نوجوان ذہن مسخ کرتا ہمارا تعلیمی نظام

سپیکر : نوم چومسکی
مترجم : دانش کمار

سوال: آپ ہماری اس نام نہاد جمہوریت میں میڈیا کے کردار پر بہت کچھ بات کر چکے ہیں۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوتا ہے، جو میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ اس سارے نام نہاد جمہوری نظام میں ہماری تعلیم کا کیا کردار دیکھتے ہیں؟ وہ اس وقت کیا کر رہا ہے؟ کون سی قوتیں اسے چلا رہی ہیں؟ اس میں کون سی رکاوٹیں ہیں اور اسے کس طرح کام کرنا چاہیے؟

نوم چومسکی: میں نے پہلے ہی سہ رخی کمیشن کی تحقیق  “تعلیمی نظام پر ایک نظر ” کا ذکر کیا جس کے مطابق تعلیم کو نوجوانوں کی ذہن سازی کا نظام” کہا گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست بھی ہے۔ یہ تعلیمی نظام نوجوانوں کی ذہن سازی کا نظام ہی تو ہے۔ لبرل اشرافیہ بھی اسے ایسے ہی دیکھتی ہے، اور وہ بھی اسے کم و بیش یہی اہمیت دیتے ہیں۔ سو اس تعلیمی نظام کا مقصد ہی یہی ہے، لوگوں کو فرمانبردار عقیدت مند بنانا، جو زیادہ نہ سوچیں اور خاموش رہیں، جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور سوال نہ اٹھائیں۔ بنیادی طور پر یہی باتیں ہیں جو موجودہ تعلیمی نظام ہمیں سکھاتا ہے۔ بھلے ہم کہیں کہ یہ نظام کتنا “بےوقوفانا” ہے، مگر نتائج حاصل کرنے میں بالکل پر اثر ہے۔ یہ لوگوں کو چھان بین کر ان میں سے اس نظام کے لیے سب سے زیادہ فرماں بردار لوگوں کا انتخاب کر کے انہیں اوپر لاتا ہے۔ فرض کریں آپ ملکی اسٹیبلشمنٹ  ہیں جنہوں  نے یہ نظام اپنی پسند بلکہ ضرورت کے مطابق مرتب کیا ہے تو آپ تسلیم کریں کہ یہ تعلیم نظام بہت احمقانا ہے۔ جیسا کہ ناکاره اسائمینٹس، بیوقوفانا پریزینٹیشنیں اور مزاحکہ خیز بےمقصد تقریری مقابلے اور اس جیسی اورچیزیں تو پھر یقین جانیں اس میں سے جو ذہن پیدا ہوئے وہ آپ اور مجھ جیسے ہی ہوں گے۔ نام نہاد کامیاب رول ماڈل۔ جو اس چیز سے اتفاق رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بھلے یہ نظام اور اس کا نصاب کتنا بھی ناکارہ اور بیوقوفانا ہو پھر بھی ہم اس کے تحت ہی چلتے رہیں گے کیونکہ ہمیں اس نظام میں ایک قدم آگے رکھنا ہے (ایک درجہ پاس کرنا ہے )اور آپ کو پتا بھی ہے کہ یہ اسائنمینٹ کتنی بکواس اور کم عقلانا ہے اور اس حد تک کے اسائنمینٹ دینے والا بھی اسے کاغذوں کی  گھٹھڑی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا پھر بھی آپ ہر صورت میں اسے مکمل کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ یہ آپ کو موجودہ تعلیم کے اگلے درجے تک لے جائے گی۔ اور ایسے ہی آپ کو اس نظام میں اپنی مرضی کے خلاف آگے پیچھے ہونا پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہم یہ نہیں کریں گے، یہ ایک ناکارہ اور بیوقوفانا کام ہے، اور پھر ایسے لوگوں کو “بد اخلاق اور بد تمیز” سمجھا جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کا انجام پرنسپل آفس میں ڈانٹ کھانا  یا گلیوں میں سڑک ناپنے تک رہ جاتا ہے۔

