(حصہ دوئم)
عالیہ امیرعلی
استحصال کی شکلیں
ویسے تو استحصال کا لفظ جب ہم عام طور پراستعمال کرتے ہیں تو عموماً ہمارے ذہن میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ ایک فیکٹری کی ہوتی ہے جس میں ایک طرف دن رات محنت کرنے والے صنعتی مزدور ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان پر نظر رکھنے والا مینجریا اپنے ایئرکنڈیشن کمرے میں بیٹھا ہوا سرمایہ دار۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں صنعتی مزدوروں کی تعداد باقی شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے( خاص طور پرکھیت مزدوروں اورغیر رسمی شعبہ میں کام کرنے والے مزدوروں سے)کم ہے۔ اس ملک میں محنت کرنے والے بیشتر افراد فارمل اعداد و شمار میں “مزدور”کی حیثیت ہی نہیں رکھتے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کا بیشتر حصہ غیر رسمی شعبہ پرمشتمل ہے اور بیشتر معاشی تبادلے یا سرگرمیاں فارمل ریکارڈ میں نہیں آتے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ قسم کی محنت کو “مزدوری” تصور نہیں کیا جاتا۔ مثلاً گھریلو کام جس میں بچوں کی پرورش، گھر والوں کی دیکھ بھال، کپڑے دھونا، کھانا پکانا، صفائی، مہمان نوازی، بچوں کی پڑھائی، تیمارداری، سلائی کڑھائی، جانوروں کی دیکھ بھال اور دیگر کام شامل ہیں۔ یہ تمام کام محنت کش عورت کرتی ہے اور یہ وہ کام ہیں جس کے بغیر گھر نہیں چل سکتا، انسانی نسل آگے نہیں بڑھ سکتی اور مزدوری پر جانے والا شخص اپنے کام کو نہیں جا سکتا۔ عورت کا گھریلو کام معاشی حوالے سے” غیر پیداواری کام” کہلاتا ہے کیونکہ وہ براہِ راست پیداواری عمل میں کوئی کردار نہیں ادا کرتا لہٰذا اسے “مزدوری” کی حیثیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں گھریلو کام کی سماجی قدر بھی نہیں ہوتی۔ بلکہ اسے عورت کا فرض سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر آسان یا معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر موازنہ کیا جائے تو گھریلو عورت، ایک تنخواہ دار مزدور سے زیادہ گھنٹے کام کرتی ہے اور مزدوری کے اوقات بھی اس حد تک طے نہیں ہوتے (رات کے بیچ میں جیسے مہمان آجائیں توعورت کو فوراً کھانا تیار کرنے پر یا چائے بنانے کیلئے جگا دیا جاتا ہے)۔
عورت کے گھریلو کام کی سماجی حیثیت کا تعین اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ محنت کش یا متوسط طبقہ کی عورت ملازمت کرنے کے باوجودکھانا پکانے اور دیگر گھریلو کام کی ذمہ داری سنبھالتی ہے کیونکہ مرد کیلئے” عورتوں والے کام “کرنا (خاص طور پر اپنے گھر میں یا اپنے گھر کی کسی عورت کی موجودگی میں) بے عزتی اور شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن جب وہی “عورتوں والے کام “منڈی میں اجرتی محنت کی شکل اختیار کرتے ہیں (مثلاََ باورچی، دھوبی ،ٹیچر، جمہ دار، ویٹر،وغیرہ کے شعبے)تو مرد انہیں اپنا لیتے ہیں (البتہ صرف مجبوری کی حالت میں، کیونکہ اجرتی محنت کے دائرے میں بھی “عورتوں والے کام” کی معاشی ویلیو باقی شعبوں کی نسبت سب سے کم ہے)۔ ہمارے سماج میں عمومی سوچ یہ ہے(جس میں مرد اور عورت دونوں کی اور بد قسمتی سے بائیں بازو کے بیشتر لوگوں کی سوچ شامل ہے ) کہ عورت استحصال کا شکار نہیں ہے کیونکہ مرد باہر جا کر کام کرتا ہے اور عورت کی تمام ضروریات گھر کے اندر بیٹھے بیٹھے پوری کی جاتی ہیں لہٰذا گھریلو کام کرنا اس پر کوئی خاص جبر نہیں ہے۔ اس تصور کے مطابق عورت تو مزدوری سے بچی ہوئی ہے اور مرد اس کے حصہ کا استحصال سہہ کر گھر آتا ہے لہٰذا عورت سے گھر کے اندر ہر قسم کی خدمات حاصل کرنا مرد کیلئے جائز ہے۔
ویسے تو ہمیں اس سوچ پرکوئی حیرانی بھی نہیں ہونی چاہئیے ۔ آخر حکمران طبقات کے خیالات پورے سماج کے خیالات بن جاتے ہیں۔ جیسے ایک سرمایہ دارانہ سماج میں مزدور بھی دولت کی چمک سے متاثر ہوتا ہے اور جاگیردارانہ سماج میں مزارع بھی عالی اور گھٹیا نسل کی تفریق کو اپناتا ہے۔ اسی طرح عورت بھی پدرشاہی تصورات اپنا لیتی ہے اور خود اس نظام کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن بائیں بازو کے مردوں سے سنی ہوئی اس گفتگو پرغور کرنا ضروری ہے کیونکہ ہم میں سے کافی لوگ شاید اسی طرح سوچتے ہیں کہ عورت اور مرد میں محنت کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہے اور جہاں مرد عورت کے کام سے فائدہ لیتا ہے وہاں عورت بھی مرد کے کام سے فائدہ لیتی ہے۔ (مزے کی بات یہ ہے کہ مرد اور عورت میں محنت کی تقسیم کے ساتھ وسائل کی تقسیم پر ہمارے بائیں بازو کے حضرات کم بات کرتے ہیں)۔ اس تصور کے مطابق مرد تو سرمایہ دار کے استحصال کا شکار ہے جبکہ عورت اس مرد کی مزدوری کی وجہ سے اس طبقاتی استحصال کا شکار بننے سے بچ جاتی ہے۔ اوپر سے مرد اس کیلئے تمام چیزیں باہر سے لا کر دیتا ہے اور اسے گھر کے اندر بیٹھے بیٹھے وہ سب کچھ فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اگر مرد کیلئے وہ گھر کے اندر خدمات انجام دیتی ہے اوراپنی خوشی سے یہ سب کرتی ہے تو اس میں استحصال تو چھوڑیں، ظلم کی بات کہاں سے آگئی؟عورت کے سوال پر بہت سے بائیں بازو کے حضرات کا سوچنے کا یہ طرزعام ہے۔ اس سوچ میں اور ایک جاگیردارانہ سوچ میں کیا فرق ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اپنے مزارعوں کا بہت خیال رکھتا ہے، انہیں روزی روٹی دیتا ہے، رہنے کو جگہ دیتا ہے اور ان کی شادی بیاہ وغیرہ میں ان کی مدد کرتا ہے؟ بات تو جاگیردار کی بھی صحیح ہے پھر کیونکہ ایسے جاگیردار بھی موجود ہیں جوکہ اپنے مزارعوں پر بے تحاشہ ظلم کرتے ہیں اور جبر استعمال کرتے ہوئے ان سے کام لیتے ہیں۔ لہٰذا ایک “اچھے جاگیردار”کی حاکمیت میں رہنے والا مزارع اپنے آپ کو یقیناً خوش قسمت سمجھے گا اور اپنی خوشی سے اس جاگیردار کی زمین پر کام کرتا رہے گا۔ بیوی کی بھی سوچ اس مزارع سے ملتی جلتی ہے۔”میرے شوہر بہت اچھے ہیں ،وہ مجھے مارتے نہیں ہیں۔” یہ فقرہ عورتوں سے عام طور پر سننے کو ملتا ہے۔ اور کیا ہم جاگیردار کے اس دعوے کو قبول کرتے ہیں کہ وہ اپنے مزارعوں کی خوشحالی کا ضامن ہے ؟یا ہم جاگیردار کی اس” فراغ دلی” کو جاگیرداری نظام کو قائم رکھنے کیلئے حاکم طبقہ کی مجبوری سمجھتے ہیں؟ سرمایہ دار بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مزدور کو روزی فراہم کرتا ہے، کہ سرمایہ دار (اور مجموعی طور پر سرمایہ داری نظام) کی وجہ سے ہی مزدور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوتا ہے لہٰذا کسی جگہ فیکٹری لگا کر وہ ادھر کے مزدوروں پر احسان کر رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم سرمایہ دار کے اس دعوے کو مان لیتے ہیں؟ اگر اچھے شوہر کی تعریف بھی ایسی ہو کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں مارتا تو اس میں اور اچھے جاگیردار کی تعریف میں کیا فرق ہے؟ کیا بیوی پر رحم کھانے سے یا نرمی سے بات کرنے سے اس رشتہ کا استحصالی پہلو ختم ہو جاتا ہے؟
ہم نے شروع میں کہا کہ استحصال صرف ظلم یا زیادتی کا نام نہیں بلکہ ہمارے مطابق استحصال کی خاص تعریف ہے جسے آسانی کیلئے یہاں دہرا دیتے ہیں: استحصال اس رشتہ یا عمل کا نام ہے جس میں محنت کسی کی ہو اور ملکیت کسی اور کی۔ جس میں وسائل ایک کے پاس ہوں اور ان پر کام کرنے والے کوئی اور ہوں۔ اس پیمانہ پر اگر ہم سماج کے دیگر گروہوں کے درمیان تعلقات کو پرکھیں تو استحصال کی دیگر شکلیں واضح ہوں گی۔ یہاں ہم بالخصوص جنسی، قومی اور مذہبی استحصال پر توجہ رکھیں گے کیونکہ یہ ہمارے سماج میں بنیادی سماجی تفریق کا باعث ہیں۔ اس نقطہ پر استحصال کی تعریف پر واپس آتے ہیں۔ کیا استحصال صرف براہِ راست پیداواری عمل میں حصہ لینے والے گروہ یا طبقات کے درمیان رشتہ کا نام ہے یا اس پیداواری عمل میں براہِ راست کردار ادا کرنے والے انسانوں کو جنم دینے والے پرورش کرنے والے اور پیداواری عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے والے انسانی گروہ بھی استحصال کا شکار ہو سکتے ہیں؟ ہم طبقاتی استحصال کس کو کہتے ہیں اور یہ استحصال کی باقی شکلوں سے،مثلاً قوم، جنس، یا مذہب کی بنیاد پر استحصال سے کس طرح مختلف ہے؟ کیا استحصال کی کچھ شکلیں زیادہ حقیقی یا بنیادی ہیں اور کچھ ثانوی؟ کیامارکسی نقطہِ نظرمیں استحصال کی ان مختلف شکلوں میں کوئی بالادستی موجود ہے؟
ہماری اصطلاحیں ہمیں اس حوالے سے اپنی پوزیسشن کے بارے میں کچھ بتاتی ہیں۔ بائیں بازو کی دستاویزات میں اکثر”طبقہ “کے علاوہ (اوراس لیے یہ سوال اہم ہے کہ ہم “طبقہ” کسے کہتے ہیں جس پر آگے چل کر بات ہوگی) تمام سماجی تضادات “دیگر” کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہماری تحریروں میں “سوالوں” کی صورت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ مثلاً قومی سوال، عورت کا سوال اور مذہبی اقلیتوں کا سوال۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم کچھ استحصال کی قسموں کو بنیادی اور کچھ کو ثانوی تصور کرتے ہیں۔ میرا سوال کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کیا یہ درجات جو ہماری سیاست میں نظر آتے ہیں کیا یہ ہمارے نظریہ کے مطابق ہیں یا یہ ہمارے (یعنی پاکستان کے موجودہ بائیں بازو) کی مخصوص سماجی بناوٹ کی وجہ سے پائے جاتے ہیں؟
:جنسی استحصال
