سندھی سے ترجمہ: رحمت تونیو
کیا انتہاپسندی اور دہشتگردی محض مذہبی ہوتی ہے؟ کیا مذہبی انتہاپسندی کو صرف مذہب یا کسی خاص فرقے کی تاریخ سے ہی سمجھا جا سکتا ہے؟ ہم ایسے نہیں سمجھتے۔
سیالکوٹ کے دل دہلانے والے واقعے کے بعد ہر کوئی مذہبی انتہاپسندی بڑھنے کی بحث کر رہا ہے۔ کوئی ان کو تحریک لبیک سے حکومت کا تازہ معاہدہ یا ریاستی آشیرواد سے جوڑ رہا ہے تو کوئی ضیاء کے اسلامائزیشن پراجیکٹ سے منسوب کر رہا ہے اور کوئی اس واقعے کی جڑیں برصغیر میں سامراجی قبضے سے لے کر بتا رہا ہے۔ بہرحال کوئی کہیں سے بھی انہیں جوڑے مگر ریاست اور مذہب کے رشتے کا سوال ان سبھی میں موجود ہے۔
لہٰذا ریاست اور مذہب کی علیحدگی کا مطالبہ، عوامی و قومی و سیاسی قوتوں کا بنیادی سیکیولر مطالبہ ہو جاتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انتہاپسندی اور دہشتگردی کی ہر شکل اور ان کے آپس میں رشتے کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ہم سمیت عام عوام ایک انتہاپسندی یا دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کیلیے دوسری انتہاپسندی یا دہشتگردی کو حل کے طور پر سمجھ کر اس میں پھنس سکتا ہے، کیونکہ انتہاپسندی کے آکٹوپس کے کئی منہ ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ معاشی و ریاستی دہشتگری اورانتہاپسندی ہے جو معاشرے میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کا بیج بوتی ہے اور جب ( فرقہ واریت اور نسل پرستی کا) وہ فصل تیار ہوتی ہے تو ریاست انہیں اپنے گروہی مفادات کیلیے استعمال کرتی ہے اور اگر وہ ایسا کرنے کے اہل نہیں ہوتی تو انہیں سختی سے مقابلہ کرنے کے لبادے میں اپنی دہشتگردی کو جسٹی فائی کرتی ہے۔ ریاستی انتہاپسندی کے اس ڈرامے سے پہلے معاشی انتہاپسندی اور دہشتگردی اپنا کام کر چکی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر دہشتگردی کا وہ کون سا واقعہ یا بم ہے جس کے باعث دنیا میں ہر روز 25 ہزار لوگ مارے جاتے ہیں؟ جواب ہے بھوک کا بم۔۔۔۔! اب بھوک، بیروزگاری اور بیدخلی کی بیماری میں مرنے والے لوگوں کیلیے صرف دو آپشن ہی بچتے ہیں کہ اپنے پیٹ سے پتھر باندھ کر اپنے جیسوں سے مل کر جدو جہد کرے یا اسی پتھر کو کسی پیسے والے سے 5 روپے لے کر اپنی بھائی کے سر پر مارے! تاہم معاشی انتہاپسندی کے کئی حملوں کے بعد ریاستیں کسی بھی بنیادی سیاسی ہلچل سے بچنے کیلیے خود ہی سماجی دہشتگردی کے راستے کھولتی ہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے ایم آر ڈی کی سزا میں شہروں کے اندر ایم کیو ایم اور نواحی علاقوں میں ڈاکوؤں کو ہتھیار فراہم کر کے مضبوط کیا گیا، بعد ازاں ان کی کمر توڑ کر ریاست کو بطور ہیرو پیش کیا گیا۔ اب تازہ صورت حال میں بھی کسی ایسا ہی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے بھوک بدحالی اور غیر یقینی کی صورتحال مضبوط ہو رہی ہے ویسے ہی حکمرانوں کے داخلی اور خارجی (محکوموں سے) تضادات بھی تیز ہو رہے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی چپقلش کی دو سائیڈیں ہیں، ایک جمہوری اور دوسری فاشسٹ۔
