رپورٹ
معاشرتی سطح پر عورتوں کی پسماندگی اور معاشی، سیاسی و سماجی حقوق سے محرومی کی وجہ ہمارا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانی نظام ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کی عورت خاص طور پر معاشی و سماجی حقوق سے محروم ہے۔ ایک بڑی وجہ ملک کے طول و عرض کے پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نا دیا جانا، اس میں رکاوٹیں اور انتظامیہ کی نا اہلی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں بائیس ملین سے زائد بچوں کو سکول تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
ہم نے ہر شعبے میں انگریزوں سے چیزیں وراثت میں لی ہیں اور تعلیمی نظام بھی ان میں سے ایک ہے۔ انگریزوں نے ہمیں مُنشی اور کلرک پیدا کرنے کے لیے ایک تعلیمی نظام دیا تھا اور ہم آج تک اس ہی کو پکڑے ہوئے ہیں۔ انگریزوں نے بھی اپنے بچوں کے لیے کچھ سکول بنائے ہوئے تھے آج ہمارا اعلیٰ طبقہ بھی یہ ہی کر رہا ہے۔ وہ ہائی سکول کے بعد اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے باہر بھیج دیتے ہیں اور انہیں پاکستان کے تعلیمی نظام سے لگاؤ ہی نہیں ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے۔ تعلیم میں فوری کوئی تبدیلی لانی ہوگی ورنہ ابھی ہم سو سال پیچھے ہیں اور اگر اس رفتار سے ترقی ہوتی رہی تو دس سال بعد ہم دو سو سال پیچھے ہو جائیں گے۔
ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم میں کافی مسائل درپیش ہیں جن میں تنگ نظری، بےلچک معیار، فرسودہ روایات اور مردوں کی اجارہ داری لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں۔ ساتھ ہی بتایا گیا کہ بنیادی سہولیات کی کمی جیسا کہ باؤنڈری وال، واش روم، پینے کا پانی نہ ہونے کے باعث لڑکیاں سکول چھوڑ دیتی ہیں۔ معاشرے کے سماجی، سیاسی اور مذہبی معیار خواتین کی معاشرے میں پہچان پیدا کرنے میں رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ سندھ کے دیہی اضلاع میں لڑکیوں کا پرائمری کے بعد سکول چھوڑنے کا ایک سبب مڈل، سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کی کمی ہے۔ غربت اور کم آمدنی کی وجہ سے خاندان بچیوں کی تعلیم پر خرچ کرنے سے قاصر ہیں۔ علاوہ ازیں، چائلڈ لیبر خاندان میں آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے لہٰذا بیشتر والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے کی بجائے کام پر بھیجتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق سال سندھ میں ’آؤٹ آف سکول چلڈرن‘ ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بچوں کا سکول چھوڑ جانا، بالخصوص لڑکیوں کا، ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ بچے جب پرائمری تعلیم مکمل کرتے ہیں تو سیکنڈری میں جانے کے بجائے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔
حال ہی میں گرلز کالج سکردو کے باہر سینکڑوں طالبات نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کالج میں داخلہ نہ ملنے پر احتجاج کیا۔ پورے بلتستان میں خواتین کے لیے ایک ہی کالج ہے۔ لڑکیوں کے تمام داخلوں کا انحصار صرف اس واحد ادارے پر ہوتا ہے جس کی اعلیٰ میرٹ کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں طالبات کالج میں داخلہ لینے سے قاصر ہوتی ہیں۔ طالبات کے لئے مزید کالج بنانے چاہیئیں کیونکہ تعلیم ہر طالب علم کا بنیادی حق ہے۔
اسی طرح سوات گرلز ڈگری کالج سیدو شریف دو تحصیلوں یعنی تحصیل بابوزئی اور تحصیل بریکوٹ کے طالبات کے لئے واحد کالج ہے اور اندازے کے مطابق ان دوتحصیلوں میں طالبات کی تعداد 7 لاکھ سے زائد ہے۔ ہر سال محدود سیٹوں کی وجہ سے کئی ہزار طالبات حصول تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔ اسی سال 2021 میں بھی اس کالج میں داخلہ نہ ملنے پر 2800 طالبات کا کیریئر داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہ نااہل حکمران 2013 سے کہہ رہے کہ ہم نے پختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی ہے۔ کیا یہ ہے آپ کی تعلیمی ایمرجنسی ؟