مترجم: ساقی راجپوت
تحریر: بخشل تھلہو
میر اور غالب سے ساحر اور فیض تک اردو ادب نے کمال درجے کے شعراء پیدا کیے۔ ان شعرا کے برابر نا ہی سہی مگر ان کی انجمن میں اپنا الگ مقام پیدا کرنے والے دورِ حاضر کے سرمست شاعر جون ایلیا بھی تھے۔ جناب نے “عرفی، خسرو اور میر” کو عزت دی، غالب کو “25 اشعار کا شاعر” اور اقبال کو “مصلحت پسند” قرار دیتے اور اپنے دور کے شعرا کو تو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
فرماتے ہیں۔
میر اور غالب کو ٹوکتا ہوں میں
سن رکھو جون ایلیا ہوں میں
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چکا ہوں میں
جون کے اس نرالے انداز پر ظفر سید لکھتے ہیں، “جون ایلیا ایک ایسے منفرد اور یگانہ طبع شاعر ہیں جن کا انداز نہ تو ماضی کے کسی شاعر سے ملتا ہے اور نہ ہی آنے والے وقت کا کوئی شاعر اس کی تقلید کر سکا۔ وہ اپنے سلسلے کے خود ہی موجد اور خود ہی خاتم ہیں۔” شاید اس بات کا ان کو پہلے سے ہی ادراک تھا۔
جون کرو گے کب تک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے، اب کئی سال ہو گئے
یا
اپنا مثاليه مجهے اب تک نه مِل سکا
ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں ميں
کيا مل گیا ضمیرِ ہنر بيچ کے مجھے
اِتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں ميں
اسی ماہ 8 تاریخ کو جون کی سولہویں برسی تھی۔ اسی دن میں نے نیٹشے کا سندھی ترجمہ مکمل کیا۔ مجھے تو دونوں میں بہت مماثلت نظر آئی۔ جون کو بھی نیٹشے کی طرح یہی افسوس تھا کہ تاریخ میں سب باتیں ہوئیں، مگر کام کی ایک بات بھی نہیں ہوئی۔
ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ ہے کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی۔
جون عربی، عبرانی، سنسکرت، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے اور انھوں نے خود کو کئی کتابوں کا لائق مترجم بھی ثابت کیا۔ ظاہری یا سطحی نظر میں جون ایلیا غیر ذمہ دار، آدم بیزار، مایوس، خود پسند اور اور نشئی نظر آئیں گے۔ مگر حقیقت میں وہ اپنے فن کے لیے ذمہ دار، منافق اور دکھاوا پسند لوگوں سے بیزار، بے بنیاد امید پرستی سے مایوس اور نیٹشے کی طرح ناصرف دنیا کے بلکہ اپنی ذات کے بھی بڑے نقاد تھے۔ ہاں البتہ جناب کو ساغر صدیقی اور جگر مراد آبادی کی طرح شراب کی لت تھی، سو تھی۔ جگر نے تو خود ہی فرمایا۔
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
جون کے فن اور فکر کی گہرائی میں جو جتنا بھی آگے گیا، اس کو اپنی سادہ سوچ کو وداع کرنا پڑا۔ ان کی باقی محنت کو الگ رکھ کے صرف ان پر لگے الزامات کے جواب میں اور ان کی فکری اور فنی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے ان کی دو نظمیں “دو آوازیں” اور “شہرِ آشوب” ہی کافی ہیں۔ اگر ایک طرف “دو آوازیں” نظم عوام کو پاگل کہنے والے حکمرانوں کے خلاف باشعور اور پرامید محکوموں کی مزاحمت کی نوید ہے تو دوسری طرف “شہرِ آشوب” مذہبی انتہاپسندوں کی اس انارکی اور سینہ زوری کا منظرنامہ ہے جس کا نظارہ ہم سب نے کچھ دن قبل کیا۔ جون ایلیا ایک بانظر اور بہادر شاعر تھے۔ ہمارے ہاں ایک شاعر ارڈو (بہادر) اترادی ہیں، جون سندھ کے ارڈو امروہی تھے۔ انہوں نے جو لکھا ہمارے لیے اس سب کو دہرانا بھی مشکل ہے۔
دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
خدا سے لے لیا جنت کا وعدہ
تیرے زاہد بڑے ہی گھاگ نکلے
عام طور پر شاعری کو نفاست، علامت، احساسات اور اشاروں کا فن سمجھا جاتا ہے مگر جون ایلیا اپنی شاعری میں جس قدر حقیقت پسند اور بےرحم نظر آتے ہیں ایسے تو (دوستوفسکی اور مانک جیسے ادیبوں کو چھوڑ کر) کسی کے لیے نثر میں لکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
کچھ مثالیں دیکھ لیجئے۔
اب تو سر ہی پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
حاصلِ کن ہے یہ جہانِ خراب
یہ ہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
پھر بنایا خدا نے انسان کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں
یا
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نه گلہ چھیل لے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سب کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
حالانکہ (وکیپیڈیا کے مطابق) جون کو ترقی پسند مارکسی مفکر مانا جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے انارکزم کے قریب بھی سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی زباں، اسلوب، خیال، خمار اور سرمستی کو دیکھ کر یہ بھی لگتا ہے کہ ان پر نیٹشے کا اثر بھی تھا۔ وہ نیٹشے کی طرح عقل کے بجائے عقلیت پسندی کے مخالف تھے۔
ہے کچھ عجب معاملہ درپیش
عقل کو آگہی سے خطرہ ہے
