یوسف حسن
عالمی سماجی تاریخ کے جدید دور خصوصاً 1840ء کے بعد سے دنیا بھر کی ترقی پسند سیاسی پارٹیاں جہاں اپنے اپنے منشور اور دستور مرتب کرتی چلی آ رہی ہیں۔ وہاں اپنے ورکروں کی تعلیم و تربیت کا کوئی نہ کوئی انتظام بھی کرتی ہیں۔ پارٹی ورکروں کی تعلیم و تربیت کے موضوع سے متعلقہ بہت سے نکات ہیں۔ صرف تعلیم سے متعلقہ کچھ ممکنات یہ ہیں۔
۔1 پارٹی ورکروں کی تعلیم کے مقاصد
۔2 پارٹی ورکر متعلمین کی تخصیص
۔3 پارٹی ورکروں کی تعلیم کا سلیبس یعنی ان کو کیا پڑھایا جائے۔
۔4 تعلیمی سلیبس سے متعلقہ تعلیمی اور معاون تعلیمی مواد کا تعین اور فراہمی۔
۔5 پارٹی ورکروں کو تعلیم دینے کے طریقے
۔6 پارٹی ورکر متعلمین (سیکھنے والے) کے معلمین (سکھانے والے)
پارٹی ورکروں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں علمی مواد بہت کم میسر ہے۔ مذکورہ بالا نکات میں ایک دو نکات پر کچھ باتیں پیش ہیں تاکہ ان سارے نکات پر مل جل کر سوچنے سمجھنے کے سلسلے کی ابتدا ہو سکے۔ پارٹی ورکروں کی تعلیم کے مقاصد سے بات شروع کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مقاصد بنیادی طور پر پارٹی ہی کے بعید یا فوری مقاصد ہوتے ہیں۔
دنیا بھر کے محنت کشوں کا اعلیٰ ترین مقصد ایک ایسی غیر طبقاتی سماجی تشکیل کو وجود میں لانا ہے، جس میں قدرِ تبادلہ کے قانون اور عدد تبادلہ کے سماجی رشتے کا خاتمہ ہو جائے اور ہر فرد کو اپنی ذہنی/روحانی اور طبعی صلاحیتوں کی آزادانہ نشوونما کے مواقع میسر ہوں اور اس کی انفرادیت زیادہ سے زیادہ ثروت مند ہو سکے۔
اس اعلیٰ ترین مقصد کا بعید ہونا اس پر منحصر ہے کہ کوئی سماج کس تاریخی مرحلے میں ہے۔ کسی پارٹی کے منشور میں زیادہ تر اس کے فوری مقاصد ہی درج ہوتے ہیں۔ جو بعید یا اعلیٰ ترین مقاصد کی طرف لے جانے کی راہ ہموار کرتے ہیں انہی بعید اور فوری مقاصد کے تحت پارٹی ورکروں کی تعلیم کا سلیبس ترتیب دیا جاتا ہے۔ پارٹی ورکروں کی تعلیم کے سلیبس کے نکتہ کی طرف آئیں تو عمومی طور پر تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ پارٹی کے بعید اور فوری مقاصد کی مطابقت میں ہو لیکن سلیبس کے مواد کے چناؤ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
پچھلے برسوں میں مجھے برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا سلیبس پڑھنے کا موقع ملا۔ جو اس پارٹی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ یہ سلیبس سولہ اسباق پر مشتمل ہے اور ہر سبق میں تقریباً دس سوالات ہیں اور ہر سوال کا آٹھ دس سطروں کے پہرے کی صورت میں جواب دیا گیا ہے۔ کل سوالات ڈیڑھ سو کے قریب ہیں۔ سوالات اس نوع کے ہیں کہ سماج کیا ہوتا ہے؟ برطانیہ میں کون کون سے سماجی طبقات موجود ہیں؟ قدر زائد کیا ہوتی ہے؟ سامراجیت کیا ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ برطانوی سماج ایک ترقی یافتہ سرمایہ دار صنعتی سماج ہے۔ جس میں اب قبائلی اور جاگیرداری سماجوں کی باقیات موجود نہیں ہیں۔ شرح خواندگی کی سطح بہت بلند ہے اور اس کے ساتھ وہاں جدید فلسفیانہ فکر کی روایات بھی مضبوط ہیں۔ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا اپنے نئے ورکروں کی تعلیم کا سلیبس پڑھ کر حیرانی اس بات پر ہوئی کہ اس میں فلسفے کا کوئی ایک سوال بھی شامل نہیں ہے۔
