محمد نذیر تبسم
کشور ہندوستان سے انگریزی راج شاید اب تک ختم نہ ہوا ہوتا اگر آزادی ہند کی جدوجہد کانگریس اور مسلم لیگ کی قانونی جدوجہد تک محدود رہتی۔ کیونکہ انگریز ہندوستان جیسی ہاتھ لگی بٹیر کو گاندھی جی کے محض یہ کہنے پر کہ ہندوستان چھوڑ دو، کبھی ہندوستان سے نہ جاتے۔ یہ غدر پارٹی، انڈین کیمونسٹ پارٹی، انڈین نیشنل آرمی اور بھگت سنگھ جیسے سینکڑوں اور شہیدوں کے پھانسیوں کو چومنے کا صدقہ تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے شدید جھٹکے کے بعد انگریز یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اگر اب بھی انہوں نے ہندوستان نہ چھوڑا اور کانگریس اور مسلم لیگ کو اپنے جانشینوں کے طور پر اقتدار منتقل نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان میں روس اور چین جیسا انقلاب برپا ہوگا اور ہندوستان سے وابستہ ان کے معاشی مفادات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں گے۔
سال 2013 ء غدر پارٹی کے قیام کی صدی کا سال ہے۔ یکم نومبر 1913 کو امریکہ کے مغربی ساحل پر واقع شہر سان فرانسسکو میں غدر پارٹی ایک روشن ستارے کی مانند نمودار ہوئی جس نے آسمانِ آزادی کو بقعہ نور بنا دیا۔ ڈھولوں کی دھڑ دھڑاہٹ میں اسے غدر یعنی بغاوت کا نام دیا گیا اور اپنی پالیسی کے اعلان کے طور پر اس نے ہند پر برطانوی قبضے کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیا۔ اس نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ غدر اس کی پارٹی پالیسی ہے جو 1857ء کی ناکام جنگ، آزادی ہند کی طرف اشارہ کرتا ہے اور جسے انگریز غدر یا بغاوت کہنے پر مُصر تھے۔
اب ذرا تاریخ کے اس دور پر نظر دوڑایئے جس میں غدر پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1913ء وه سال تھا جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ اس سے چار سال بعد اکتوبر 1917ء میں روس کا عظیم بالشویک انقلاب آیا۔ اس سے آٹھ سال بعد ہندوستان کے دو عظیم کیمونسٹ راہنماؤں مولانا حسرت موہانی اور سوامی کمار نند نے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے 1921ء کے سیشن کے دوران ہندوستان کی مکمل آزادی کی قراداد پیش کی تھی لیکن گاندھی جی نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی۔
آخر کار 11 دسمبر 1929ء کو لاہور کے سیشن کے دوران آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے پورنا سووراج یعنی مکمل آزادی کا نعرہ دیا تھا جبکہ غدر پارٹی کے دیئے ہوئے مکمل آزادی کے نعرے کو سولہ سال بیت چکے تھے۔ جب برطانیہ عظمیٰ برٹش ایمپائر کی صدی کا سال منا رہی تھی تو اس وقت یہ کہا جا تا تھا کہ برٹش ایمپائر پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اس پر ایک محب وطن ہندوستانی نے کہا تھا: ہاں بے شک ایسا ہی ہے کیونکہ اندھیرے میں خدا بھی انگریز پراعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
آزادی ہند کی جملہ تحریکوں میں سے ایک ۔۔ غدر پارٹی کی تحریک کا آغاز سرزمین ہندوستان سے باہر امریکہ اور کینیڈا میں ہوا۔ برطانوی ہند میں انگریزوں کی ذلت آمیز غلامی سے اُکتا کر اور 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مایوس ہو کر بہت سے ہندوستانیوں نے ترک وطن کیا اور مشرقی ایشیائی ممالک ملایا، فلپائن، ہانگ کانگ اور جاپان میں جا بسے۔
اس زمانے میں چونکہ ان ممالک میں حالات زندگی کچھ زیادہ سازگار نہ تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے امریکہ اور برطانیہ کا رخ کیا جہاں ان دنوں معاشی ترقی عروج پر تھی۔ تاہم ان تارکین ہند کو ان ملکوں میں شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور انہیں بدترین نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس وجہ سے یہ تارکین ہند اس نتیجے پر پہنچے کہ ہند کی غلامی ان سے ایسا سلوک روا رکھے جانے کا باعث ہے۔ لہٰذا جب تک ہندوستان آزاد نہیں ہو جاتا، بیرون ملک ہندوستانیوں کو اسی نفرت اور امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ر ہے گا۔