ایسے سمجھیں کہ یہ تعلیمی نظام آپ میں سے بڑھ کے فرماں بردار بندے انتخاب کرنے کی ایک ٹیکنیک ہے، مجھے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں لیکن مجھے اس چیز کا شدت سے احساس ہے کہ جب آپ اشرافیہ کے جوڑے ہوئے اداروں میں جاتے ہیں تو وہاں آپ کو زیادہ فرماں بردار اور جی حضوری کرنے والے ہی ملیں گے۔ وہاں آپ کو ایسے طلبہ ملیں گے جنہوں نے اپنے تعلیمی کیریئر میں چاپلوسی کرنے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہو۔ کہنے کا مطلب یہ کہ یہ نظام جو کرنا چاہتا ہے، بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔ اس کا کام کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اور پھر گریجویٹ لیول پر یہ کام مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ مجھے دکھ سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں جو فرق آپ کو نظر آئے گا وہ فقط اس لیے ہے کہ یہاں اس نظام میں موجود تضاد ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اب یہاں پر یہ مسئلہ سر اٹھاتا نظر آتا ہے کہ اب آپ پہلے کی طرح ان کے اصولوں کی آبیاری نہیں کر سکتے خاص کر سائنس اور انجینیئرنگ میں ۔ کیونکہ کاروباری کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو اس سطح پر اب ایسی  بیوقونی درکار نہیں جو پہلے آپ کو سکھائی گئی۔ اس سطح پر اب انہیں آپ کی تخلیقی صلاحیتیں درکار ہیں اور اگر وہ آپ میں عدم موجود ہیں، اگر آپ کے پاس جدید یت نہیں یا اس نظام نے مار دی ہے تو آپ بہت مشکل میں پھس چکے ہیں۔ کیونکہ اب آپ اسی رٹے بازی اور پہلے کی پڑھائی ہوئی چیزوں کی نقل کر کے ان کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ اب آپ کو ہر وقت سوال اور غوروفکر کرنا پڑے گا، ہر اس چیز پر سوال اٹھانا پڑے گا جو آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں۔ اب آپ کو نئی چیزیں سوچنی پڑیں گی اور یہی اصل تضاد ہے۔ اب یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ ان لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لائی جائے، اور انہیں نئے طریقے سے سوچنا اور چیزوں پر سوال اٹھانا سکھایا جائے، جن کو اس سے پہلے سماج اور عام روایتی زندگی کے ہر معاملے میں فرماں بردار رہنا اورسوال نہ کرنا سکھایا گیا ہو، اسی لئے آپ کو مشکلات پیش آتی ہی ہیں۔ جاپان میں بھی ہیں مسئلہ  درپیش ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں جاپان ٹیکنالیوجی میں سپر پاور ہے مگر نہیں! یہ بات بہت گمراہ کن ہے اور حقیقت کے برعکس ہے۔

