(حصہ اول)
عالیہ امیرعلی
ہم سماجیات، تاریخ، معیشت، ثقافت، سیاست(جس سے مراد سیاسی علوم اور سیاسی عمل دونوں ہیں) اور دیگر علوم محض اپنا علم بڑھانے کیلئے نہیں پڑھتے ہیں۔بلکہ ان تمام علوم سے روشناس ہونے کا مقصد بالخصوص سماج کی تبدیلی ہے اور ایک استحصال سے پاک سماج کی تعمیر ہے۔اور استحصال کے خاتمہ کیلئے لازمی ہے کہ ہم اپنے سماج میں موجود استحصال کی تمام شکلوں کی نشاندہی کریں ۔لیکن استحصال کی شکلوں کی نشاندہی کرنے کیلئے پہلے استحصال کی تعریف کرنا ضروری ہے۔
استحصال کیا ہے؟
ویسے تواستحصال ایسا لفظ ہے جو کہ عام بول چال میں بہت سارے مفہوم رکھتا ہے۔عموما ًہر قسم کی ظلم اور زیادتی کیلئے استحصال کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کسی اور کا حق مار کر اپنے آپ کو فائدہ دینا،ایک سطح پر یہ درست بھی ہے لیکن یاد رہے کہ ہم استحصال کی خاص تعریف کرتے ہیں۔
گائے دودھ اپنے بچے کو پلانے کیلئے پیدا کرتی ہے ۔ لیکن ہم بچھڑے کو باندھ کر رکھتے ہیں تاکہ وہ سارا دودھ نہ پی جائے۔ ہم بچھڑے کو صرف اتنا دودھ پینے دیتے ہیں جتنا اسے زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہو۔ باقی ہم اپنے استعمال کیلئے رکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے موجودہ نظام میں تمام اشیاء مزدور کی محنت سے بنتی ہیں۔ لیکن مزدور ان اشیاء کا مالک نہیں ہوتا۔کیوں؟ کیونکہ فیکٹری کا مالک سرمایہ دار ہے لہٰذا اس میں بننے والی اشیاء بھی سرمایہ دارکی (نجی)ملکیت ہیں ۔حالانکہ دیکھا جائے تو مزدور کی محنت کے بغیر وہ فیکٹری اور وسائل کسی کام کے نہیں بلکہ سرمایہ دار کیلئے نقصان کا باعث ہیں ۔ جب یہ مصنوعات منڈی میں بکتی ہیں تو وہ تمام رقم سرمایہ دار کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف مزدور کی محنت کے عوض اسے تنخواہ ملتی ہے، صرف اتنی جوکہ اسے زندہ رکھ سکے(اور اسی تنخواہ میں اسے اپنے گھر والوں کو بھی زندہ رکھنا ہے)۔اسی تنخواہ کو استعمال کرتے ہوئے مزدورکو اپنی ہی بنائی ہوئی اشیاء منڈی سے خریدنی پڑتی ہیں۔ اس طرح مزدور کا استحصال سرمایہ دار کے ہاتھ ہوتا ہے جوکہ مزدور کی محنت سے بنائی ہوئی اشیاء کا مالک ہوتا ہے(کیونکہ وہ ذرائع پیداوار پر قابض ہے) اور جنہیں بیچ کر وہ منافع کماتا ہے۔مسئلہ دراصل یہیں سے اٹھتا ہے: کہ ایک طرف اس چیز کو بنانے والا ہے (مزدور)اور دوسری طرف اس چیز کا مالک ہے(سرمایہ دار)۔ یعنی جب ذرائع پیداوار کی ملکیت اور ان پر محنت کرنے والے دو مختلف گروہوں میں (جنہیں ہم طبقات کہتے ہیں) تقسیم ہو جائےں تو استحصال جنم لیتا ہے۔
لیکن کیا سرمایہ دار بھی آخر محنت نہیں کرتا؟ آخر وہ بھی بھاگ دوڑ کر اچھا خاصہ پیسالگاکر ہی فیکٹری لگاتا ہے سامان منگواتا ہے سارے انتظامات کرتا ہے؟ توکیاپھر سرمایہ داراپنی فیکٹری میں بننے والی مصنوعات کے فروخت سے کمایا ہوا منافع رکھنے کا حقدار نہیں ؟بالکل جیسے کہ مزدور اپنی تنخواہ وصول کرنے کا حقدار ہے؟ اگر مسئلہ مزدور اور سرمایہ دار کی کمائی میں ناہمواری کا ہے توکیا مزدور کی تنخواہ بڑھانے سے استحصال ختم نہیں ہو جائے گا؟ان تمام سوالوں کا جواب ہے نہیں ۔اوراس کی وضاحت ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہے۔
