تباہ کرنے کو تجاوزات کے
خلاف آپریشن کا نام دے دیا، جو میری عزت پہ وار تھا اسی لیے سی ڈی اے کی یہ
منطق میرے لیے مزید صدمے کا باعث بنی کیونکہ میں نے ایک ذمہ دار شہری ہونے
کی حثییت سے اپنی دکان ایف بی آر سے رجسٹرڈ کروا رکھی تھی، میں نے مالی سال
2019 میں 65 ہزار سے زائد کا ٹیکس بھی ادا کیا تھا۔
بعد کی انکوائری کمیٹی میں یہ ثابت ہو گیا کہ کہ سی ڈی نے سیکشن C-49 کی خلاف
ورزی کی ہے۔کیس ابھی تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جس کی وجہ
سے مزید تفصیلات فی الحال بیان نہیں کی جا سکتی۔۔ اب آگے کی کارروائی میں قصور
وار جو بھی ہو عدالت یا ریاستی ادارہ۔۔۔ مگر یہ سارا واقعہ ایک نوجوان کی معاشی اور
ذہنی تباہی کا باعث بن گیا۔”
میرا سوال دوبارہ یہی ہے کہ یہ ریاست اپنے ہی شہریوں کیلئے اتنی خوفناک کیوں ہے؟
ہم شکوے کرتے نہیں تھکتے کہ ہمارے مُلک کے پڑھے لکھے نوجوان باہر کی ملٹی
نیشنل کمپنیوں کے لئے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ریاست سے یہ
سوال کیا نوجوان ایسا کیوں کر رہے ہیں، ایسی کون سی کمی ہے جس کے باعث شہری
اپنی وفاداری اور منافعت باہر کے ممالک اور کمپنیوں کو دے رہے ہیں؟
سوال اتنے کے محبوب کی زلفیں چھوٹی لگیں مگر ریاست کے پاس ان سوالوں کا جواب
نہیں ہے۔جون ایلیاء صاحب کا ایک شعر ہے:
ذکر چھیڑا خُدا کا پِھر تُو نے
یہاں اِنسان بھی رائیگاں ہے، چُپ رہ
بس ایک گہری چُپ۔۔۔ جو ریاست کے منہ پہ چَھپی ہوئی ہے۔