استعمار کی باقیات

رپورٹ

اسلام آباد (پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن): یخ بستہ موسم کی آمد کے ساتھ ہی، “ماں” جیسی ریاست کی، کچی آبادیوں کے انہدام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس بستی کے مکین زیادہ تر گھریلو ملازمت اور شہر کی صفائی کے کاموں سے وابستہ ہیں اور اسی سے اس مہنگائی کے دور میں روز کا گزر بسر کرتے ہیں۔ حکومت کا اپنے شہریوں سے چھت کا سہارا کھینچنا قابل مزمت ہے۔

بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر اور ہمارے آئین کے مطابق شہریوں کو چھت کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایک طرف تو یہ فاشسٹ حکومت گھر فراہم کرنے کے جھوٹے دعوے اور نعرے لگا رہی ہے اور دوسری طرف اسلام آباد کی ان یخ بستہ ہوؤاں میں کچی آبادیوں میں مکین بچوں اور ان کے اہل و عیال کو بے گھر کر رہی ہے۔

اس شہر اقتدار میں جہاں اس کے مکینوں کے ساتھ ریاست کا یہ رویہ ہے تو وہاں دور دراز علاقوں میں ہم کیا حالات تصور کر سکتے ہیں۔ ریاست کے پیدا کردہ ان مسائل میں بچوں اور لواحقین کی ذہنی صحت پر کیا اثر ہو گا یہ تو کبھی ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا۔

ہمارا حکومت اور سی ڈی اے سے مطالبہ فی الوقت یہی ہے کہ فوری طور پر جاری کچی آبادیوں کے انہدام کو روکا جائے اور انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے تاکہ ان بے گھروں کو کچھ سہارا مل سکے اور یہ ریاست کےوفادار رہیں۔

پروگریسیو سٹوڈنٹ فیڈریشن کے اراکین جی الیون فور کچی آبادی کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لئے عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان کے ساتھ آج پورا دن ان کے ساتھ موجود رہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت جہاں ہر شخص کو اردگرد کے ماحول سے بیگانہ کر ایک ہی دائرہ میں محو کر دیا گیا اور ان سے احساس کی صلاحیت بھی چھین لی گئی وہیں یہ دور دراز علاقوں سے آئے طلبہ اپنے دلوں میں مزدور و محنت کش طبقہ کے درد و الم کو اپنا سمجھ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس شہر اقتدار میں رہتے بے حس سرمایہ دار طبقہ اور استحصال کا حصہ بنتی عوام کے لئے یہ لمحات بے شرمی ہیں کہ جہاں یہ طلبہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کے کھانے اور متبادل رہائش کا انتظام کر رہے ہیں وہیں یہ طبقہ اپنے ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ بنگلوں میں تمام تر آسائشوں کو پاتے ہوئے ان کے خلاف بد کلامی کر رہا کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر یہاں قبضہ کر کے بیٹھے ہیں۔ انہیں اس ٹھٹھرتی راتوں میں معصوم بچوں تک کا احساس نہیں جن سے چھت کا سہارا چھین لیا گیا۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 8 سے لے کر 28 جن بنیادی انسانی حقوق کی ریاست کی طرف سے فراہمی کی بات کرتا ہے یہ سب اس سے محروم ہیں۔ دور افتادہ علاقوں سے غرض معاش کے لئے یہاں جھونپڑیاں لگائے ان مظلوموں کے لئے کوئ سہولیات میسر نہیں نا صحت نا تعلیم اور چھت کا سہارا بھی چھین لیا گیا۔اراکین نے آبادیوں کے مکینوں کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی جمع کرائیں کہ وہ انہیں انصاف فراہم کریں۔

ان کچی آبادیوں میں مقیم بچوں کا بھی حق ہے کہ وہ بغیر کسی ذہنی دباؤ کے تعلیم حاصل کر سکیں جبکہ یہاں موجود بچے مزدوری اور کوئ نا کوئ ہنر سیکھ رہے ہیں لیکن ساتھ ان کے پڑھنے کے شوق کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سی ڈی اے کی طرف سے ان کے بستی کو مسمار کرنے کے باوجود یہ پڑھنے بیٹھے ہیں۔ ہم بطور طلبہ تنظیم اس ریاست کے ہر شہری کے لئے مفت آسان حصول تعلیم کا مطالبہ کرتے ہیں اور آرام دہ بستروں میں موجود ان امیرزادوں سے بھی التماس کرتے ہیں کہ ذرا غیرت کھائیں تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق ان کا بھی ویسے ہی حق ہے جیسا کے آپ کا۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے ۔۔
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے ۔۔
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ۔۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو ۔۔
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا ۔۔

یہ ہے ہماری ریاست مدینہ جہاں پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کرنے والے آج غریبوں سے ان کی چھت چھیننے میں لگی ہے۔ بنا کسی نوٹس و اطلاع کے سی ڈی اے نے جی الیون فور کی کچی آبادی کو مسمار کر دیا ۔

یہ ریاستی جبر ہے کہ ریاست جس کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے وہی ریاست لوگوں سے جو تھوڑی بہت سہولت ہے وہ بھی چھین رہی ہے ۔۔

عام پاکستانیوں جتنی سہولتیں تو ان لوگوں کو پہلے سے ہی میسر نہ تھیں ایک ٹوٹی پھوٹی چھت کے نام پر جھگی تھی اور رزق حلال سے کمائی گئی عزت نفس تھی اسے بھی آج سی ڈی اے کے ریاستی درندوں نے چھین لیا۔ اب مزید ظلم یہ ہے کی ان تین سو لوگوں کو کہا جا رہا ہے کی اپنا سامان لے کر یہاں سے چلے جائیں، لیکن کہاں جائیں، یہ نہیں بتایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ یہ غریب کہاں جائیں گے، ریاست تو توڑ پھوڑ کر کہہ دیتی کہ جاوٴ یہاں سے مگر کہاں_ ___؟

غریب کو زمین نگل تو نہیں جائے گی ، وہ اسی زمین کے اوپر در در کی ٹھوکریں کھائے گا۔ یہ نام نہاد ریاست مدینہ تو ان غریبوں کی وارث بننا تو کجا ان سے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے۔ ۔

تمام ترقی پسند قوتوں کا فریضہ ہے کہ غریب محنت کشوں کے ساتھ مل کر جدو جہد کریں تاکہ حکمرانی کے فرسودہ نظام کو حقیقی معنوں میں تبدیل کیا جائے نہ کہ ہر چند سال بعد محض ایک چہرے کی جگہ دوسرا ”نیا“ چہرا سامنے لایا جائے۔

استعمار اور سامراجیت کی باقیات، آج بھی، اپنے انسان دشمن قوانین کی شکل میں غریب کا استحصال کر رہی ہیں اور انسانی طبقاتی فرق کو بڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ انھیں کون پہچانے، انھیں کون روکے؟آئیے مل کر، انھیں ہم پہچانیں، انھیں ہم روکیں۔

تصویرماخذ: عوامی ورکرز پارٹی۔ جی الیون فور کی کچی بستی کے منہدم ہونے کے بعد ایک عورت، پینے کے پانی کے بچے کچھے اثاثے کے ساتھ بیٹھی ہے۔ جو ظاہر کر رہا کہ اس حکومت کے دل میں خواتین، بچوں، اور بزرگوں جیسے ناتواں شہریوں کی انسانی وسائل تک فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا کس قدر آسان ہے۔

Spread the love

Leave a Reply