ایک طبقاتی سماج میں رہنے والے انسانوں کے درمیان ہر سماجی فرق میں طبقاتی تفریق پیدا ہو تی ہے۔ یہ طبقاتی تفریق ہر گروہ کے اندراور گروہوں کے درمیان استحصالی رشتوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر ہماری تعریف یہ ہے کہ استحصال اس رشتہ کو کہتے ہیں جس میں محنت کرنے والے (یا پیدا کرنے والے) اور ملکیت رکھنے والے دو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہوں۔ اور ہم جب اسے مرد اور عورت کے سماجی تعلقات پر لاگو کریں تو وہ ہی طبقاتی تقسیم نظرآتی ہے۔
نئے انسان کو جنم دینا، مرد اور عورت کے جنسی تعلق کا نتیجہ ہے جوکہ لازمی طور پر مرد اور عورت کا مشترکہ عمل ہوتا ہے۔ لیکن فرٹلیائزیشن کے بعدعورت کی جسمانی محنت مرد کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ بچہ عورت کے جسم کے اندر نو مہینے کیلئے پرورش پاتا ہے اور بچہ کی پیدائش کے وقت عورت تکلیف کے مختلف مراحل سے گزر کر بچہ کو دنیا میں لاتی ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے، اور اسی لیے غیر طبقاتی سماج میں عورت کی سماجی حیثیت باعزت تھی (قدیمی مذاہب میں دیویوں کا کثرت میں موجود ہونا اس بات کا ثبوت ہے) ۔ لیکن بچہ کی پیدائش سے ّآگے بڑھتے ہیں۔ انسانی نسل کو آگے کرنے میں پیدائش صرف پہلا قدم ہے۔ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش بھی لازمی ہے۔اور یہ کام بھی (طبقاتی سماج میں) عورت کرتی ہے، البتہ اس کی وجوہات قدرتی نہیں سماجی ہیں۔ (ویسے تو غیر طبقاتی سماج میں بچوں کی ملکیت اور ذمہ داری نہ ماں کی تھی اور نہ باپ کی بلکہ وہ قبیلہ/گروہ کی اجتماعی ملکیت ہوتے تھے اور انہیں پالنا اور ان کا تحفظ کرنا بھی اجتماعی ذمہ داری تھی)۔ موجودہ دور میں کیونکہ مرد روزی کمانے کیلئے دن بھر گھر سے باہر گزارتا ہے اس لیے اس کا کردار سماجی طور پر بچوں کی پرورش سے کٹ جاتا ہے۔ لہٰذا انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے عمل میں( یعنی بچوں کو پالنا ان کی تربیت کرنا اور اپنا گزر بسر سنبھالنے کے قابل بنانے کے عمل میں) آج کی عورت کا کردار وہ ہی ہے جو کہ پیداواری عمل میں مزدور کا ہے۔وہ کیسے؟ بچے عورت کی محنت سے پلتے ہیں اور مرد وہ ذرائع فراہم کرتا ہے (آمدن ،وسائل یا خریدی ہوئی مصنوعات کی شکل میں) جنہیں استعمال کرتے ہوئے عورت بچوں کو پالتی ہے۔ لیکن بچے بالخصوص باپ کے نام/قبیلہ/خون کے تسلسل کے طور پر سماج میں پہچانے جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ماں خود اپنے شوہر کی ملکیت ہے اورطبقاتی سماج میں مرد کی یا نسل آگے بڑھانے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
