سیاست اور نوجوان پر ایک کلام

وقاص عالم

سیاست سے دوری کا نقصان شاید نوجوانوں کو فی الفور محسوس نہ ہو لیکن معاشرے کی تنگی اور اس میں گھٹن اس بات کی ننگ عکاس ہے کہ معاشرے کے افراد خصوصاً نوجوان، سیاست سے دور ہیں۔ جہاں کہیں بھی سیاسی رویہ پروان نہیں چڑھتا وہاں جبر، لاقانونیت اور تنظیم کاری کا فقدان عروج پکڑتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل، پھر دوسری نسل اس کے گھیرے میں آجاتی ہے، جس سے آنے والی پیڑھیاں یہ گمان کرنے لگتی ہیں کہ جبر و استبداد معاشرہ میں معمول ہے اور آئے روز کی قتل و غارت، منشیات کی روانی، اس کا جزو ہے۔ اسی تناظر میں جب کبھی بھی مظلوم افراد کا سیاسی شعور اجاگر ہونے لگتا ہے، دوسرا فریق جو بذات خود ریاست ہے، وہاں اس شعور کو دبانے کے لئے جبر تیز کر دیتی ہے، یا منشیات کی حصول سہل کر دیتی ہے۔ کہیں گینگ وار ہوتی ہے، کہیں مذہبی منافرت تو کہیں زبان کو شناخت کا مسئلہ بنا کر معاشرہ میں ایک سوال کھڑا کردیا جاتا ہے، جس میں سیاسی افراد الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ واردات ہے جو کالونیل ادوار میں انگریز حکومتوں نے اپنایا تھا چاہے وہ 1885ء کا اردو/ہندی تنازعہ ہو یا آج کا بلوچی/براہوی کا مسئلہ۔ یہ تفریق جہاں اپنے اندر بے معنی اور ریاستی ہتھکنڈا ہے، وہیں شہری علاقوں میں یہ معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا جاتا ہے۔ بلوچ اور اردو بولنے والوں کے تنازعات کو کراچی میں جن جماعتوں نے ہوا دی، وہ ہمیشہ سے ریاستی سرپرستی میں رہے اور سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی جانیں گنوا دیں۔

لیاری میں گینگ وار کا جھگڑا ہمیشہ سے ان سیاسی کرداروں سے رہا، جو ریاست کو ایک فریق سمجھتے تھے اور اسی اثناء میں بہت بڑے نام  لیاری سے حرف مکرر کی طرح مٹا دئے گئے۔ بلوچستان کی سیاست سے، لیاری اور ملیر کی بیگانگت محض کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ کالونیل حربوں کی کڑیوں میں سے ایک کڑی ہے۔ بلوچ، کراچی میں کبھی بھی اجنبی آباد کار نہیں رہا بلکہ وہ کراچی کا تب سے باشندہ ہے، جب چارلس نیپئر نے کراچی کو پورٹ بنانے کا منصوبہ بھی تیار نہیں کیا تھا۔ بھٹو صاحب کی لیاری میں نوجوان نسل کو بلوچستان کی قوم پرست سیاست سے الگ کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ قوم پرست حلقوں سے اقتدار نیپ کے پاس مضبوط تھا اور جہاں قوم پرست جذبات خام وہاں کارروائی ڈالنا قدرے سہل تھا جس میں وہ کامیاب رہے اور جب نواب مری پر چڑھائی ہوئی تو ایک بڑی بلوچ آبادی کی طرف اس قسم کا احتجاج کراچی کے منظر پر نہیں آیا جس طرح متوقع تھا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان بیگانگی کی طرف بڑھتا رہا اور آج بھی وہ اگر بیگانگت کا شکار ہے وہ ریاستی بیانیہ کی مضبوطی کے لئے لازم ہے۔

