سنجھا چنا
کیا نہیں ہے کوئی مسیحا
جو آئے لے کر، آفتوں کی زد میں سسکیاں بھرتی، ہوئی زندگیوں میں کوئی سویرا
سیلاب میں بے گھر، دربدر لوگوں کے لئے بنائے کوئی بسیرا
کیا نہیں ہے کوئی مسیحا
دیکھ کر بھوکا، معصوم بچوں کو کیا اٹکتا نہیں ایم پی اے، ایم این اے، والوں کے گلے میں ایک بھی نوالہ
عوام کو ڈوبتا، مرتا دیکھ کر کیا پھٹتا نہیں کرسیوں پہ بیٹھنے والوں کا کلیجہ
کیا نہیں ہے کوئی مسیحا
صدیوں سے، جن ہاتھوں نے دنیا کو کھلایا، کیا کھاتے رہیں گے وہ ہوا؟
سب کا سہارا بننے والی سندھ
پھر کیوں ہر بار چھوڑ دیا جاتا ہے اسے، یوں بے سہارا
کیا نہیں ہے کوئی مسیحا
ڈوبا گھر، بچھڑ کے اپنوں سے، آنکھوں سے بہتا سمندر، کیا سڑکیں ہی بنتی رہیں گی ان کا تکیہ
کیا نہیں ہے کوئی مسیحا
اس دور قیامت میں
نہیں کوئی جو دے انہیں دلاسہ
بننا پڑے گا انہیں، خود کا ہی حوصلہ
کیونکہ وہ خود ہی ہیں اپنے مسیحا
کبھی زلزلوں سے گھِرا گھر میرا
کبھی ہوائوں نے اسے موڑ دیا
کبھی بارشوں نے اسے توڑ دیا
اس طرح ہمیشہ میرا گھر زمیں اور اس کی چھت آسماں رہا۔
کبھی بھوک نے مار دیا مجھے
کبھی پیاس نے مار دیا مجھے
کبھی پوچھوں گا خدا سے
میری زندگی کا مقصد فقط کیا موت ہی تھا۔
زندگی چنا