برطانوی سماج کے مقابلے میں ہمارا پاکستانی سماج بہت پس ماندہ ہے۔ہمارے سرمایہ دار بھی سامراج کے گماشتہ سرمایہ دار ہیں اور قبائیلیت اور جاگیرداری کی باقیات بھی ابھی تک توانا ہیں۔ شرح خواندگی کی سطح بھی بہت نیچی ہے اور جدید فلسفیانہ فکر کی روایات بھی نہایت کمزور ہیں۔ سماجی، تاریخی اور علمی و فکری پس ماندگی کے اس سماج میں جب ہم پاکستان کی ترقی پسند سیاسی پارٹیوں یا سیاسی گروہوں کی طرف سے اپنے ورکر کی تعلیم کے لئے تجویز کیے گئے سلیبس پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اتنے پس ماندہ سماج پارٹی ورکروں کی تعلیم کا آغاز سادہ سادہ غیر فلسفیانہ سوالات و جوابات کی بجائے جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت کے فلسفوں سے کیا جاتا رہا ہے یا کچھ پارٹیوں میں اب بھی وہیں سے آغاز کیا جاتا ہے۔
جدلیاتی مادیت (ڈائلیکٹل میٹریلزم) ایک بہت مشکل موضوع ہے۔ جس پر صحیح معنوں میں عبور رکھنے والے دانشور پاکستان میں کوئی گنے چنے ہی ہوں گے۔ جدلیاتی مادیت، فطرت کی فلسفیانہ جنرل سائنس ہے، جو کسی خصوصی فطری سائنس کا متبادل نہیں ہے۔ ساری خصوصی سائنسوں کے لئے ایک پائلٹ سائنس کا مرتبہ رکھتی ہے۔جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر عبور رکھنے والوں کے مقابلے میں جدلیاتی مادیت کے بنیادی تعلقات کے بارے میں معلومات رکھنے والوں کی تعداد شاید کچھ زیادہ ہو۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں پرانے اور نئے کتنے دانشور ہیں جو جدلیاتی طرزِ فکر پر دسترس رکھتے ہوں۔ ہمارے دانشوروں نے مطالعے اور مشاہدے کے جدلیاتی طریقہء فکر کے سیکھنے اور سکھانے کی کبھی کوئی بڑی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ حلانکہ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ پڑھانے سے زیادہ ضروری جدلیاتی طریقہء فکر سیکھنا سکھانا ہے۔ لیکن حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے دانشور بھی جدلیاتی منطق کی اصطلاحات مثلاً مجرد اور مقرون کو جدلیاتی معانی کے بجائے روایتی منطق کے معانی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
سوویت یونین کے ایک بڑے جدید مارکسی ایوالڈ ایلینکوف نے بچوں کی تعلیم پر اپنے مقالے میں اسی امر پر زور دیا ہے کہ بچوں کو جدلیاتی طریقہء فکر کی ضرور تعلیم دی جانی چاہیئے۔ ہمارے ترقی پسند دانشوروں کو بھی اس نکتے پر غور کرنا چاہیئے کہ آیا جدلیاتی طریقہء فکر کی تعلیم و تدریس پارٹی ورکروں کے تعلیمی سلیبس میں شامل ہو یا نہ ہو۔
انیس سو نوے کے بعد سے عالمی سرمایہ داری کے ایک نئے مرحلے میں نمایاں رہی ہے اور ۱۹۹۰ء میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں اشتراکیت کی مخصوص صورتوں کا انہدام ہوا ہے۔ ان دونوں تغیرات کے اثرات سارے قدیم و جدید سماجوں پر پڑے ہیں۔ اور جو ایک بہت بڑے پیمانے پر ترقی پسند قوتوں کی داخلی اور خارجی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور دوبارہ نظریاتی اور عملی جدوجہد کی تنظیم اور توسیع کے جو نئے تقاضے سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر ہمیں پارٹی ورکروں کی نظریاتی تعلیم اور عملی تربیت کے سارے پہلوؤں سے متعلقہ نکات پر نئے سرے سے غور کرنا ہے۔ قدیم مثبت روایات کی توانائی کو نئی توانائیوں میں شامل کر کے اگے بڑھنا ہے۔ اس سلسہ عمل میں اپنے پارٹی ورکروں کی تعلیم کے مواد اور طریقوں میں بھی ترمیم و اصلاح ضروری ہو گئی ہے۔
یہ مضمون اس سے پہلے “عوامی مزاحمت” کے نومبر ۲۰۱۴ء کے شمارے میں چھپا تھا۔
آرٹ ورک: پیٹے ریلینڈ