نظریاتی کینسر کا انجیکشن اور طلبہ تحریک

وقاص عالم انگاریہ

پاکستان کی معاشرتی ساخت کو سمجھنا بہت مشکل ہے اور یہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ یہاں پر مذہبی جڑیں ہمیشہ سے اتنی متشدد نہیں تھیں بلکہ یہ ایک ماڈریٹ جمہوریہ تھا جو کہ نہ صرف پڑھا لکھا تھا، سیاسی تھا بلکہ متحمل بھی تھا۔ یہاں بھی دنیا میں ہر جگہ کی طرح تعمیری قوت طلبہ ہی تھے (اور ہیں) جنہوں نے پاکستان کی معاشرت و سیاست کے فیصلے کئے مگر یہ اب قصہ پارینہ ہوچکا۔ اب یہی قوت مذہبی ، لسانی اور ثقافتی قدروں کے خونخوار محافظوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ طلبہ، جامعات میں، جامعات سے باہر، گھروں میں اور گلی محلوں میں روز بروز سکڑ رہی سوچ، دم توڑ رہے نظریات اور گمشدہ پہچان کے دفاع میں ہر روز کسی کو خون سے نہلا رہے ہیں، ہر روز بلا کسی کے مقام کا تعین کیئے، اپنی سمجھ و عقل کی بانکے پن سے بے بہرہ ہوئے ، یہ طلبہ کسی نہ کسی کو درست کررہے ہیں۔

یہ اب ریاستی جبر اور سیاسی ناانصافیوں پر احتجاج نہیں کرتے ہیں۔ یہ اب نظریات کی پیچیدہ بحث و مباحث میں نہیں پڑتے، نا ہی جامعات میں فیس، ٹرانسپورٹ، انتظامیہ کی طرف سے پڑ رہے آئے دن کے بوجھ سے ان کو کوئی سروکار ہے۔ یہ طلبہ دوسرے طلبہ کا ، اساتذہ کا ،کہ جنہوں نے ان کو طفل شیر خواری میں چلنا سکھایا ہوگا، ان کا اسلام ٹھیک کرتے ہیں ،انہیں مسلمان بننا سکھاتے ہیں، لڑکیوں کو ریاست مدینہ کے بیانیے کی عین تصویر بنانے کا درس دیتے ہیں۔ یہ طلبہ جن میں اکثر سائنس کے ہیں، اکثر سوشل سائنسز کے اب اپنے مضامین میں ریسرچ نہیں کرتے، بلکہ کیمپس میں فیلڈ ورک کرتے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کوئی طالب علم کسی طالبہ کے ساتھ تو نہیں بیٹھا؟ کیوں کہ اب یہ تنظیمیں طلبہ کے مسائل کے لئے وجود نہیں رکھ رہی ہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس، معاشرتی ساخت، اسلام کا قلعہ اور ناجانے کتنے ہی ایسے دوسرے بھاری بھرکم بوجھ اپنے کاندھوں پر لادےہوئے ہیں۔

یہ معاشرے ایسے نہیں بنتے جیسے ہم سمجھ رہے ہیں۔ تمام کہ تمام لوگ خود بہ خود ایک ہی سمت بھیڑوں کی طرح نہیں دوڑتے، جیسے عموماً ہمیں لگتا ہے، بلکہ کروڑوں لوگوں کو اور ان کے کروڑوں خیالات کو ایک سمت ہانکا جاتا ہے کسی خواب سے، نظریہ یا آئیڈیا سے۔ یہ ایسا ہتھیار ہے جو کروڑوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں ،ایک ہی طرح سے سوچنے پر مجبور کردیتا ہے اور ہر دوسرا شخص دنیا کو ایک ہی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی نظریات کا تجربہ ہوتا رہا ہے مگر پاکستان کی تاریخ میں جو اثر انتہا پسند مذہبی انجیکشن نے کیا ہے وہ اثر لینن، ماؤ اور مارکس کوئی نہیں کرسکا۔ روایت میں ہے کہ گوروں نے مذہب کا استعمال بطور سیاسی حربہ کالونیل دورمیں سب سے پہلے کیا تھا اور وہ کامیاب بھی تھے پھر پاکستان بھی بنا اور یہ ورثہ بھی گوروں کی باقیات کے ساتھ پاکستان آیا۔ گوروں کی باقیات کون ہیں؟ یہ آپ خود ڈھونڈ لیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کروڑوں لوگوں کے ذہنوں میں گھسنے اور ان کو تبدیل کرنے کے میڈیم کون سے ہیں؟ یہ انجیکشن کس طور سے گھستا ہے؟ یہ سمجھے بنا بات نہیں آگے بڑھ سکتی۔