١۔کیا مزدور کی تنخواہ بڑھانے سے اس کا استحصال ختم نہیں ہو جائے گا؟
اگرایک مزدور آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے اور آٹھ گھنٹے کی محنت سے وہ بیس برتن بناتا ہے۔ فرض کریں کہ ہر برتن منڈی میں سو روپے کا بکتاہے ۔ تو مزدورنے آٹھ گھنٹے میں دو ہزار روپے کی اشیاء بنائی۔ مزدور کو دیہاڑ پر رکھا جا تا ہے فرض کریں دو سو روپے دن پر۔ اور وہ پیدا کر رہا ہے دو ہزار روپے میں بکنے والی مصنوعات۔ فرض کریں کہ ان برتنوں کو بنانے والے سامان اور دیگر میٹریل پر سرمایہ دار کا خرچہ بیس روپے فی برتن ہے۔یعنی دن کے حساب سے سرمایہ دار کے چار سو مٹریل پر لگے اور دو سو مزدوری پر۔برتن بکے دو ہزار میں۔لہٰذا سرمایہ دار نے چودہ سو روپے منافع کما لیا۔
چلیں فرض کریں کہ مزدور کی تنخواہ کل سے دو سو کی بجائے چار سو یا آٹھ سو تک بھی کر دی جاتی ہے تو کیا مزدور کا استحصال ختم ہو جائے گا؟ نہیں ۔ کیونکہ ابھی بھی مزدور نے سولا سو(80×20) کی ویلیو پیدا کی (اپنی محنت کے ذریعے)لیکن یہ رقم سرمایہ دار کے پاس جاتی ہے کیونکہ وہ ان اشیاء کا ملک ہے۔مزدور کا اس رقم پر کوئی اختیار نہیں نا ہی اسے اس کے بارے میں کوئی علم ہے۔ مزدور کی تنخواہ تو منڈی کے ریٹ(یعنی منڈی میں انسانی محنت کی قیمت) کے مطابق طے ہوتی ہے۔ سرمایہ دارتو لازمی طور پر تنخواہوں کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کے اخراجات کم سے کم ہوں اور نفع زیادہ سے زیادہ ہو۔ جیسے پہلے بھی ذکر ہوا کہ مزدور کی تنخواہ صرف اتنی ہوگی جتنی کہ اسے زندہ رکھنے کیلئے دینی پڑے۔لیکن ایسی صورتِ حال پیدا کیوں ہوتی ہے؟ آخر مزدور کیوں اتنے سستے دام پر کام کرنے کیلئے تیار ہو جاتاہے؟ کیونکہ اسے زندہ رہنا ہے اورزندہ رہنے کیلئے روزی کمانی ہے۔مزدور کے پاس اپنی محنت بیچنے کے علاوہ زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس کے پاس کوئی زمین یا عمارت یا وسائل نہیں ہیں جن پر وہ کام کر کے اپنی پیداوار کا مالک خود ہو سکے۔اور اگر وہ اپنی محنت سے بننے والے دن کے 1600روپے کا مطالبہ کرے( جسے قدرِ زائد کہتے ہیں جو کہ سرمایہ دار ہڑپ کر جاتا ہے) اور اپنا حق مانگنے کی وجہ سے نوکری سے ہی فارغ کر دیا جائے تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ یہی سوچ کر مزدور اپنی طبقاتی طاقت کو کمزوری میں تبدیل کر دیتا ہے اوراپنے ہی استحصال پر چلنے والے نظام کو چلائے رکھتا ہے۔
٢۔کیا سرمایہ دار بھی محنت نہیں کرتا؟
نہیں ۔ ہمارا نظریہ پیداواری عمل میں محنت کی خاص تعریف کرتا ہے۔ سرمایہ داری میں دو بنیادی طبقے ہوتے ہیں: ایک وہ جو کہ اپنی محنت بیچتا ہے(مزدور) اور دوسرا وہ جو کہ اوروں کی محنت خریدتا ہے(سرمایہ دار)۔ویسے تو ایسے مزدور بھی ہیں جنہیں اپنی محنت بیچنے کے عوض ساٹھ ستر ہزار روپے ماہانہ بھی ملتے ہیں لیکن ہم انہیں مزدور طبقہ میں شامل نہیں کرتے بلکہ اسے متوسط (یا درمیانہ)طبقہ کہتے ہیں یونکہ وہ بیک وقت اپنی محنت بیچ بھی رہا ہوتا ہے لیکن اکثر گھریلو یا دیگر کاموں کیلئے اوروں کی محنت خریدنے کی معاشی طاقت بھی رکھتا ہے اورشائد تھوڑے بہت وسائل کا مالک بھی ہو(چاہے وہ پیداواری یا غیر پیداواری وسائل ہوں)۔