جیسے کہ مزدور مزدوری کرتے وقت سرمایہ دار کی ملکیت ہوتا ہے اور سرمایہ دار کی ملکیت /دولت میں اضافہ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عورت/ماں(اور اس کے بچوں کی) شناخت سماج میں شادی سے پہلے اس کے والد سے منسوب ہوتی ہے اور شادی کے بعد شوہر کے نام /نسل /خاندان سے۔ البتہ لڑکا شادی کے بعد اپنی شناخت (جوکہ اپنے باپ کی نسل کا تسلسل ہوتی ہے) کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر لڑکی “دی” جاتی ہے۔ کون دے رہا ہے اور کس کو دی جارہی ہے؟ مفت میں دی جارہی ہے یا بدلے میں بھی کچھ دیا (یا لیا) جاتا ہے؟ اور یہ “دی ہوئی” لڑکی جب ماں بنتی ہے تو بچے صرف اس کے شوہر کی نسل سے منسلک کیے جاتے ہیں۔ شادی کے وقت لڑکی کو بتایا جاتا ہے کہ اب اس کا جینا مرنا اپنے سسرال میں ہی ہوگا۔ یعنی کہ شادی وہ رسم ہے جس کے تحت لڑکی کی ملکیت اس کے آبائی گھرانے سے اس کے خریدار( شوہر/سسرال )کو ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو بیٹی شادی کے بعد اسے بنانے والی ماں سے ہمیشہ کیلئے جدا کر دی جاتی ہے (بلکہ اگر جدا نہ ہو تو اپنے گھر والوں پرکچھ عرصہ بعد بوجھ تصور کی جاتی ہے) اور ماں کی یہ پیداوار اب کسی دوسرے گھرانے کو بنانے کیلئے دے دی جاتی ہے (جس طرح مزدور کا اور اس کی بنائی ہوئی اشیاء کے درمیان تعلق نہیں رہتا اور اس کی بنائی ہوئی اشیاء سرمایہ دار کے فائدہ کیلئے منڈی میں بکتی ہیں)۔ اس کے برعکس بیٹے کی شادی کے بعد بہو اسی گھر میں لائی جاتی ہے اور ماں باپ کو اپنے بیٹے سے جدا نہیں ہونا پڑتا۔
عورت کی پیداوار میں صرف بچے شامل نہیں ہیں۔ وہ پورا گھر چلاتی ہے۔ تمام گھریلو کام کے نتیجہ میں ہی وہ گھر قائم رہتا ہے اور اس کے تمام افراد بشمول مزدوری کرنے والے مرد کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ لیکن طبقاتی سماج میں گھر کا مالک یا سربراہ اس گھر کا بڑا (یعنی مرد) ہوتا ہے۔ خاندان کے بیرونی معاملات میں (جیسے کہ شادی بیاہ کے معاملات، یا کاروبار،زمین یا برادری کے معاملات) میں گھر کے مرد ہی خاندان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ گھر کے اندر عورت (بالخصوص ماں یا ساس) یقیناً اختیارات رکھتی ہے لیکن یہ اختیارات زیادہ تر گھر کے اندرونی معاملات تک محدود ہوتے ہیں اور ان اختیارات کے استعمال میں بھی گھر کے مردانہ اورزنانہ افراد کیلئے پیمانے مختلف ہوتے ہیں ۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جب تک بہو بچوں کے ماں نہیں بنتی اور خاص طور پر لڑکے کی ماں نہیں بنتی اس وقت تک وہ مکمل طور پر ساس کے کنٹرول میں ہوتی ہے اور اس وقت تک اپنے شوہر کے ذریعے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
محنت کش طبقہ کی عورت اپنے طبقہ کے مرد کی طرح گھر سے باہر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک ہی قسم کی ملازمت کیلئے عورت اور مرد کی تنخواہوں میں خاصہ فرق ہوتا ہے (جس میں عورت کو مرد کی نسبت اسی کام کیلئے کم تنخواہ دی جاتی ہے) ۔ یعنی معاشی طور پر ایک ہی طبقہ کی عورت مرد کی نسبت بدتر استحصال کا شکار ہے۔ اور ملازمت کرنے کے باوجود عورت گھر کے کام کاج کو ساتھ ساتھ سنبھالنے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے۔ (اکثراس سے قطع ِنظر کہ مرد بے روزگار اور گھر پر بیٹھا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔) عورت کے گھریلو کام کی معاشی اور سماجی قدر نہیں ۔ بغیر تنخواہ یا معاوضہ کے کام سرانجام دینے کی وجہ سے وہ معاشی طور پر گھر کے مردوں (باپ، بیٹے یا شوہر) پر انحصار کرتی ہے اور اس کے معاشی (اور لہٰذا سماجی اور سیاسی ) خودمختاری اپنے ہی طبقہ اور گھرانے کے مرد وں کی نسبت کم ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ عورت پر گھر کے اندر اور اس کے باہر جنسی اور دیگر قسم کے روزمرہ تشدد سے طبقاتی سماج میں عورت کی غلامانہ حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔ 2011 میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 70-90% عورتیں/لڑکیاں اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔جس میں سب سے زیادہ شرح پنجاب میں پائی گئی۔ اگر غور کیا جائے تو گھریلو یا مجموعی طور پر جنسی تشدد ان علاقوں میں اور ان طبقات میں بڑھتا ہے جہاں ترقی کی شرح زیادہ ہے اور جہاں معاشی صورتِ حال بہتری کی طرف گئی ہے۔ وسائل کی تقسیم اور ملکیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہر طبقہ میں وسائل (مثلاً مکان، زمین، دیگر معاشی وسائل) کی ملکیت اس طبقہ یا گھرانے کے مردوں کے پاس ہوتی ہے نا کہ عورت کے پاس۔ اس کے باوجود کہ اسلام عورت کو ملکیت میں حصہ رکھنے کا حق دیتا ہے، اکثر عورتیں اپنے اس حق سے خود دست بردار ہو جاتی ہیں کیونکہ ملکیت میں اپنا حصہ مانگنے کی سماجی قیمت اس ملکیت کو حاصل کرنے کے فوائد سے زیادہ ہوتی ہے۔
ہم نے جس انداز میں جنسی استحصال کی وضاحت کی ہے اس سے شاید بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ مضمون ایک مارکسی نہیں بلکہ لبرل نقطہِ نظر بیان کر رہا ہو۔ (ویسے بھی آج کل ہمارے بائیں بازو کے کچھ حلقوں میں عورت کے استحصال پر بات کرنا لبرل یا “پوسٹ ماڈرن “نقطہِ نظررکھنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے)۔ کچھ لوگ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ جنسی استحصال کی اس طرح سے وضاحت کرنا عورت اور مرد کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہے اور ہماری روایات اور سماجی اقدار کی خلاف ورزی ہے اور شاید سب سے عام اعتراض جو کہ جنسی استحصال کوطبقاتی استحصال سے الگ سے پیش کرنے پر کیا جاتا ہے (جوکہ ہم نہیں کر رہے بلکہ اسے طبقاتی سماج میں طبقاتی استحصال کی ایک شکل کے طور پر سمجھ رہے ہیں) وہ اس سوال سے واضح ہوتا ہے کہ کیا حکمران طبقہ کی عورت استحصال کا شکار ہے؟ کیا وہ محنت کش طبقہ کے تمام افراد، مرد اور عورت دونوں، کے استحصال میں اپنے طبقہ کے مرد کے ساتھ برابر کی شریک نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب ہے کہ ہاں وہ بالکل ایک طبقہ کا حصہ ہے۔ اور اپنے طبقہ کے تمام آسائشوں اور عیاشیوں میں بالکل شریک رہتی ہے۔ محنت کش طبقہ کے استحصال میں اور انسانیت سوز سماجی رویوں کی مکمل طور پر حامی بھی ہے۔ وہ اپنے بچوں کو پالنے کیلئے اوراپنا گھر چلانے کیلئے ملازموں کی پوری فوج رکھتی ہے جن کے ساتھ وہ اکثر بدترین سلوک بھی کرتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اگر ہم حکمران طبقہ (بلکہ ہر طبقہ) کے اندرعورت اور مرد کے تضاد کو نہ پہچان سکیں تو یہ ہماری اپنی کمزوری ہوگی۔