جب گھٹن اپنے آب و تاب پر ہوتی ہے تب اس گھٹن سے کوئی تحریک نہ ابھرے جو مزدور و مجبور اقوام کی ہو اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کی مشینری کا دوسرا کام شروع ہوتا ہے۔ 1980ء کے بعد انفرادی سیاست نے ایک نئی شکل اختیار کی، جس نے خصوصاً معیشت پر ایک ایسی چھاپ چھوڑ دی، جس کے دھبے آج تک ہم دھو رہے ہیں۔ اس جہت کو نیو لبرل ازم کہتے ہیں جو فرد کی سیاست کی داعی ہے اور اجتماعیت کی مخالف ہے یہ جہت فرد کو، خاص کر نوجوان کو ایک سراب دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک شخص واحد معاشرے کو مصیبت سے نکال سکتا ہے، امیر تر بن کے، مشہور ہو کر یا پھر اپنے ارد گرد میں سب سے منفرد ہو کر۔ اس جہت کی مظلوم اقوام کے نوجوانوں میں سرایت کی ذمہ داری این جی اوز کی، نام نہاد سول سوسائٹی کی ہوتی ہے، جو نوجوان کو سیاست سے کھینچ کر مختلف منصوبوں (پراجیکٹ) کے سراب میں دھکیل کر انہیں معاشی استحکام، مشہوری اور ایک نشان خاص بنا کر معاشرے میں انہیں مظلومین کے درمیان متعارف کرواتی ہے، جس سے سیاسی تحریک، ابھرنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں اور گھٹن کی نکاسی بھی ہوجاتی ہے لیکن نتیجتاً نہ تو اس سوسائٹی کی مجموعی حالت سدھرتی ہے، نہ ہی معاشرے سے ریاستی جبر ختم ہوتا ہے۔ بلوچستان میں، سندھ میں یہ کام آج کل جس زور سے جاری ہے اس میں آپ کو سماجی کارکنان (ایکٹوسٹ) کی بھرمار ملے گی مگر سیاسی کارکنان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ انہی میں تنظیمیں بھی افراد کے گرد گھومتی ملیں گی، جن کا محور وہ فرد واحد ہوگا۔

حالیہ سیاسی تناظر بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ مزاحمت پسند تنظیموں کو، افراد کو یا نظریات کو ان کی زندگی میں رد کیا گیا، قدغن لگایا گیا مگر ان کے مرنے پر انہی کے نظریات کو اپنا بنا کر سیاسی ماحول میں مزید شش و پنج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ماحول میں ایک سادہ لوح سیاسی کارکن وہ لکیر نہیں کھینچ پاتا، جو مزاحمت اور مفاہمت میں ہے، البتہ وہ نوجوان نام نہاد مزاحمت کی رنگین شکل کو ہی حقیقی جدوجہد سمجھ کر سیاست سے بیگانہ ہونا شروع کر دیتا ہے اور پیسوں، میڈیا، نام، مشہوری کی لالچ میں وہ دوبارہ سیاست کی اسی جہت کا شکار ہوجاتا ہے، جسے نیولبرل فینومینا کہتے ہیں اور جسے ریاست زبردستی نافذ کرنا چاہتی ہے تاکہ ادارے اور تنظیمیں مضبوط نہ ہوں، بلکہ افراد ہوں۔

 یہ تمام جہتیں تب تک عروج میں رہتی ہیں، جب تک اس معاشرے میں موجود ادیب و سیاسی دانشور وہ ادب اور فنون متعارف نا کر دیں، جو نوجوان کو سیاست سے نا صرف قریب کرے بلکہ اس کی سیاسی نشونما بھی کرے۔ جو مزاحمت کو محبوب بنا کر نوجوان کو عقلی بنیادوں پر اس کی سائنس سکھائے، جو تاریخ پر ننگی تنقید کرے، جو زبان میں وہ شاعری پیدا کرے جو اس نوجوان کو اپنے معروض کے گرد گھمائے، جس کا صحراء بھی مزاحمت ہو، لیلیٰ بھی سیاست ہو اور جس کی محبت بھی انقلاب ہو۔ اگر دانشور تحریک کے عروج پر یہ کام نہیں کر پاتا تو نوجوان کو مفاہمت اور سیاسی سیاہ کاری کی طرف وہ قوتیں دھکیل دیں گی، جنہوں نے پہلے ہی اس دنیا کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ یہ دانشور بھی نیو لبرل ازم کا شکار ہوجائے گا تو وہ نوجوان نسل کو غیر سیاسی بنانے کا ذمہ دار ہے۔ اس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔

اسی طرح نوجوان اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ سیاست کو سمجھے بغیر کوئی معاشرتی بہتری کرسکتا ہے تو وہ خام خیالی ہے کیونکہ نوجوان کو سیاست میں دلچسپی ہو یا نا ہو لیکن سیاست کو نوجوانوں میں بہت دلچسپی ہے اور یہ دلچسپی وہ اپنے کیمپس، محلے، قوم پر جبر کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں۔

Spread the love

One Reply to “سیاست اور نوجوان پر ایک کلام”

  1. مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست محض ایک جاگیردارانہ نظام کا تخت و تاج بن کر رہ گئی ہے جس کے باعث نوجوان نسل کی ایک بھاری اکثریت اسکی اہمیت اور سیاق و سباق جاننے سےقاصر ہےاور انکے نزدیک سیاست ایک کرپسن سے بڑھ کر کچھ نہیں بدقسمتی سے میرا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے المیہ ہی ہے کے برسوں سے اس جاگیردارانہ تسلط نے اسکے حقیقی تاثر کو خاک میں ملا دیا ہے ۔لہذا آگاہی کے طور پر اس قسم کے آرٹیکلز کی اشاعت لازمی ہے۔

Leave a Reply