انیِا سٹائینباخ
ترجمہ: آمنہ مواز خان
ہر حل شدہ تنازعہ اپنے تمام ہتھیاروں سمیت ایک ملبے کا پہاڑ بن کے رہ جاتا ہے، اس کی تباہی، بہت ساری زرخیز مٹی کے ساتھ ملتی ہے جس پر نئی چیزیں اگ سکتی ہیں۔ ہماری ٹائم لائن، نیوزفیڈ اور خبرنامے، جنگوں کے بارے میں بھر چکے ہیں، جو اکثر کافی دور لڑی جا رہی ہیں۔ لیکن تشدد ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہمارے درمیان اپنی جگہ تلاش کر رہا ہے۔ ایسے تنازعات ہیں، جن کا اظہار سیاسی جدوجہد، مزدور یونینوں اور سیاسی گروہوں کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن ان سے بڑھ کر بنیادی تنازعہ یہ ہے کہ ایک فرد کی اہمیت، حالیہ سماجی قوانین سے کمتر ہے۔
پتھر پکڑنا لیکن کبھی خود نہیں پھینکنا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سماجی اصولوں کے ساتھ، اپنے آپ کو نفسیاتی اور وجودی طور پر زندہ رکھنے کے لئے انسان اپنے غصے، بےاختیاری اور شرمندگی کے جذبات کو نظرانداز کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتا/کرتی ہے۔ ایک تحت الشعور جارحیت موجود ہے، جس کی وجہ سے ہر امکان اور انجان سچ کے اظہار کے خلاف نفرت بڑھتی ہے، اور ایسے ہی پاپولسٹ رائے پنپتی ہے۔ ذاتی منافع حاصل کرنا اور سماجی اصولوں کو مکمل طور پر اپنانا، ایک سرمایہ دارانہ زندگی کے بنیادی نکات ہیں۔ نظریہ ساز نیل لیچ کا کہنا ہے کہ انسان کو سماج میں گھل مل جانے کی چاہت بالکل گرگٹ کے چھلاون کے عمل کی طرح ہے۔
ہومو سیپین سب سے بڑھ کر”ہومو کپیلینس(گرگرٹ)” ہے، جو نفسیاتی سطح پر اپنے آپ کو چھپاتا/چھپاتی ہے۔[1]
اپنے آپ کو چھپانے کا حتمی مقصد ڈرانے کے لئے تیاری کرنے جیسا ہے۔ یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ دفاع، حملے کی بہترین شکل ہے لہٰذا اپنی حفاظت کرنے کی ایک قسم ہے۔ غلبہ کی کیفیت میں اپنی بےبسی کے بارے میں جاننا اور اپنی “خودی” کی غیرموجودگی کا مسلسل احساس کرنا، بالآخر احساسِ کمتری یا ناکامی پیدا کرتے ہیں اور اکثر نفسیاتی امراض کا باعث ہوتے ہیں۔ ان احساسات کو ظاہری طور پر تفریحی سرگرمیوں کی مدد سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تحت الشعور جارحیت قائم رہتی ہے اور نظم وضبط کو نظر انداز کرنے کے نئے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے۔
پتھر پھینکنا لیکن ہدف تک نہ پہنچنا۔
شاید ممکن ہے کہ مختلف اقسام کے افراد اپنی انفرادیت کے عمل سے مزاحمت کی ایک نئی شکل قائم کر سکیں، جس کے ذریعے ذیلی ثقافتیں تشکیل پائیں۔ ذیلی ثقافت کا دیرینہ مقصد، ان تضادات کا اظہار اور ان کا حل کرنا ہے، جو مین سٹریم ثقافت میں نظرانداز ہوتے ہیں یا حل نہیں ہو پاتے۔ یہ تضادار تب ہی حل ہوسکتے ہیں جب اشیاء، سماجی ساخت اور علامات کو ایک مختلف سیاق و سباق میں بیان کیا جائے۔
ہو سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں “امن” کی خواہش متروک ہو کیونکہ یہ نظام، ہر بیرونی اور اندرونی خطرے کے باوجود اپنے آپ کو برقرار رکھنے کی قابلیت رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظام ہوگا جو عوام کے باغٰ خیالات کو اپنے قابو میں رکھے گا اور ہر ممکنہ خطرے کو جہاں کہیں پائے گا، وہیں ختم کردے گا۔ یہ رحجان ایک آمرانہ ڈھانچے کو طاقتور بناتا ہے، جو معاشی منافع پر مبنی ہے اور ذاتی آزادی اور فرد کے سنے جانے کے حق کو لوٹتا ہے۔
ایک جمہوری ڈھانچہ کا امکان تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگوں کی ضروریات کو سرمایہ کی ترقی سے زیادہ اہم رکھا جائے۔
پتھر کو پھینکنا اور کسی کو پکڑانا۔ رابطے کا ایک طریقہ۔
اس سب وجوہات کے باوجود، عدم اطمینان، “فٹ” ہونے کے خلاف غصہ اور آمرانہ نظام کی مخالفت کرنے کے لئے مزید ہمت ہونی چاہیئے۔ ناکام ہونے اور بغاوت کی کوشش کرنے کی مزید ہمت ہونی چاہیئے۔ تنازعات کی ثقافت بنانا اور بغیر بدنامی یا دباؤ کے، ظالم کے خلاف غصے کے اظہار کا ایک صحتمند طریقہ اپنانا چاہیئے۔
ہر کسی کو حقیقی معنوں میں سنا جا سکتا ہے اگر انا تنقید سے اتنی خوفزدہ نہ ہوتی۔ ایک مستقبل کی تکثیری جمہوریت میں سیاسی ضروریات اور مطالبات پر ردِعمل کرنے کیلئے انا کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا پر نرگسیت کا راج نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس کے متبادل ایک ایسی تہذیب کا راج ہونا چاہیئے، جہاں صحت مند تنازعات لوگوں کی ضروریات پر غور کرتے ہیں۔ کیونکہ بالآخر پتھر ایک اڑنے والی مخلوق ہے۔
[1] نیل لیچ، “کیموفلاج” 2006