اِن تارکین وطن کے علاوہ دیگر اور انقلابی اور حصول تعلیم کے لیے آئے ہوئے ہندوستانیوں نے بھی اپنے ان ہموطنوں کے ساتھ مل کر وطن کی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان لوگوں میں ایک لالہ ہردیال تھے جو غدر پارٹی کے اہم راہنما کے طور پر نمایاں ہوئے۔ سوہن سنگھ بھکنا کی قیادت میں غدر پارٹی نے اپنا ترانه غدروی گونج بنایا جس میں کہا گیا تھا:
نواں روپ رچن ہند دے سماج دا
تخم اڈاونا ظالماں دے راج را
اس تحریک میں جو لوگ شامل تھے اگرچہ ان کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا تاہم ان میں دیگر لوگ مثلا پانڈورنگ کھانکھوجی اور وشنوگنیش پنگل، مہاراشٹر سے تعلق رکھتے تھے جبکہ دارسی چن چھیا کا تعلق آندھرا پردیش سے تھا۔
بھوپال کے اعلیٰ تعلیم یافته عبدالحافظ برکت اللّٰہ (1854-1927) جن کے اعزاز میں بھوپال یونیورسٹی کو 1988 میں برکت اللّٰہ یو نیورسٹی کا نام دیا گیا بھی غدر پارٹی کے لیڈروں میں شامل تھے۔
اس صورت حال کے باعث امریکی اور کینیڈین حکومتوں نے امیگریشن قوانین سخت کرنے شروع کر دیئے۔ مزید ہندوستانیوں کے داخلے کو مشکل بنانے کے لیے نئی پابندیاں عائد کی گئیں جن میں داخلے سے پہلے دو سو ڈالر دکھانا اور بیوی بچوں کو لانے پر پابندی کی شرطیں شامل تھیں۔
یہ گھناؤنی پابندیاں بنیادی طور پر ہندوستانیوں کے لیے تھیں جس کا ردعمل جدوجہد آزادی میں زیادہ تیزی سے ہوا اور غدر پارٹی کے راہنماؤں اور کارکنوں کا عزم آزادی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ کینیڈا کی حکومت نے یہ پابندی عائد کی کہ صرف وہی ہندوستانی کینیڈا میں داخل ہو سکتے ہیں جو ہندوستان سے براہ راست کینیڈا آنے والے جہازوں سے سفر کریں جو ان دنوں ممکن نہ تھا کیونکہ کوئی بھی جہاز ران کمیٹی براہ راست ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان آپریٹ نہیں کرتی تھی۔
آنجہانی کامریڈ ہرکشن سنگھ سرجیت لکھتے ہیں: اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے وینکوور کی انڈین کیمونٹی آگے بڑھی۔ امرتسر کے رہنے والے گورووت سنگھ نے کوماگاٹامارو نامی ایک جاپانی جہاز چارٹر کیا، ٹکٹ جاری کیے اور مسافروں کو لے کر 4 اپریل 1914 کو یہ جہاز ہانگ کانگ سے روانہ ہوا اور 25 مئی کو وینکوور پہنچ گیا۔ اس میں 351 سکھ اور 21مسلمان پنجابی سوار تھے لیکن انہیں جہاز سے اترنے کی اجازت نہ دی گئی۔ تقریبا آٹھ ہفتوں تک بندرگاہ کے قریب لنگر انداز رہنے کے بعد آخر کار 23 جولائی کو جہاز نے واپسی کا سفر شروع کرنے کے لیے لنگر اٹھا لیے۔ لیکن یہ بے کس اور مجبور انسان جب 27 ستمبر کو کلکتہ کی بج بج بندرگاہ پر پہنچے تو گولیوں سے ان کا استقبال کیا گیا جس کے باعث حکوتی ذرائع کے مطابق 18 مسافر موت کے گھاٹ اتر گئے، متعدد زخمی ہوئے، کئی گرفتار کر لیے گئے جبکہ 29 جن میں گورودت سنگھ بھی شامل تھا، لاپتہ قرار دے دیئے گئے۔
آخر کار 1915 کے شروع میں غدر پارٹی کے ہیروز نے امریکہ اور کینیڈا کو ترک کرنا شروع کیا اور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں شنگھائی اور سنگا پور کے راستے ہندوستان واپس لوٹ آئے۔ یہاں آنے کا مقصد یہ تھا کہ مختلف چھاؤنیوں میں بے چینی پھیلائی جائے اور ہندوستانی سپاہیوں کو برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرنے کیلئے قائل اور مائل کیا جائے۔
دوسری انقلابی تنظیموں کے کارکنوں اور لیڈروں نے بھی ان کا ساتھ دیا، لیکن یہ جدوجہد کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی 1919 میں دم توڑ گئی۔ جدوجہد آزادی ہندوستان کے منظر پر مہاتما گاندھی کے نمودار ہونے سے بہت پہلے غدر پارٹی انگریزوں سے عدم تعاون کی اہمیت لوگوں پر اجاگر کر چکی تھی۔ غدر پارٹی نے مسلح جدوجہد کیلئے انڈین نیشنل آرمی بنانے والے سبھاش چندر بوس جیسے اور بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کو متحرک عمل کیا۔ ہندوستان ان کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کرسکتا۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل عوامی جمہوریت میں شائع ہو چکا ہے۔