کہاں اب سرے زمانہ، میری جان ایسا حق گو

سندھی سے ترجمہ: رحمت تونیو
تحریر: بخشل تھلہو

انتیس ستمبر 2022 کی صبح کو پہلا وقت تھا اور کراچی کی پرانی پوش کالونی (پی ای سی ایچ ایس) کی بڑی سفید حویلی (مستی خان لاجز) میں ایک بیمار بزرگ ہوش، بے ہوشی اور درد کے مختلف ایپی سوڈز کی جکڑ میں تھا تو انہیں اچانک ناک سے خون آنا شروع ہوا۔ وہاں پر موجود طبی اٹینڈنٹ نے درد کش انجیکشن لگانے کی تیاری کی تو اس بیمار شخص نے اپنا ہوش سنبھالتے ہوئے اسے روکا اور اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ مزید کچھ نہ کریں اور کسی دوسرے (موت) کو آنے دیں۔

اس نے اپنی بیٹی کو آخری جملہ “اچھا بیٹی میں چلتا ہوں!” ایسے کہا جیسے شیخ ایاز نے شاہ لطیف سے کہا تھا، جیسے کہ وہ تیار تھا۔ بالکل ایسے جیسے کوئی جاپانی سیمورائی ہاری ہوئی جنگ میں بھی اپنی خواہش اور سمان والی موت مانگتا ہے۔ طبی اٹینڈنٹ اپنے تجربے میں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ دیکھتے ہوئے ہکی بکی ہو کے ایک طرف کھڑی ہو گئی اور پندرہ منٹوں کے اندر ہی ایک بیمار شانت شخص نے ایک لمبی سانس لی اور سکون سے اس بیمار پنجرے کو چھوڑا جس کو کینسر نے دبوچ رکھا تھا مگر اس  کا ارادہ اور حوصلہ، آخر دم تک آزاد ہی رہا۔

معلوم نہیں کہ یہ ایک بوڑھے بلوچ مزاحمت کار کی روایتی خودداری تھی یا ایک باغی کی سرمستی، کہ زندگی کے آخرے لمحے میں اس نے ہوش میں رہنا قبول کیا۔ اور اسے کوئی افسوس، کوئی خوف نہیں تھا، نہ تو وہ کراہ رہا تھا اور نا ہی وہ حواس باختہ تھا اور ہو بھی کیوں؟ یوسف مستی خان، سماج (سرمایہ داری، جاگیرداری اور نوآبادیت) اور جسم کی کینسر سے لڑتے ہوئے اور اس جنگ میں ایک فعال، منظم تنظیم چھوڑ کر اپنا کام کر چکے تھے۔ وہ نئے سفر کے لیے اپنا سینہ چوڑا کر چکے تھے۔

ہر داغ ہے اس دل میں بُجز داغِ ندامت

یوسف مستی خان اپنے بچپن سے ہی مزاجن باغی تھا۔ وہ اپنے والد کا اکلوتا بیٹا اور خاندان کی ملکیت کا وارث تھا۔ ملک کے مہنگے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے باوجود ہر حساس نوجوان کی طرح اس کی روح دولت اور کیریئر کی بجائے اپنے دیس اور دیس باسیوں کی تکالیف سے جڑی رہی۔ اس نے بی ایس او سے سیاسی سفر کا آغاز کیا، لالا رند جیسے اساتذہ سے سیاسی سبق حاصل کیے لیکن ان کے والد کا دوست ” بابائے بلوچستان” میر غوث بخش بزنجو اس کا حقیقی سیاسی استاد بنا۔

محبوبوں نے اک بار، جو پیار سے بلایا تھا
باقی تمام عمر مرا اوڑھنا بچھونا وہی بنا

بھٹائی

یوسف خان کے اس سیاسی انتخاب کے باعث ان کے خاندان نے بھٹو دور سے تکالیف دیکھنا شروع کی۔ کامریڈ کو نوکری کرنی پڑی اور وہ سیاست سے جڑے رہنے کے باوجود شیل آئل کے مینیجر بن گئے، مگر 1973 میں جب وفاقی صدر ذوالفقار بھٹو نے عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو سنتے ہوئے بلوچستان اور اس وقت کے سرحد میں نیپ حکومت کا خاتمہ کیا تو یوسف نے بھی نوکری چھوڑ کر سیاست کی زمین پر مستقل پاؤں دھر لیے۔