مثال کے طور پر جاپان سائنس میں بہت پیچھے ہے اور یہ انہیں پتا ہے۔ یہ سب اسی نظام کی بدولت ہے۔ جو انہیں اچھا فرماں بردار، نوکر، مزدور اور اچھا ورکر بناتا ہے، ایک فرماں بردار سماج کا حصہ، ایک سوال نہ کرنے والے طابع سماج کا حصہ۔۔۔ مگر یہی مسئلہ یہاں پر بھی ہے اور وہی تضاد ہیں جو جب آپ گریجویٹ  سکول میں پہنچتے ہیں تو آپ کے سامنے مشکلات کی صورت میں ابھرتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ مسائل نظریاتی سبجیکٹ میں کم سے کم در پیش آتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان سبجیکٹس کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ یہاں پر اس بات کی فکر کم ہوتی ہے کہ کون کتنا الجھا ہوا ہے کیونکہ یہ مضمون کاروباری نوعیت کے نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر تار یخ دان فرانسیسی انقلاب کے بارے میں حقیقی خیالات رکھنے سے کون سے بڑے معاشی فوائد اٹھا سکتے ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ اس سطح پر جب آپ گریجویٹ سکول پہنچتے ہیں تو آپ کے سامنے اس نظام کے پیدا کئے ہوئے فکری تضادات ابھر کر سامنے آتے ہیں اور تھوڑا بہت آپ کو  نچلی سطح  پر بھی اس کا تجربہ  ہوتا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ وہاں پر بھی ایسے اساتذہ  موجود ہوتے ہیں جو سوچنے اور سوال کرنے پر آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ اس میں کامیاب بھی  ہو جاتے ہیں۔ اس سارے عمل میں آپ کو یہ احساس ہو گا کہ اسی چیزیں سیکھنے پر آپ کا اپنے اوپر اختیار کم چل رہا ہے اور آپ اسے الٹی کر کے باہرنہیں نکال سکتے۔ آج کل آپ دیکھیں گے کہ سکولوں  کو عسکری  طرز پر بنانے  کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور معاشرے میں بھی اس کی حمایت  نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر ایلن بوم ( امریکی فلسفی) کی ایک کتاب  پچھلے کچھ سالوں میں کچھ زیادہ بکی، جو سپر مارکیٹ میں ہر جگہ موجود تھی، جس کا نام “امریکی ذہنوں کا مفلوج ہونا” تھا، میں نے بھی لی اور پڑھی اور آپ دیکھیں، وہ کہتا کیا ہے۔ اس میں بہت جذبانی با تیں موجود ہیں۔ جس میں وہ  کہتا ہے کہ ہمارے پاس چند ایسے ذہین لوگ موجود ہیں جو ہم سب کے لئے فیصلہ  کرتے ہیں کہ ہمارے لئے عظیم سوچ رکھنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے اور ہر طالب علم ان کی گنی گنائی عظیم اور قدیم باتوں کا رٹا لگانے میں لگا ہوا ہے۔ اور اس کو ہی ہمارے ہاں تعلیم کہا جاتا ہے اور آپ مانیں یا نا مانیں  لوگوں کو تقلید پسند بنانے کا یہی مؤثر طريقہ ہے۔ میرا مطلب ہے جب انہیں عظیم خیال اپنانے کا کہا جاتا ہے تو وہ یہی سوچتے ہیں اور یقیناً ان کے پاس اس کے متبادل اور کوئی طریقہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنے نصاب سے ہٹ کے کچھ سوچ سکیں۔ یہ نظام انہیں اتنا کھوکھلا بنا دیتا ہے اور میں سمجھتا ہوں میں اس مروجہ تعلیم کا اصل مقصد ہے۔

ہاں بالکل! ان کا مقصد سماج اور چیزوں پر اپنا ضابطہ اور اختیار لاگو کرنا ہے۔ وہ آپ کے لیے اس چیز کا انتخاب کرتے ہیں کہ  آپ کے لئے عظیم سوچیں کیا ہیں۔ کامیابی کے سچے اصول فلاں ہیں اور باقی سب بکواس ہے بس صرف یہ سیکھو۔ آپ  کے لئے یہی بہتر ہے۔ میں تمھارے لئے سوچ کا انتخاب کروں گا اور تمہیں رٹا لگانا ہے بس! بنیادی طور پر یہی ان کا طریقہ ہے اور یقیناً یہ حقیقی تعلیم کے مکمل بر عکس ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ کوئی مقدس کتاب وغیرہ پڑھتے ہیں۔ اور یہ ہمارے جمہوری نظام کی بحرانی حالت میں موجود بنیادی تضاد وں کا عکس ہے۔