اسی لیے” متوسط طبقہ” کے بجائے” متوسط طبقات “کی اصطلاح استعمال کرنا زیادہ مناسب ہے ۔ کیونکہ مزدور طبقہ سے بہتر حالتِ زندگی رکھنے کے باوجود متوسط طبقے کا نچلا حصہ پھر بھی اپنی محنت بیچے بغیر گزارا نہیں کر سکتا جبکہ متوسط طبقہ کا بالائی حصہ اپنی محنت بیچے بغیر بھی اپنے وسائل کے بل بوتے پر زندہ رہ سکتا ہے۔ مزدور طبقہ سے ہماری مراد وہ گروہ ہے جوکہ صرف اپنی قوتِ محنت کا مالک ہوتا ہے اور اسی کو بیچنے پرگزارا کرتا ہے۔سرمایہ دار ی نظام کا انحصارمزدور طبقہ کی محنت خریدنے پر ہے اور اس طبقہ کی بنائی ہوئی اشیاء کوواپس انہی لوگوں کوبیچ کراپنے لیے منافع کمانے پر ہے۔دوسرے الفاظ میں سرمایہ دار طبقہ کا وجود ہی مزدور طبقہ کے استحصال پر مبنی ہے۔ اگر سرمایہ دار اور مزدور کے رشتہ میں سے استحصال کا پہلو نکال دیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ ” سرمایہ دار “اور “مزدور ” طبقات بھی ختم ہو جائیں گے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ استحصال سے پاک پیداواری نظام میں کوئی مزدوری نہیں کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزدور بحیثیت طبقہ ختم ہو جائےگا کیونکہ وہ اپنی محنت کی پیداوار کااور ذرائع پیداوارکااجتمائی مالک ہوگا۔
اگر ہم ابھی تک کی گئی باتوں کو سمیٹیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ استحصال ایک رشتہ یا عمل کا نام ہے۔جس میں ایک فرد یا گروہ کسی دوسرے کی محنت سے پیدا کردہ چیز کو اپنی ملکیت بنا لے اور اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ایک طرف (استحصال کرنے والا) گروہ موجود ہو جو کہ پیداواری ذرائع / وسائل کاخصوصی مالک ہواوردوسری طرف وہ(استحصال زدہ) گروہ ہو جو کہ وسائل کی ملکیت نہ رکھتا ہو۔ استحصال زدہ طبقہ ا اپنی محنت سے استحصال کرنے والے مالک/حاکم طبقہ کے قبضہ میں لیے ہوئے وسائل پر محنت کرتاہے(کیونکہ اسے زندہ رہنا ہے) اور پیداوار کوجنم دیتا ہے۔یعنی ایک طرف استحصال زدہ طبقہ اپنا گزارا چلا رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف حاکم طبقہ کی دولت/طاقت/وسائل میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔اس کی عام مثالیں آقا اور غلام، جاگیردار اور مزارع، اور سرمایہ دار اور مزدور کی دی جاتی ہیں جن سے ہم کافی حد تک واقف بھی ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں اپنے ابتدائی نقطہ پرغور کرنا چاہیئے۔ کہ ہماری منزل استحصال سے پاک معاشرہ ہے۔اس حوالے سے ایک بنیادی سوال ہمارے لیے پیدا ہوتا ہے۔ کہ ایسا سماج تعمیر کرنا ممکن بھی ہے کیا ؟ کیا انسان کی تاریخ میں کبھی ایسا معاشرہ وجود رکھ چکا ہے جس میں استحصال نہ رہا ہو، حاکم اور محکوم نہ رہے ہوں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہرسماج میں ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں استحصال موجود رہا ہےـ؟ اور اگر تاریخ میں کہیں ہمیں استحصال سے پاک معاشرہ ملتا ہی نہیں تو کیا ہم( بے شک نیک نیّتی کے ساتھ ہی صحیح) لیکن حقیقتاً آئیڈیلزم یا خوش فہمی کا شکارنہیں ہیں؟کہیں ہم ایسے سماج کا خواب دیکھتے ہوئے انسان کی “فطرت” سے منہ موڑنے کی کوشش تو نہیں کر رہے (جیسے کہ آج کل کے “حقیقت پسند”دانشور ہمیں بتاتے ہیں)صرف کیونکہ ہماری خواہش ہے کہ ایسا معاشرہ ممکن ہو؟ ان سوالوں کا جواب ہمارے پاس ہونا ضروری ہے ورنہ ہم یقینا اپنی منزل تک پہنچنے سے بہت پہلے ہی اپنے راستے تبدیل کر لیں گے۔
ویسے تو یہ سوال ایک مکمل مضمون مانگتا ہے لیکن مختصر الفاظ میں اس کا جواب ہے نہیں استحصال ہمیشہ سے نہیں رہا۔ انسانی سماج میں استحصالی رشتوں کا قیام نجی ملکیت کے قیام سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی کہ جب سماج میں یہ تفریق پیدا ہوئی کہ ذرائع پیداوار کے مالک اور ہوں گے اور ان پر کام کرنے والے اور ہوں گے ۔ اور جہاں ملکیت اجتمائی سے ذاتی یا نجی ملکیت تک محدود ہونے کی طرف بڑھی تو طبقات وجود میں آئے۔جہاں پر چند انسانوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ پیدا کرنے کی صلاحیت اپنا لی وہاں سے ذاتی ملکیت کی حوس پیدا ہوئی۔ جب اور جہاں پیداواری نظام کا مقصد انسانی ضرورتیں پوری کرنے کے بجائے بالادستی اور ملکیت کی ہوس کو پورا کرنے کیلئے بنا دیا گیا وہاں سے طبقات اور استحصال بھی سماج کا حصہ بنتے گئے اور پیداواری عمل کو حاکم طبقات کی بالادستی قائم کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ہمارے موضوع کے حوالے سے یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ جب طبقات وجود میں آئے، یعنی کہ جب پہلی بار پیداواری وسائل کے مالک اور اس پر محنت کرنے والوں میں تفریق کی گئی وہ غلام داری نظام تھا۔ اور اسی دور میں ساتھ ہی ساتھ مرد کے ہاتھوں عورت کی غلامی بھی شروع ہوتی ہے۔جسے ہم پدر شاہی نظام کہتے ہیں۔اور ایک قوم کی دوسری قوم پر حاکمیت، ایک نسل کی دوسری پر برتری بھی شروع ہوتی ہے۔ جب طبقات وجود میں آتے ہیں تو پہلی بارانسان جانوروں کی طرح منڈی میں بکنا شروع ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ غلام عورت بچہ (یعنی محنت کرنے والے مزید غلام)جننے کی مشین کے طور پر مقید کر دی جاتی ہے اورحاکم طبقات کی اجتماعی ملکیت بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں جنسی تشدد کے بھیانک ترین واقعات انسانی تاریخ میں پہلی بار رونما ہوئے۔دوسری طرف حاکم طبقہ کی عورت آقا کی نسل کوآگے بڑھانے اور اس کی جائیداد کو محفوظ کرنے کیلئے گھر کے اندر قید کر دی جاتی ہے اور حاکم طبقہ کے مرد کی نجی ملکیت بن جاتی ہے۔یہ وہ ہی طبقات کے جنم کا دور ہے جس میں پہلی بار قوم اور نسل کی بنیاد پر انسانوں میں اشرف اور گھٹیا نسل / قوم کے بدنما داغ انسانی تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اور قومی/نسلی بالادستی وجود میں آتی ہے۔
بقیہ اگلے شمارے میں
نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلے “طالب علم” میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: لیٹف ۲۰۰۹
Great content! Keep up the good work!