اس سوال پر واپس آتے ہیں کہ کیا حکمران طبقہ کی عورت مزدور طبقہ کے استحصال میں برابر کی شریک ہے؟ شریک ضرور ہے لیکن جونئیر پارٹنر کی حیثیت سے۔ ایک سرمایہ دار طبقہ کی عورت (بیوی ، بیٹی) اس فیکٹری کی، پیداواری وسائل کی، یا سرمایہ کی مالک نہیں ہے نہ ہی عموماً وہ اپنی کوئی ذریعہِ آمدن رکھتی ہے۔ جس طرح مزارع اپنے جاگیردار کی زمینوں یا اس کے علاقہ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح وہ بھی ایک سرمایہ دار کی بیوی کے طور پرسماج میں پہچانی جاتی ہے، اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں۔ جنسی تشدد کے واقعات امیر گھرانوں میں بھی تواترسے پیش آتے ہیں۔ جاگیردار طبقہ کی عورتیں، انگریز مالکان کی عورتیں بھی حکمران طبقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ لیکن ستی جیسی روایات ان طبقات میں بھی، بلکہ ان طبقات میں ہی، عام تھیں۔ پردے کی روایت حاکم طبقات کی خواتین پرلاگو ہوتے تھے نہ کہ محنت کش گھرانے کی عورت پر، جس طبقہ کی معاشی مجبوری تھی (اور اب بھی ہے) کہ اس کی عورت (محنت کش مرد کی طرح) گھر سے باہر جائے، مزدوری کرے، اور اپنی حفاظت خود کرے۔ لیکن کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عورت جو کہ بادشاہ کے حرم میں اپنی پوری زندگی گزار دے، جسے باہر نکلنے کی آزادی کے علاوہ دنیا کی تمام آسائشیں اپنے محل کے اندر دستیاب ہوں، کیا وہ پھر بھی غلام نہیں ہے؟ کیا قید کی زندگی چاہے جتنے بھی سنہرے پنجرے میں گزاری جائے، کیا وہ قید نہیں ہے؟
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جیسے جیسے طبقاتی سماج ارتقاء کرتا ہے اور وسائل کی ملکیت کم سے کم ہاتھوں میں جمع ہونے لگتی ہے اتنی ہی زیادہ عورت کی حیثیت گرتی جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ پیداواری عمل سے مزید کٹ کرمرد کی ملکیت بنتی جاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام اپنی تمام تر انفرادی آزادی کے دعوؤں کے باوجود اس بات کا جواب نہیں دے پاتا کہ ہر جگہ جہاں سرمایہ داری نظام پروان چڑھتا ہے وہاں مجموعی طور پر عورت کی سماجی اور معاشی حیثیت بدتر کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ ان تمام ممالک میں عورت کے خلاف تشدد کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہوئے کیوں نظر آتے ہیں؟
دوسرا اعتراض جوکہ یہاں بیان کیے گئے نقطہِ نظر پر اکثر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم طبقاتی لڑائی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ مرد اور عورت کے تضاد پر بات کرنے سے ہم محنت کش طبقہ میں تقسیم پیدا کرتے ہیں اور حقییقی (یعنی طبقاتی) تضاد کو کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی اعتراض قومی تضاد پر بات کرنے والے مارکسسٹوں پر کیا جا تا ہے۔ اس مسئلہ پر مضمون کے آخر میں بات کروں گی۔
بقیہ اگلے شمارے میں
نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلے “طالب علم” میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: لیٹف ۲۰۰۹