جمہوری سائیڈ عوامی قوتوں کا آپس میں مل کر ایک ہونے کا اظہار کرتی ہے، اس پر تفصیلی بات چیت کسی دوسرے مضمون میں کریں گے۔ جبکہ فاشسٹ سائیڈ ریاست کی طرف سے جبر اور اس کے خلاف ایک سماجی سیاسی پرتشدد انتہا پسند گروہوں کے پھر سے بڑھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی صورت میں ہمیں تحریک لبیک اور آس پاس مسلح قوم پرستوں کے گروپ نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ کے ضلع قمبر شہدادکوٹ کے شہر لالو رائنک میں پی ٹی آئی کے الیکشنی امیدوار، سماجی اور تجارتی شخصیت رانا سخاوت راجپوت کا قتل ہوا، اس قتل کی زمہ داری ایک شدت پسند کلعدم تنظیم نے قبول کی۔ کراچی میں سندھ بار کونسل کے سیکریٹری جنرل عرفان مہر کو ٹارگیٹ کلنگ میں قتل کیا گیا۔ بہرحال تحریک لبیک ہو، ایم کیو ایم، سندھو دیش لبریشن آرمی ہو یا ریوولشنری آرمی، عوامی جمہوری جدوجہد کو روکنے میں ریاستی اور سماجی دونوں انتہاپسندیاں ایک دوسرے کو مضبوط کرتی ہیں۔
جبکہ پنجاب اور سندھ میں انتہاپسندی اور دہشتگردی کا فرق یہ ہے کہ اول الذکر کو پھر بھی قانونی بنایا جاتا ہے مگر بعدالذکر کیلیے کوئی پیکیج نہیں۔ حتی کہ جسقم آریسر جیسی جماعتوں پر بھی پابندی عائد کر کے انتہاپسندانہ سیاست کیلیے اور راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کا فرق تب بھی ظاہر ہوتا ہے جب فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں طارق جمیل کے مان میں سرکاری سطح پر تقریب منعقد کی جاتی ہے اور اسی ہی دن سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام میں ثقافتی دن منانے والے پرامن ایک سو بیس طلبہ پر غداری کے پرچے کاٹے جاتے ہیں اور زرعی یونیورسٹی کے ساتھ سندھ یونیورسٹی میں بھی دو طالب علموں پر ایف آئی آر دائر کر کے اور کئی طلب علموں کو شوکاز نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ شوکاز نوٹس میں بھی قانونی اور جمہوری اقدار کی پامالی نظر آتی ہے۔ پہلے طلبہ پر ملک سے غداری کا الزام لگا کر پھر انہیں پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد یا گھر کے بڑے کے ساتھ پیش ہوکر وضاحت پیش کریں۔
جبکہ طلبہ کے سامنے کمیٹی میں یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ خفیہ اداروں کے لوگ بھی بیٹھ کر سوالات کر رہے ہیں۔ یہ شاید سندھ کی یونیورسٹیوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہوگا کہ ثقافتی دن منانے اور جیئے سندھ کہنے کے جرم میں طالب علموں کو ایسے ہراساں کیا جا رہے۔ کسی نے درست کہا تھا کہ اگر آپ ایک آدمی کو قتل کرو گے تو ریاست آپ کو گرفتار کرے گی، اگر آپ سینکڑوں لوگوں کو قتل کرو گے تو ریاست آپ سے مزاکرات کرے گی اور اگر ہزاروں لوگوں کو قتل کرو گے تو اس کا مطلب کہ ریاست آپ خود ہی ہو۔
لہٰذا ریاست، نوکرشاہی (بیوروکریٹس) کی یہ وہ کمیٹی ہے جو حکمران طبقے کی سیاسی جماعتوں سے مل جل کر خود سمیت مذہبی اور نسلی انتہاپسندوں، دہشتگردوں، جاگیرداروں اور ملک ریاض جیسے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور ہزاروں لوگوں کو معاشی، نسلی، مذہبی و ریاستی دہشتگردی اور انتہاپسندی کی آگ میں جھلسا دیتی ہے، ردعمل میں جب مزدور اور محکوم قوم کے لوگ پرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے آئینی مطالبات کرتے ہیں تو ان پر دہشتگردی کے مقدمات لگاتی ہے۔
