ظہیر بلوچ
کئی سیاسی کارکنان نے جھل مگسی واقعے پر روشنی ڈالنے کا کہا مگر ہر ایک کو انفرادی حیثیت سے بتانا مشکل ہے، اس لئے یہاں ایک تفصیلی نوٹ لکھ رہا ہوں۔
خان آف قلات کے وقت زمین اور پیداواری رشتے یوں تھے کہ کسان فصل کا ایک حصہ سردار یا نواب کو دیتا تھا اور دوسرا خان آف قلات کو جبکہ اس کے اپنے حصے میں بہت محدود سا تھوڑا سا غلہ آنا بھی غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ جب جدید نہری نظام متعارف ہوا تو زرعی اصلاحات ہوئیں، عوام کو مالکانہ حقوق دیئے گئے لیکن ضیاء الحق نے زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے کر زمینیں واپس جاگیرداروں کو سونپ دیں۔
اب اس حساب سے ایک سرکاری کھاتہ ان کسانوں کے پاس ہے تو دوسرا ان نوابوں کے پاس۔ اور یہ نواب پرانے خانی نظام کو بحال رکھتے ہوئے ہر سال فصل تیار ہونے پر بٹائی کر کے ایک حصہ اٹھا لے جاتے ہیں۔ کسان گزشتہ دو دہائی سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ مگر نواب چونکہ حکمران بھی ہیں اور مقامی لیویز، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز ہمیشہ ان کے ماتحت رہتی ہے، اس لئے ہمیشہ ان کسانوں پر حملہ آور ہو کر فصل اٹھا لے جاتے ہیں۔ کسان دہائیاں دیتے رہتے ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس لئے انہیں مجبور ہوکر قبائلی تکرار کی طرف جانا ہوتا ہے۔
گزشتہ سال خیرالنسا اور ارباب جویا کے والد امداد جویا نے اسی طرح جب مزاحمت کی تو ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا اور نو ماہ تک اپنے نجی جیل میں رکھا گیا۔ ارباب جویا کا پورا خاندان کئی ہفتوں تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے رہے مگر کسی نے دھیان نہیں دیا کیونکہ موجودہ وقت میں ایک بھی ایسی پارٹی نہیں جو زرعی اصلاحات کی بات کرے۔ بدقسمتی سے جس پارٹی نے ماضی میں یہاں زرعی اصلاحات کیے، آج اسی پارٹی میں خطے کے تمام جاگیردار ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ خیرالنسا بازیاب ہوئی مگر جبر کا سلسلہ تھم نہیں رہا اور قبضہ گیریت بدستور جاری ہے۔
جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں زمین پر مگسی نوابوں کا قبضہ اور ان کے اور کسان خاندانوں کے درمیان جبر کا رشتہ بلوچ سماج میں موجود جاگیرداری رشتوں کی خالص شکل میں عیاں ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ نواب کے شہر کے اردگرد گاؤں سے لوگوں کو مجبوراً شہر آ کر راشن لینا پڑتا ہے، یہاں تک کہ کفن بھی اور اب صورتحال اتنی بڑھ چکی ہے کہ حال ہی میں نوابوں نے چھوٹی ضلعی دکانوں سے بھی راشن لینے پر پابندی لگا دی ہے۔
مگسی قبیلے کی کئی ذیلی شاخوں نے ان نوابوں کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ جھل مگسی اس وقت جاگیرداروں کے خلاف مزاحمت کا مرکز بنا ہوا ہے، مگر میڈیا بلیک آوٹ کے سبب اس تحریک کے متعلق جانکاری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور کوئی ان کسانوں کی آواز نہیں بن پاتا۔ کورٹ کے فیصلے کے بعد جب اسسٹنٹ کمشنر نے زبردستی فصل اٹھائی تو کسانوں نے مزاحمت کی۔ نتیجے میں دس کسان زخمی ہوئے۔ سیکورٹی فورسز نے ان کسانوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اب تک کے اطلاعات کے مطابق مزید فورسز بلائی جارہی ہیں تاکہ کسان تحریک کو کچلا جا سکے۔