اسی غزل کے باقی بند بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔
جون ہی تو ہے جون کے درپہ
میر کو میر ہی سے خطرہ ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
جون بھی نیٹشے کی طرح انسان کی آزادی اور خودمختاری کے خواہاں تھے۔ وہ شیخ ایاز کی طرح آسمان کو چھوڑ کر زمیں پر دل کا دیول بنانے کی بات کرتے تھے۔
اپنا رشتہ زمیں سے رکھو
کچھ نہیں آسماں میں رکھا
یا
آسمانوں میں گرے پڑے ہیں یعنی
ہم زمیں کی طرف اڑان میں تھے
یا
یوں جو تکتا ہے آسماں کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
اس غزل کے باقی بند بھی درگذر کرنے جیسے نہیں۔
عمر گذرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
جون کے لیے اجمل صدیقی لکھتے ہیں: “دس برس سو نہیں پایا۔ دس برس تک ایک سطر بھی نہیں لکھی۔ نشے میں دھت رہا۔ یقین کی موت کا ماتم کرتا رہا۔ ہر چیز کے وجود سے انکار کرتا رہا۔ ٹی بی جیسے مرض کی تمنا کی اور پوری بھی ہوئی۔ ان کی ایک اور تمنا بھی تھی، جوانی کی موت، مگر وہ پوری نہیں ہوئی۔ بزرگی میں مرگِ بستر کو وہ ذلت کی موت سمجھتا تھا۔”۔
اس طرح جون کے نزدیک سچ کا سوال اپنی ذات سے باہر کسی خارجی حقیقت کو کھولنے اور پرکھنے کے بجائے نیٹشے کی طرح اپنی ذات میں الجھنے، پھنسنے اور اس سے راستہ نکالنا تھا۔
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گذر گیا ہوں میں
یا
مر مٹا ہوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
عمر بھر اپنی آرزو کی ہے
مر نہ جاؤں وصال پر اپنے
یا
تھی اک شخص کی تلاش مجھے
میں نے خود کو ہی انتخاب کیا
جون جھوٹی امید کے بجائے حقیقی مایوسی کی آواز ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی ماہر یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے نوجوانوں کو جون سے بچاؤ۔ پر کیا سماج کی عریانی کا پردہ فاش کرنے والے منٹو کے لیے یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ اس کا ادب فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہوا ہے؟ جون نے بھی مایوس سماج کی مایوسی کا اپنے فن کی مدد سے اظہار کیا ہے۔ انہوں نے نیٹشے کی طرح حقیقت پر نہیں بلکہ حقیقت کی اضافت پر تنقید کی ہے۔ وہ بیداری پر نہیں بلکہ بیداری کے گماں کی مخالفت کرتے ہیں۔
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ حقیقت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے کی حالت کا
وہ ”شاعرِ مشرق“ علامہ اقبال کی اقبالیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ایک شاعر ایک ہی وقت سرمد اور اورنگزیب جیسے متضاد کرداروں کی تعریف کیسے کر سکتا ہے؟ اس طرح کے سوالات صرف وہی شخص پوچھ سکتا ہے جو انسانیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کا امین ہو۔ وہ اپنے سننے اور پڑھنے والوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔
تو نے مستیِ وجود کی کيا کی
غم ميں بھی تھی جو اِک خوشی کيا کی
آگيا مصلحت کی راه په تو
اپنی ازخود گزشتگی کيا کی
تيرا ہر کام اَب حساب سے ہے
بے حسابی کی زندگی کيا کی
اک نه اک بات سب ميں ہوتی ہے
وه جو اک بات تجھ میں تھی کيا کی
ان کی تیز نظر ہر منظر کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ وہ ساحر لدھیانوی کی طرح روشنی کے لبادے میں چھپی تاریکی، ترقی کے رنگ میں تنزلی اور تہذیب کے جوہر میں بربریت کو بھانپ لیتے ہیں۔
جو رعنائی نگاہوں کے ليے فردوسِ جلوه ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قيمت نظر آتی
يہاں تو جاذبيت بھی ہے دولت ہی کی پرورده
يه لڑکی فاقه کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
فرانز کافکا کے وجودی ناول “میٹامارفوسز” میں جو کردار کاکروچ بن جاتا ہے وہ اس جدید میکانکی، بیگانیت پسند اور بے حسی کے دور میں جون ایلیا کی نظر میں “مشین” بن جاتا ہے۔ ان کے کچھ اشعار پیش ہیں۔
ہار آئی ہے کوئی آس مشين
شام سے ہے بہت اداس مشين
یہی رشتوں کا کارخانه ہے
ايک مشين اور اُس کے پاس مشين
يه سمجهه لو جو بھی جنگلی ہے
نہیں آئے گی اُس کو راس مشين
شہر اپنے بسائيں گے جنگل
تجھ میں اگنے کو اب ہے گهاس مشين
ايک پُرزہ تھا وه بھی ٹوٹ گيا
اب رکھا کيا ہے تيرے پاس مشين
وہ جب تک زندہ رہے، نیٹشے کی طرح اپنی عظمت سے واقف مگر ذلت جمع کرتی مشین کی مانند رہے۔ “شاید” (1991ع) کے سوا باقی مجموعے بعد از مرگ ظاہر ہوئے۔ ایک ایسے شخص کو یاد کرکے خراجِ تحسین پیش کرنا خود پر قرض سمجھ رہا تھا ورنہ کون اس ملنگ صفت انسان کو یاد کرے جس نے کہا۔
اُڑتے جاتے ہیں دھول کی مانند
آندھیوں پہ سوار تھے ہم تو
ہم کو ياروں نے ياد بھی نه رکھا
جون ياروں کے يار تھے ہم تو
آرٹ ورک مصور: قمر الدین