ن ليگ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا پنجاب اور پختونخوا کے سرمایہ داروں اور مذہبی انتہاپسندوں سے قریبی تعلق ہے تو پی پی پی اور جی ڈی اے سندھ کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جماعتیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ طبقات ہیں جن کی دہشتگردی، انتہاپسندی اور بربریت، بحریا ٹاؤن، ڈی ایچ اے اور حال ہی میں ناظم جوکھیو کی شہادت والے واقعات میں ہمارے سامنے ہیں۔
یہ تو ہوئے انتہاپسند اور فاشسٹ قوتوں کے طریقے کار مگر اس کے جواب میں عوامی اور قومی سیاست کیا رہی ہے؟ اگر ان پر ایک نظر ڈالیں تو اکثر پارٹیاں مذکورہ حکمرانوں کی سیاسی جماعتوں کی بی ٹیم بن کر چلنے کو ہر وقت تیار ہوتی ہیں۔ حال ہی میں جیمسٹ سیاست سے منسلک دو تنظیمیں، جسقم بشیر خان اور جیئے سندھ محاذ (ریاض چانڈیو)، مذہبی تنظیم کے اسٹیج پر نظر آئیں۔ یہ اکیلے نہیں، بلکہ کچھ ارباب غلام رحیم کے تعاون سے پی ٹی آئی سے قریب ہو رہے ہیں تو کچھ شاہ محمد شاہ کی مہربانی سے ن لیگ کی دوستی میں آ رہے ہیں اور کچھ ظاہری لفاظی کے پیچھے پی پی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم سوشلسٹ اور کمیونسٹ پنجاب اور پختونخوا سمیت ملک کے مزدور طبقے سے ایک ہونے کی بات کرتے ہیں تو پنجاب کے ایجنٹ ہوجاتے ہیں! لیکن سندھ کی بیشتر قوم پرست سیاست پنجاب اور پختونخوا کے حکمران طبقے (پی ٹی آئی، ن لیگ، جے یو آئی اور خفیہ سرکار) سے ظاہری اور خفیہ اتحاد بنا کر بھی خود کو محب وطن کہلاتی رہی ہے۔ اگرعوامی، قومی، سیاسی قوتیں کمزور ہی سہی لیکن اپنے پاؤں اور سیکولر بنیادوں پر کھڑی ہو کر ہم خیالوں سے اتحاد میں سامراج، سرمایہ دار اور جاگیردار مخالف جدوجہد کو آگے نہیں بڑھائیں گی تب تک ان کی حیثیت بھی عام انسانوں کی طرح اقتدار کے شطرنج میں پیادے والی رہے گی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی و معاشی انتشار بڑھتا ہے تو رجعتی نہیں بلکہ انقلابی قوتوں کے کام کے بھی امکانات بڑھتے ہیں۔
قومیں راتوں میں انقلابی سے فاشسٹ (مسولینی کا اٹلی اور خمینی کا ایران) اور فاشسٹ سے انقلابی (لینن کا روس اور فڈیل کا کیوبا) بن سکتی ہیں۔ اس لیے عوامی قوتوں کو اپنا کام اور نظر دونوں تیز کرنے پڑیں گے۔ ریاست اور سماج ایک پیچیدہ کُل ہے، اس سطحی وحدت کے اندر تضادات کی کثرت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ اور محنت کا تضاد، ریاست اور سماج کا تضاد، سول اور عسکری نوکر شاہی کا تضاد، سامراج یا مرکز اور آس پاس کا قومی تضاد، پدرشاہی اور صنفی برابری مانگنے والی قوتوں کا تضاد وغیرہ۔ یہ مختلف تضادات حل ہونے میں چاہے مختلف رویوں کی مانگ کریں لیکن ایک ہی انقلابی جدوجہد کی تقاضا کرتے ہیں، جیسے ماؤ زی تنگ نے لکھا تھا کہ “ صفتی طور پر مختلف تضادات کو صفتی طور پر مختلف طریقوں سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مزدوروں اور سرمایہ داروں کے تضاد کو سوشلسٹ انقلاب کے طریقے سے حل کیا جائے، وسیع عوام اور جاگیردارانہ نظام کے تضاد کو جمہوری انقلاب کے ذریعے، نوآبادیات اور سامراجیت کے بیچ تضاد کو قومی انقلابی جنگ سے، مزدوروں اور کسانوں کے تضاد کو زراعت میں اجتماعیت اور مشینی بنانے سے حل کیا جائے، کمیونسٹ پارٹی کے اندر تضاد کو تنقید اور خود تنقید کے ذریعے، سماج اور فطرت کے تضاد کو پیداواری قوتوں کو ترقی دینے سے حل کیا جائے۔” اگرچہ نہیں تو وہ بھی ماؤ کا ہی کہنا ہے کہ “ناداں عوام دشمن کی فوج ہوتی ہے۔” جیسا کہ سیالکوٹ میں تازہ واقعے سے ثابت ہوا۔
بخشل تھلہو