اصل میں اس کتاب کے مصنف ایلن بلوم کے اوپر ایک حادثے کا اثر ہے۔ جب وہ کارنیل یونیورسٹی( نیو یارک) میں پروفیسر تھا جہاں پر کچھ افریکی۔امریکی طلبہ  نے انتظامی عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا، اور اس نے اس وقت کہا تھا کہ (جرمن فاشسٹ) دور میں واپس چلے گئے ہیں، یہ نازیوں کا ہی طور طريقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور آپ د یکھیں کہ وہاں جو کچھ بھی ہوا اس نے اس کے اوپر یہ اثر ڈالا کہ نازیوں نے بھی ہائیڈ نبرگاس وقت کے جرمن صدر کو محسور اورمجبور کر دیا تھا تو اس کی نفسیاتی حالت سمجھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ایسے بالکل نہیں تھا۔ ان افریکی امریکیوں کا غصہ و غضب غیر حقیقی نہیں تھا، بے شک انھیں ایسے نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ یہ درست طریقہ نہیں تھا کہ عمارت کو ہتھیاروں سے حملہ کر کے قبضہ کیا جائے۔ اور یہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل بھی ہو گیا، کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان کی رنجش کو پر امن طریقے سے حل  کیا گیا اور اس کا ایک بہتر نتیجہ بھی نکلا۔ لیکن ایلن نے اسے ایسے نہیں لیا بلکہ میرے مطابق اس کی سوچ زیادہ جارحانہ تھی۔

آپ جانتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی کو ادب میں کس طرح بیان کیا گیا ہے۔ جیسے کہ طالب علم ادھر ادھر حملے کر رہے ہیں، تہذیب کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقتاً ہو یہ رہا تھا کہ وہ سارے سماجی نظام کی خامیوں اور نا انصافیوں پر سوال اٹھا رہے تھے۔وہ سوال کر رہے تھے۔ وہ حالات کو ایک ایسے نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے جو نیا تھا اور اس سے پہلے اور کسی نے ان پر ایسے نہیں سوچا تھا۔ وہ فرمان بردار نہیں تھے اور ان کا سوچنے کا سوال کرنے کا یہ عمل بہت سے لوگوں کے لئے عمارتیں جلانے کے مترادف تھا اور نقطہ نظر کا یہ چھوٹا سا فرق کتنا بڑا ہنگامہ مچا سکتا ہے۔

مطلب کہ ہم پر حکومت کرتے امیر طبقے، ان کے مددگار حکومتی ادارے، کاروباری کارپورشنیں اور کمپنیاں ہمارے تعلیمی نظام کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ وہ ہمارے ذہن فرماں بردار اور نوکروں کی طرح گھڑتے ہیں۔ یہ سارا تعلیمی نظام اور ترتیب دیا ہوا نصاب، یہ تعلیم کے سب مروجہ طریقے ہمارے نوجوانوں کو موجودہ حکومتی کاروباری نظام میں فرماں بردار اور جی حضوری  کرنے والا بنانے کے ساتھ ان کی دماغی تخلیقی صلاحیتوں کو مسخ کرنے میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑتے یہاں آپ صرف وہ بن سکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں نا کہ وہ جو آپ چاہو۔

لیکن یاد رکھیں انسانی ارتقاء کا پورا نظام غیر رویاتی سوچ اور انکار پر مشتمل ہے۔ یہ ساری انسانی تہذیب اور ترقی اس انکار کا ہی ثمر ہے۔ ان بےپرواہ سوال کرنے والوں کی ہی بدولت انسانی تہزیب اس معراج پر پہنچی ہے لیکن وہ ابھی بھی غیر مساوی ہے اس لئے اسے انسانی ترقی نہیں کہا جا سکتا فقط ایک بے ڈھنگی اضافیت ہی ہے۔ ہماری جمہوریت، سماج، میڈیا، تعلیم سب اس غیرمساویت کا عکس ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلے شاگرد آواز میں چھپ چکا ہے۔

Spread the love

Leave a Reply