رحمت تونیو
سندھ کا ضلع جامشورو کئی حوالوں سے مشہور ہے، شہر کے بہت ہی نزدیک بہنے والے دریائے سندھ کے دل فریب مناظر کی وجہ سے اور پانچ جامعات کے باعث جامشورو کا تعارف ایک اچھے ہی شہر کے طور پر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اب اس دریائے سندھ کی ٹھاٹھیں مارتی لہریں ہیں نہ ہی ان بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ کو سہولیات میسر ہیں۔ اس کے ساتھ جامشورو شہر کے باسی اور نوجوان بھی کئی مسائل سے دوچار ہیں۔
جامشورو میں واقع لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (لمس)، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (میوٹ) اور یونیورسٹی آف سندھ (سندھ یونیورسٹی) میں ہر سال ہزاروں طلبہ صوبے بھر اور ملک و بیرونی ممالک سے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ مگر ان تینوں جامعات کے طلبہ بڑھتی فیسوں، سہولیات کا فقدان اور دیگر مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں۔
گزشتہ کئی دنوں سے جامعہ سندھ جامشورو کے ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز فیسوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر یونیورسٹی انتظامیہ فیسیں کم نہ کرنے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف جامشورو شہر کے باسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں اور شہر میں بڑھتی سماجی برائیوں کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ ان مسائل کے اثرات بلواسطہ یا بلا واسطہ شہر کے طلبہ پر پڑ رہے ہیں۔
جامشورو شہر میں طلبہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے، پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن جامشورو نے 3 اکتوبر کو طلبہ مارچ کیا۔ ریلوے اسٹیشن سے سیوہن اسٹاپ تک نکالے گئے مارچ میں سینکڑوں طلبہ اور شہریوں نے شرکت کی۔ جبکہ ناری جموری محاذ کی رہنما کامریڈ عالیہ بخشل، عوامی ورکرز پارٹی سندھ کے سابق سیکرٹری جنرل کامریڈ جاوید راجپر سمیت دیگر کارکنان نے مارچ میں شرکت کی۔ پی آر ایس ایف کراچی کے صدر وقاص عالم، جنرل سیکرٹری وجاہت حسین اور دیگر کارکنان مارچ میں شرکت کرنے پہنچے۔
مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پی آر ایس ایف جامشورو کے صدر کانبھو خان عمرانی نے طلبہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ جامشورو شہر اور ان کے علاقوں میں کوئی بھی ڈگری کالج نہیں ہے، جس کے نتیجے میں طلبہ اور طالبات کئی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوٹڑی یا حیدرآباد جانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہر میں کوئی بھی عوامی لائبریری موجود نہیں ہے، پانچ جامعات کے شہر میں بنیادی ضروریات کی سہولیات کی عدم فراہمی نے انتظامیہ کی نااہلی کو بے نقاب کردیا ہے۔ اس کے ساتھ شہر کے پرائمری ور ہائی سکولوں کے عمارات بھی زبوں حال ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ شہر جتنا سندھ اور ملک بھر میں تعلیمی مرکز کے طور جانا جاتا ہے، اتنا ہی یہ شہر سماجی برائیوں کی وجہ سے مشہور ہو رہا ہے، ہر گلی میں منشیات استعمال کرنا اور خرید و فروخت عام ہو چکی ہے۔ ایسی صورتحال پیدا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کو عام کر کے طلبہ سے تعلیم کا حق چھین کر انہیں سیاسی و سماجی شعور سے محروم رکھا جائے۔
پی آر ایس ایف حیدرآباد کی سیکریٹری تعلیم و تربیت سنجنھا چنا نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طالبہ کو ہراساں کرنے، فیسوں میں ہوشربا اضافہ کرکے، بنیادی سہولیات: ٹرانسپورٹ کی کمی، ہاسٹلوں میں پانی اور دیگر مسائل پیدا کرکے نچلے طبقے کے طالبہ سے تعلیم کا حق چھیننے کی سازش میں یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سرگرم ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے جامشورو کے طلبہ کی آواز سے پی آر ایس ایف نے یہ عوامی سطح کا مارچ نکالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے طالب علم اس وقت کئی مسائل کا شکار ہیں، ایم ڈی کیٹ، پی ایم سی کی غلط پالیسیوں سے انہیں تعلیم اور روزگار سے محروم رکھا جا رہا ہے، دوسری طرف سنگل نیشنل کریکولم لا کر ایک ایسی سوچ کو پروان چڑھانے کی سازش کی جا رہی ہے، جس کے اثرات صدیوں تک نوجوانوں پر پڑیں گے۔
کامریڈ عالیہ بخشل، وقاص عالم اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ یونین سازی پر پابندی عائد کر کے اس ملک کے معماروں کی آواز کو قید جا رہا ہے، یک قومی نصاب، تعلیم کو بربادی کی طرف لے جانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پی ایم سی اور این ایل ای جیسے ہتھکنڈے، طلبہ کا استحصال کر رہیں ہیں۔ آن لائن امتحانات کے ذریعے تعلیمی معیار کو گرایا جا رہا ہے، فیسوں میں اضافے، بنیادی سہولیات کی کمی، طالبہ کو ہراساں کرنے جیسے اقدامات کو فروغ دیا جا رہے، طالب علموں کا مکمل طور پر استحصال کر کے پورے تعلیمی نظام کو جان بوجھ کر برباد کیا جا رہا ہے۔
:پی آر ایس ایف جامشورو کے طلبہ مارچ کے مطالبات یہ تھے
جامشورو شہر سمیت ہر یونین کونسل میں پبلک لائبریری تعمیر کی جائے۔
جامشورو شہر میں گرلز اور بوائیز کالج بنائے جائیں۔
پرائمری اور ہائی سکولوں کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں اور اساتذہ کی کمی کو دور کیا جائے۔
جامشورو شہر میں کمیونٹی ہال اور پبلک پارک بنائے جائیں۔
شہر سے منشیات کے اڈے مکمل طور پر ختم کیے جائیں۔
طلبہ یونین سازی بحال کی جائے۔
تعلیمی اداروں میں فیسوں کے اضافہ کو واپس لیا جائے۔
ایک قومی نصاب کی بجائے مکمل سیکیولر اور سائنسی بنیادوں پر مبنی، نصاب مرتب کیا جائے۔