یہ جو طلبہ ہوتے ہیں یہ معاشرے میں کسی بھی ترقی کے لئے کیٹالسٹ ہوتے ہیں، ان کو آپ بلوغت کی عمر میں جو بھی سکھاؤ،جس طور بتاؤ وہ اپنی عمر کی پختگی تک کہیں نہ کہیں رہتاہے۔ یہ طلبہ  پہلے گھر سے معاشرت کو سیکھتے ہیں پھر یہی اسکولوں، کالجوں اور آخر میں یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں اور وہاں تک جاتے جاتے ایک پختہ ذہن ہوچکے ہوتے ہیں۔ مگر! آپ ذرا تصور کریں یہ گھر میں جب بچہ آنکھ کھولے تو خود کو نظر کے دھاگوں، دم کرتے ہوئے بڑوں کے گرد محصور پائے اور سکول سے پہلے مدرسے میں داخل ہو جہاں پر قاری صاحب کا رتبہ والد سے بھی اتم ہے؟ تو اس بچے کو یقینا ً یہی معلوم ہوگا کہ اصل تو عالم و فاضل تو قاری ہے اس کے آگے کون ہوسکتا ہے۔ یہی طلبہ سکول میں داخل ہونے کے روز اول سے آخری دن تک جو بارہ سال کا عرصہ بنتا ہے یہ پڑھیں کہ جنگ کیسے ہوئی؟ کیسے جیتی گئی اور مرنے والے شہداء کا مرتبہ و مقام کیا ہے تو یقینا ًیہ طلبہ فوجیوں سے زیادہ با وقار کسے سمجھیں گے؟ ٹی وی پر ہمیشہ مُلّاؤں کو جنت میں حوروں کا پوسٹ مارٹم کرتا سنیں اور شہادت کی عظمتوں اور اسلام کے دفاع کا ترانہ سنیں تو؟ سڑکوں پر نکلیں اور ہر جگہ پر انہیں “اسلام خطرے میں ہے” کے پمفلٹ پڑھنے کو ملیں تو؟ اب یہ طلباء کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جب داخلہ لیتے ہیں تو مسلمانیت کے سانچے میں جو تربیت لے کر آتا ہے ،اس کے سامنے ،اس کے محافظ متشدد مذہبی تنظیمیں سیاسی علم اٹھائے کھڑی ہوتی ہیں، جو ان کو نا صرف یہ بتاتی ہیں کہ اسے خود کیسا رہنا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں کو اور حتیٰ کہ اساتذہ کو بھی کس طرح تعلیم دینی ہے، لیکچر دینا ہے اور کس زاویہ میں دینا ہے یہ طلبہ طے کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بچہ پہلے ہی جو مذہب و وطنیت کا مکسچر لے کر کالج و یونیورسٹی میں آتا ہے وہ ان کی سمت کیوں نہ دیکھے؟

یہ آئیڈیا ایک پوری نرسری کے بعد انسٹال کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ بتایا گیا کہ یہ خود بخود نہیں ہوتا ۔ اوپر بتائے گئے پورے پراسس کو بھی کیا گیا ہے کس نے کیا؟ یہ تو آپ خود فیصلہ کر کے بتائیں گے کہ ریاستی سربراہ کون تھا آپ کو خود معلوم ہوجائے گا۔ شروع میں آہستہ آہستہ مگر پھر افغانستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی اور ایک تاریخی سیاہی پاکستان کے ثقافتی صفحوں پر پھیلا دی گئی۔ کروڑوں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ افغانستان کو کافروں سے نجات دلانی ہے، مشکل تھا اور پھر ایک نئی روش کا آغاز ہوا۔ پہلی ضرب جمہوریت کو لگی اور ضیاء نے گوروں کی تکنیک کو بخوبی استعمال کیا اس نے اسلام کو سیاسی رنگ دے کر جس معاشرتی ساخت کا بیج بویا وہ کچھ یوں ہے۔ 84ء کو طلبہ یونین پر پابندی نے ایک خلا ء پیدا کردی کہ اب طلبہ سیاست پر اپنی رائے نہیں دیں گے اور چونکہ اس وقت ترقی پسند عناصر کبھی بھی ضیاء کی اس ذلالت میں حصہ دار نہیں بنتے لہٰذا ان پر پابندی لگا کر آواز بند کردی گئی۔ پھر شروع ہوا مدرسوں کا جال اور ان مُلّاؤں کو مین سٹریم سیاست میں جگہ دی گئی جو ایک مخصوص آئیڈیا کے مبلغ تھے ،جسے ہم “جہاد بالسیف” کہتے ہیں۔ تعلیمی نصاب میں اسی جہادی لٹریچر کو نرسری سے داخل کیا گیا جو یونیورسٹی تک کے لیئے بتدریج بڑھتا رہا۔ آپ اندازہ کریں کہ افغان جنگ سے قبل چند بڑے چھوٹے مدارس تھے پورے پاکستان میں اور وہ دیکھتے ہیں دیکھتے کئی ہزار تک پہنچ گئے۔ پوری پاکستانی سوسائٹی کو مسلمان کیا گیا اور یونیورسٹی میں اس آئیڈیا کی پرورش ضیاء پسندوں نے کی۔