 یوسف کی ضد کے نتیجے میں جب ان کے والد نے کوئٹہ سے کراچی تک روڈ بنانے کے ٹھیکے پر بھٹو کو دوٹوک جواب دیا تو یوسف کو اپنے چچا عبدالستار کے ساتھ جبری طور پر اٹھایا گیا اور قلی کیمپ میں ان پر سخت تشدد کیا گیا۔ مگر لطیف کی ان سطور “جیسے جیسے دن گرم ہوتا ہے، ویسے ویسے وہ (سسئی) سفر کو تیز کرتی ہے” يا “جیسے جلیں ویسے سچ، جیسے جلیں ویسے خوبصورت” کی طرح وہ اور مضبوط ہوتا گیا۔ ضیاء دور بھی وہی عقوبتیں، عذاب اور گرفتاریاں لایا۔

چونکہ عوامی قیادت کا تاج جنم سے نہیں مگر کرم سے جڑا ہوا ہوتا ہے، اس لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ میر صاحب کی چھوڑی ہوئی پارٹی تھی نا ہی ان کی حیاتیاتی اولاد بلکہ وہ کامریڈ یوسف مستی خان تھے جس نے میر بزنجو صاحب کی سامراج مخالف، اسٹیبلشمنٹ مخالف، سیکیولر، عوامی اور اقوام کی حق خودارادیت والی سیاست کو اپنی نوکریاں اور آسائشیں چھوڑ کر اپنا لیا تھا۔ این ڈی پی، پی این پی، این ڈبلیو پی اور آخر میں اے ڈبلیو پی کے سیاسی سفر میں کامریڈ یوسف مستی خان نے، میر غوث بخش کے آدرشوں کی ہی نئی نسل کے سیاسی کارکنان میں آبیاری کی۔ 

شاید 2010 کا سال تھا جب کراچی سراوان ہوٹل میں بائیں بازوں کی مختلف جماعتیں سندھ میں ایک اتحاد بنانے کےلیے اکٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے پہلی مرتبہ یوسف مستی خان کو اس وقت دیکھا تھا۔ وہ کامریڈ اختر حسین کے ساتھ نیشنل ورکرز پارٹی کی نمائندگی کر رہے تھے اور ہم لیبر پارٹی پاکستان کی۔ ایسے ہی سندھ پروگریسیو کمیٹی کا  قیام  عمل میں آیا تھا۔

جب 2012 میں عوامی پارٹی کے ساتھ عوامی ورکرز پارٹی کے قیام اور نئے آئین کی تیاری کےلیے تین تنظیموں کے وفود میں مذاکرات اور مباحث کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر یوسف مستی خان سے قربت اور زیادہ بڑھ گئی۔ مجھے یہ قبول کرنا ہے کہ عوامی ورکرز پارٹی کے قومی سوال پر سنجیدگی کا بڑا سبب قیادت کے اندر یوسف مستی خان جیسے بڑے شخص کی موجودگی تھا۔ سندھ کی فاؤنڈنگ کانگریس ہوئی تو سندھ کا صدر عثمان بلوچ اور جنرل سیکرٹری میں منتخب ہوا۔

عثمان بلوچ بھی یوسف کا سینیئر اور دیرینہ ساتھی رہا۔ 2014 کی کانگریس میں یوسف مستی خان سندھ کا صدر اور میں جنرل سیکریٹری بنا۔ حال ہی میں اپریل 2022 کی لاہور کانگریس میں یوسف مستی خان وفاقی صدر اور میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوا۔ اسی طرح پارٹی کے اندر مجھے ان کے ساتھ رہنے، سیکھنے کا موقع بہت زیادہ ملتا رہا، جس کو میں اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔

نطشے نے کہا تھا کہ “جب آدمی تھک جاتا ہے تو وہ ان ہی خیالات سے شکست کھاتا ہے جنہیں وہ کبھی فتح کر چکا ہوتا ہے“۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کے سفر میں ہر کوئی تھکتا ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ ہر شخص اپنے تھک جانے کو قطعی (مستقل) سمجھتے ہوئے اپنے ہی پرانے ہارے ہوئے خیالات یا دلائل سے شکست کھا جاتا ہے۔ یوسف مستی خان سخت تکالیف میں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ ثابت قدم اور ثابت خیال رہے۔  کامریڈ کی تعزیت پر آئے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما سراج درانی نے کہا کہ ایک مرتبہ پی پی پی میں شمولیت کی آفر کے جواب میں جو کچھ یوسف مستی خان نے مجھے کہا وہ میں اس محفل میں سنانے جیسا نہیں۔