سارنگانی مگسی قبیلے کی ذیلی شاخ ہے جو اس وقت ان نوابوں کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کئے رکھی ہوئے ہے۔ اس ذیلی شاخ پر راکٹ لانچر سے حملے ہوئے، تین کسانوں کو شہید کیا گیا، ایک مقامی اسکول کا استاد بھی شہید کیا گیا۔ مگسی نوابوں نے ہمیشہ مزاحمت کرنے والوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر کے گاؤں کے گاؤں مسمار کر ڈالے ہیں۔
حال ہی میں کسانوں کا اتحاد وجود میں آیا جو اس وقت تمام تحریک کی سربراہی کرنے والا کسان فرنٹ ہے۔ اس فرنٹ میں مگسی قبیلے کی کئی ذیلی شاخوں سے کسان شامل ہیں، جو ان نوابوں سے تنگ ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں طبقاتی تفریق شدید بھیانک ہوتی جارہی ہے۔ سردار اور نواب جتنی مزید طاقت اختیار کرتے جارہے ہیں غریب عوام کو اتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بے زمین کسانوں کی تحریک اس وقت شدید تنہائی کا شکار ہے۔ کوئی ترقی پسند سیاسی ورکر یہاں آ کر ان کی آواز بننے کو تیار نہیں اور نتیجے میں یہ کسان غیر جمہوری قوتوں سے توقع لگانے پر مجبور ہیں۔
ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے ہمیں اکثر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے لیکن حقیقت میں ریاست ظلم و جبر ڈھالنے کے لئے حکمران طبقے کا آلہ ہوتا ہے۔ ایک نیم جاگیردارنہ سماج میں ریاستی ادارے بشمول عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے، صرف جاگیرداروں کے پسے ہوئے طبقات کے خلاف ہتھیار ہوتے ہیں۔ جھل مگسی بلوچستان ایسا علاقہ ہے، جہاں نسلوں سے قبائلی خاندان اپنے آپ میں ریاست بن چکے ہیں۔ انتظامی و عدالتی عہدے دار ملکی قانون کے پابند ہونے کی بجائے مقامی نوابوں کے احکامات پر عمل پیرا ہیں۔ جھل مگسی کا شمار بلوچستان کے پسماندہ ترین اضلاح میں ہوتا ہے، جہاں پسماندگی معاشی ڈھانچوں سے نکل کر سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں سراعیت کر چکی ہے۔ زرعی زمینوں پر قبضہ، تشدد، خواتین کا اغوا اور غیرت کے نام پر قتل معمول کے واقعات ہیں۔ تمام زرعی زمینیں تقریباً نواب خاندان کے قبضے میں ہیں، جنہیں بھائیوں نے آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے اور ان کی منشا کے بغیر کوئی بھی خاندان زمین پر رہنے اور محنت مزدوری کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ سالوں زمین پر آباد خاندانوں کو بےگھر کرنا اور ان سے جدی پشتی زمینیں ہتھیانا ان کیلئے بڑی بات نہیں۔ ریاست کا نوابوں کے ہاتھوں یرغمال ہونے کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق جن، کی ضمانت ملکی آئین دیتا ہے، سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔
پاکستان بھر میں طبقاتی رحجان رکھنے والی تحریکوں، ترقی پسند طلبہ تنظیموں اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے حلقوں کو سامنے آ کر اس کسان فرنٹ کا ساتھ دینا ہو گا تاکہ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے اور حکومت کو زرعی اصلاحات کے قوانین پر عملدرآمد کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ بےزمین کسانوں کو ریلیف فراہم کرنا ہر اس سیاسی قوت کی ذمہ داری ہے جو انسانی المیے کو کم کرنے کے لئے کام کررہا ہے۔ ان کسانوں کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کے بجائے، ان کی آواز بن کر خواتین اور بچوں کو لقمہ اجل ہونے سے بچایا جاسکے۔
ظہیر بلوچ، کسان آرگنائزر