ذرا  رُکیئے! سوال یہ ہے کہ نصاب میں تبدیلی سے ہوتا کیا ہے؟ ایک دو سال میں تو لوگ فورا متشدد نہیں بنتے، نا ہی نرسری کا بچہ فورا جہاد کے لئے تیار ہوتا تو پھر کیوں؟ موجودہ نسل، چوتھی نسل ہے جو اسی جہادی آئیڈیا کو آگے بڑھائے ہوئے ہے آپ اس آئیڈیا سے نہیں بچ سکتے۔ آپ یونیورسٹی کے کسی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہے ہوں، وہاں پر “اسلامی تناظر” ہر جگہ ہے مثلا اسلامی سیاسی فکر، میکاولی کے سیاسی نظریہ کا اسلامی جائزہ، کانٹ کے فلسفہ پر اسلامی تنقید اور طب نبوی کے تناظر میں پوری میڈیکل فیلڈ۔ یہ فکر و تناظر اب سندھ و پختونخواہ اور بلوچستان کے طلبہ میں، گلگت بلتستان اور تھر کے طلبہ میں،  نام نہاد ترقی پسندوں میں اور ماڈریٹ مسلمان نامی ہر فرد میں گھس چکا ہے۔

مشال خان اسی خواب کا شکار ہوا۔ چار سال ہوگئے جب ان طلبہ نے مشال خان کو سنگسار کرکے، گملوں سے اور لاٹھیوں سے مار مار کر اپنے خواب کی تعبیر کا جشن منایا جو ان کو گھروں میں، نصاب میں ٹی وی میں سیاست میں الغرض ہر جگہ پڑھائی گئی ہے۔ قریب تین سال ہوگئے بہاولپور کا استاد بھی اپنے طالب علم کے ہاتھوں سمت درست کرچکا کیوں کہ وہ غیر اسلامی کام کررہا تھا یقینا کر رہا ہوگا ورنہ تو استاد کا احترام کیا ہوتا ہے وہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں سے پوچھیں جو ارسطو کو معلم اوّل کہتے تھے۔

اب بھی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 97 فیصد والے مسلمان اکثریتی ملک میں اسلام خطرے میں ہے تو الحمدللہ آپ بھی اسی انجیکشن کا شکار ہیں جو آپ کو ہر نصاب، میڈیا اور اساتذہ کے ہاتھوں پڑھایا جاتا ہے۔ آخر آپ کے اساتذہ بھی تو اسی کی دہائی کے وہ بچے ہیں جنہوں یہ سب نرسری کلاس سے پڑھا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 80ء کی دہائی کے بچے جو اب ماں باپ، اساتذہ، سیاستدان اور پالیسی میکر ہیں ان جہادیوں سے زیادہ خطرناک ہیں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے کیوں کہ انہوں نے اگلی نسل جو ہماری نسل ہے کو جس طرح تیار کیا ہے اس کا ثمر سعد عزیز ہے جس نے آئی-بی-اے جیسے ایلیٹ ادارے سے پڑھا پھر بھی اسی وحشت و نفرت کا علمبردار ہوا جو اسے اپنی جامعہ میں طلبہ تنظیم سے ملا۔ اسی نے صفورہ گوٹھ میں اسماعیلی شیعہ کی پوری بس میں شوٹ آؤٹ کیا۔ اسی کا ثمر مشال خان ہے اور اسی کا ثمر ہر وہ لڑکا اور لڑکی ہے جو مذہبی تنظیموں کے ہاتھوں جامعات میں تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ انجیکشن فوج میں، سیاستدان میں، بیوروکریٹ میں اور الغرض ہر اس شخص میں انسٹال ہے جو پاکستان میں رہتا ہے۔ آپ میں نہیں ہے؟ تو خود سے پوچھئے کہ آپ کسی ننگے، بھوکے معاشرہ میں کس مائلہ کو زندگی موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں؟ جہاد کشمیر کو؟ ٹی ایل پی کو؟ شیعہ یا سنی یا احمدی کو؟ یا ریاست کو؟ اگر اوپر والے مسائل آپ کے ہیں تو آل بھی انجیکشن کے مریض ہیں۔

Spread the love

One Reply to “نظریاتی کینسر کا انجیکشن اور طلبہ تحریک”

Leave a Reply