نظریاتی طور پر وہ ایک حقیقی عوامی جمہوریت پسند تھے۔ سیاسی طور پر وہ قوم پرستوں کے بیچ خود کو کمیونسٹ اور کمیونسٹوں میں خود کو قومپرست کہلاتے تھے۔ وہ پاکستان کے اندر قومی طبقاتی، صنفی تضاد کی اکائی پر زور دیتا تھا۔ وہ پنجاب اور سرائکی وسیب کے باغی جاوید ہاشمی سے بلوچستان اور سندھ کے باغی استاد میر محمد علی تالپر کے پاس ہمیشہ عزت و احترام لیا کرتے تھے۔ چونکہ وہ خود باغی مزاج کا تھا تو میرے جیسے جونیئر کارکنان کی طرف سے کبھی جذباتی ہو جانے پر ناخوش ہونے کے بجائے اس کی قدر کرتے تھے۔

کامریڈ یوسف سندھ اور خاص طور پر لیاری کو اپنی ماں سمجھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ریاست نہیں بلکہ دھرتی ماں ہوتی ہے، ریاست کو تو عوام اپنی مرضی کے مطابق توڑتے اور بناتے ہیں۔ پاکستان مزدوروں اور قوموں کا قید خانہ ہے اور اس میں بھی بلوچ اور سندھی سب سے  زیادہ پسی ہوئی قومیں ہیں۔ اس لیے ان کی آپس میں قربت لازمی ہے، اور کامریڈ اس کےلیے ہمیشہ کوشاں ہوتا تھا۔ آخری وقت میں بلوچ متحدہ محاذ کو بھی بنایا، مگر سندھ کے ناعاقبت اندیش اور نسل پرستی میں پھنسے ہوئے کچھ قوم پرستوں کےلیے وہ بھی نسل پرستی تھی۔ اب جب ملک کے کونے کونے میں مختلف پلیٹ فارمز سے تمام نسلوں، قوموں اور قومیتوں کے لوگ یوسف مستی خان کو اپنا سمجھتے ہوئے تعزیتی ریفرنس منعقد کر رہیں تو اس کی روشنی میں ایسی تنقید پارہ (مرکیوری) بن کر پرواز کر جاتی ہے۔

کراچی میں جب ملک ریاض عسکری سرمایہ اور سرکاری آشیرباد سے “زمین بو، زمین بو” کرتا ہوا آیا تو بلڈوزروں اور عام گوٹھ کے لوگوں کے بیچ میں کوئی اور نہیں بلکہ ماما فیضو جیسے دھرتی کے وارث اور حفیظ بلوچ جیسے اکے دکے سیاسی کارکن تھے۔ کچھ قوم پرست رہنماؤں نے اس وقت بھی نام نہاد دھرنے دے کر اپنی جیب گرم کرکے روانہ ہوگئے۔ لیکن وہ بھی کامریڈ یوسف مستی خان تھا جس نے انڈیجنئس رائٹس الائنس کے نام پر تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے ملک ریاض اور بحریہ کو روکنے کی کوشش کی اور کاٹھوڑ میں ایک تاریخی آل پارٹیز کانفرنسز کی صدارت کی جس میں 50 سے زائد سیاسی و سماجی تنظیمیں اکٹھی ہوئی۔ لیکن ایک قوم پرست اتحاد کے عجلتی فیصلوں اور نامناسب تیاریوں کے باعث کچھ غیرذمہ دار کارکنان اور شرپسندوں کو موقع ملا تو انہوں نے سندھ کے اس جاری عوام کی تاریخی مزاحمت کو انتشار میں ڈبو دیا۔ ایسے ہی بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے بھی صرف اپنا گیٹ جلوا کر اور ہزاروں ایکڑ پر اپنے قبضے کو بچا لیا۔

 اسی طرح عورت مارچ ہو یا شاگرد مارچ، اظہار کی آزادی کےلیے سرگرم صحافی ہوں یا قانون کی بالادستی کےلیے لڑتے ہوئے وکلاء، یوسف مستی خان گلگت سے وزیرستان تک ریاستی جبر کے شکار عوام کے ساتھ، ابراہیم حیدری سے گوادر تک مقامی مچھیروں سے، کوئٹہ سے کراچی تک مسنگ پرسنز کے خاندانوں اور مزاحمت کاروں سے، اورنگی نالہ سے اسلام آباد کی کچی آبادیوں کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ہو کر کھڑے رہے۔

