ذیشان احمد
یہ ایک ایسا موضوع ہے جو بطور طالب علم اور سیاسی ورکر میرے دل کے سب سے زیادہ قریب اور میرے ذہن پہ ہر وقت سوار ہے۔ موضوع پہ آنے سے پہلے طلبہ، ان کے حالات اور پاکستان میں طلبہ سیاست پر میرے کچھ اشعار
میں طالب علم اس دیس کا ہوں
کہتے ہیں مجھے شاہیں جہاںاڑنے پہ میرے، مگر ہے پابندی
میں قیدی اندھیروں کا، یہاںمیری سوچ پہ لگائے تالے ہیں
مِرے قلم پہ زنجیریں ہیں یہاںمیں آلہ کار ملکی سیاست کا
پر میری سیاست ممنوع ہے، یہاں
پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ ہے جو تقسیم ہند سے بھی پہلے کی ہے جو آل انڈین سٹوڈنٹس فیڈریشن سے شروع ہوتی ہے، ڈی ایس ایف، پھر این ایس ایف اور پھر یہاں 80 کی دہائی میں لگنے والی طلبہ یونین پر پابندی سے لے کر 2022 تک کی ایک سیاسی جہدودجہد کی تاریخ ہے جس میں بہت سارے اتار چڑھاؤ اور پیچ و خم آتے رہے ہیں۔ میرا مقصد تاریخ کو دہرانا نہیں۔ میری تحریر کا مقصد موجود دور میں طلبہ سیاست کیا ہے، کس حد تک کامیاب ہے یا اس میں طلبہ کا رحجان کیوں اتنا زیادہ نہیں کہ ایک کوئی بہت بڑی موثر تحریک چلانے میں طلبہ کامیاب نہیں ہو رہے اور اس میں ریاست اور قومی جو سوالات ہیں ہماری ریاست کے ان کا طلبہ سیاست میں پڑنے والے اثرات کیا ہیں؟
اگر ہم آج کے دور میں دیکھیں تو طلبہ سیاست کیا ہے اور اس کا محور کیا ہے تو ہمیں طلبہ سیاست ایک انتہائی پیچیدہ سیاست نظر آتی ہے جو بیک وقت بہت سارے سوالات کے گرد گھری ہوئی ہے جس میں قومی سوال، نسل پرستی کا سوال، تعلیمی اداروں میں پدر شاہی راج، زبان کا سوال، طلبہ پہ ہونے والے مظالم کا سوال، ریاستی جبر کا سوال اور دن بدن تعلیمی نظام کا بد سے بد تر ہونے کا سوال ہے۔
یہ سارے ایسے سوالات ہیں جو ہر خطے اور قوم میں الگ الگ نوعیت رکھتے ہیں اور ان سوالات نے طلبا سیاست کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایک طالب علم کے لئے بیک وقت مزاحمت کے بہت سارے محاز کھولے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس نے طلبہ کی اپنی سیاست جو طلبہ کے حقوق، ان پر ہونے والے مظالم، تعلیمی معیار کی گراوٹ سے متعلق ہے ان سے دور کر دیا ہے اور ایک طرح طلبہ کی آپسی جڑت کو بھی محدود اور کم کر دیا ہے۔ پھر یہ سوالات ایسے ہیں جن کی مزاحمت میں طلبہ ریاستی جبر کا بھی شکار ہوتے ہیں اور اس کو دیکھ کر وہ طلبہ جو عملی سیاست کا حصہ نہیں ہوتے وہ سیاسی عمل میں جڑنے سے ڈرتے ہیں اس لئے آخر میں میں اپنی طرف سے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں جن سے میرے مطابق طلبہ سیاست کو دوبارہ سے ایک موثر تحریک بنایا جا سکے۔
الف۔ طلبہ سیاست کا اصل محور طلبا کے مسائل اور تعلیمی مسائل ہوں، طلبہ یونین کی بحالی ہو تعلیم جو آج کل منافع بخش کاروبار بن چکی ہے اسے دوبارہ سب کے لئے یکساں اور عام کرنے کی جہدوجہد کرنی ہوگی۔
ب۔ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمہ کے گرد سیاست کو تیز کرنا ہوگا۔
قومی سوال اور دیگر ریاستی جبر پر جمع اور سیر حاصل گفتگو کے کلچر کو عام کرنا ہوگا اور اس سوال کو قوم کے نقطہ نظر سے ہٹ کر طبقاتی نقطہ نظر سے بھی سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنی ہوگی، جس سے قومی سوال نسل پرستی کو جنم نہ دے سکے۔
ج۔ ہمیں تعلیمی ادروں کے اندر بڑی تعداد میں طلبہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ علمی کھیل کود کی سرگرمیوں کے انعقاد کرانے ہوں گے جس طلبہ کے اندر زیادہ سے زیادہ جایا جا سکے پھر ان میں سے کیڈر بنانے کا عمل شروع ہوگا۔
یہ چند ایسے نکات ہیں میرے مطابق جن کو اس وقت اپنا کر ایک منظم طلبہ سیاست اور طلبہ تحریک کو جنم دیا جا سکتا ہے۔