علی انٹرپرائز کے قتل عام جس میں 250 سے زائد مزدور زندہ جلا کر قتل کیے گیے، تو اس واقعے نے یوسف کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ متاثر خاندانوں کے ساتھ سرگرم ہوگئے۔ مگر جب اس کام میں ٹریڈ یونین نما این جی اوز سرگرم ہوئیں تو یوسف نے اپنے پاؤں پیچھے کیے۔ رحلت کے تین دن قبل مجھے اسی کی آخری فون کال بھی ایکوافینا کے مزدوروں کے کیس کی کامیابی کے بارے میں تھی۔ وہ اس کی مبارک ہمیں دے رہا تھا لیکن اس کا حقدار وہ خود، عثمان لالا اور منان باچا  تھے جنہوں نے مزدوروں کی قانونی مدد کی۔ اور ان دنوں میں  مزدوروں کے ساتھ فیکٹری کے سامنے سارا دن دھرنے دیے۔ بغیر کسی شبہ کہ وہ ریاستی لوہے کی باڑ میں پھنسے ہوئے سماج میں سے عوامی پھول کی طرح کِھلا اور کھڑا رہا۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

غالب

یوسف مستی خان کو دو برسوں سے جگر کی کینسر کا عارضہ تھا۔ بیماری ظاہر ہونے کے کچھ عرصے کے بعد اس نے غیر فعال اور لمبی زندگی کے بجائے فعال اور مختصر زندگی کا انتخاب کیا اور ادویات لینا چھوڑ دی ساتھ ہی ساتھہ سیاسی سرگرمیاں بھی تیز کردی۔ ان کا آخری سیاسی دورا پختونخوا صوبے کا تھا، میں بھی اس تمام سفر میں ان کے ساتھ تھا۔

ایک سال قبل ان کی رفیق حیات کے وفات نے اس کی روح کے کچھ گوشوں کو مزید نرم  کر دیا تھا، لتا کا گیت بھی اس عاشق مزاج کی آنکھوں میں پانی بھر دیتا تھا لیکن ان کی خودداری پہلے سے اور  بھی آگے رہی۔ وہ اپنی جسمانی کمزوری اور روحانی درد کو اپنے دشمنوں اور دوستوں کے سامنے مختلف اسباب کی وجہ سے ظاہر ہونے نہیں دیتا تھا۔ وہ خود سے بڑے میر غوث بخش بزنجو کی کم ہی سہی لیکن واجب تجسیم تھا۔ میں نے اس کے چہرے سے کبھی خیر بخش دیکھا تو کبھی عطاء اللہ ، اور کبھی آخری وقت کا بگٹی بھی۔ “بائیں بازو کے وسیع تر اتحاد کےلیے کوشاں رہو!” اس کا یہ اپنے پارٹی کارکنان کو آخری پیغام تھا۔  حبیب جالب نے تو میر غوث بخش کیلیے لکھا تھا لیکن مجھے تو یہ یوسف مستی خان کےلیے بھی مناسب لگتا ہے۔

میرا ہم قفس بزنجو، میرا رہنما بزنجو
کہاں اب سرے زمانہ، میری جان ایسا حق گو

Spread the love

One Reply to “کہاں اب سرے زمانہ، میری جان ایسا حق گو”

  1. رانا اور نگزیب عالمگیر صدرعوامی ورکرز پارٹی پاکپتن پنجاب says:

    خوب صورت اور تاثر انگریز تحریر۔یوسف مستی خان کی عظیم جدوجہد اور ان کی سیاسی بے پناہ خدمات روداد۔دل نشین اسلوب کا مظہر ہے۔۱۹۹میں پی۔این۔سی نو پارٹیوں کے اتحاد میں شامل تھے۔میں منٹو صاحپ کی عوامی جمہوری پارٹی میں تھا ۔پاکپتن میں پی۔این۔سی پہلا عوامی جلسے کا انعقاد کیا تمام مرکزی قیادت شریک ہوءی۔کامریڈ یوسف مستی خاں ُ عابد حسن منٹو میرے غریب خانہ پر تشریف لاءے۔وہاں کامریڈ سے پہلی مرتبہ تفصیل سے میٹنگ ہوءی اور باہمی مرجع کی بات ہوءی۔بعد میں نشنل ورکرز پارٹی کا قیام عمل میں أیا۔۔وہ

Leave a Reply