مہنگائی مخالف مارچ

رپورٹ

جون ۱۲، ۲۰۲۲ کو محنت کش طبقے کے افراد، کچی آبادی کے رہائشیوں، طلبہ، ٹریڈ یونین کے ممبران اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے آبپارہ چوک میں جمع ہو کر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا۔

عوامی ورکرز پارٹی اور پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام، ‘مہنگائی مخالف مارچ’، معاشی انصاف کے بنیادی مسئلے کے گرد مرکوز تھا کہ پاکستانی معیشت کس طرح اکثریتی عوام کا حق مار کر، ایک محدود تعداد کی اشرافیہ کے منافع کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ مظاہرین نے مرکزی دھارے کی سیاسی زبردست جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ کیسے، سامراج مخالف حقیقی متبادل پیش کیے بغیر، عالمی مالیاتی ادارے کے غیر انسانی مطالبات کو لاگو کر رہی ہیں۔

مہنگائی کا تناسب 14 فیصد ہو چکا ہے۔ 1980 سے اب تک ملک عالمی مالیاتی فنڈ سے 13 بار قرضہ لے چکا ہے۔ قرضوں پہ چلنے والی معیشت ملک میں ایک خانہ جنگی کی سی صورتِ حال پیدا کر رہی ہے جہاں درآمدات پہ لگنے والے خرچ سے مسلسل خسارہ ہو رہا ہے اور پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کی طرف حکمرانوں کی نا توجہ ہے اور نا دلچسپی۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور دیگر اداروں کے ایجنڈوں اور ہدایت پر عمل کرتے ہوئے حکمران طبقہ، مسلسل عوام دشمن پالیسیاں نافذ کر رہا ہے جس کے باعث، ملک کی آدھی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور کر دی گئی ہے اور لوگوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے، مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے، طلبہ سے تعلیم کا حق چھینا جا رہا ہے، غریب عوام کو صحت، روزگار، بجلی، تیل جیسے بنیادی ضرورتوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔
حکمران طبقے کی عیاشی، آئینی چالبازیوں اور دھوکہ دہی کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی تباہی کے ایک ایسے موڑ پہ لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے جہاں محنت کش طبقے کے لئے صرف بربادی بچتی ہے۔ مسلسل سیاسی بحران اور محنت کش عوام کی سیاست پر پابندیوں کے نتیجے میں جمہوریت کا جنازہ نکل گیا ہے۔ اور معاشی و طبقاتی تفریق میں مسلسل اضافے سے محنت کش طبقہ، بد حالی کے باعث خودکشیوں پہ مجبور ہو رہا ہے۔
حکمران اشرافیہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام ہے اور سیاست کے نام پر طاقت کی ہوس میں پاگل، ایک چہرے کے بعد دوسرا چہرہ بدلنے کا سرکس لگا ہوا ہے، نظام بد سے بدترین ہوتا چلا جا رہا۔ اشیائے خورد و نوش، بجلی، پانی، تیل جیسی ضروریاتِ زندگی عام آدمی کی دسترس سے دور ہوتی چلی جا رہیں، نوجوان مہنگی تعلیم کے باعث تعلیمی ادارے چھوڑ کر جا رہے، اساتذہ کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں۔
حکمران طبقے کی مراعات کا خرچہ غریب عوام کے ناتواں کندھوں پہ لادا جا رہا۔ ان حالات میں محنت کش عوام کے اتحاد اور نوجوانوں کی تنظیم سے ہی عوام دوست سیاست اور حکومت کا فروغ ممکن ہے۔ اس سب کے لئے محنت کش طبقے کو اپنی صفوں میں اتحاد اور اجتماعیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی، ریاست کا حکمران بن سکے اور عوام کو درپیش مسائل کا حل کر سکے۔
مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کو بچانے کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ محنت کش عوام ایک ساتھ مل کر آواز بلند کریں، اپنے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کریں، ایک ذمہ دار و حساس شہری ہونے کا ثبوت دیں، جمہوری، عوامی سیاست میں عملی طور پہ حصہ لیں، اس گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لئے اپنا پہلا قدم آگے بڑھائیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی رہنما اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عاصم سجاد اختر نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو یہ بہانہ بنانے پر سرزنش کی کہ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ غریب دشمن اقدام نہیں ہے جو  اشرافیہ کی طرف سے اٹھایا گیا جو اپنی فضول خرچیوں کو کم کرنے سے انکاری ہے۔ انہوں نے حکومت کو چیلنج کیا کہ وہ اربوں کی سبسڈی میں کٹوتی کرے جو وہ کاروباری اداروں کو ایمنیسٹی سکیموں کی شکل میں دیتی ہے، اور فوج اور بیوروکریسی کو مسلسل دی گئی چھوٹ اور مراعات کو کم کرے۔ حکمران جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ، آئی ایم ایف کی ایماء پر عوام کی زندگیاں اجیرن بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف امریکی سامراج کا اصل چہرہ ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں بے پناہ کٹوتیاں اور بڑھتے ہوئے فوجی بجٹ، آئی ایم ایف کے درجنوں پروگراموں کی میراث تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ملک کو سرمایہ داروں کے لیے اس کے وسائل کو لوٹنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے، اور محنت کش طبقے کے لوگوں کے استحصال سے بچنے کی کسی بھی صلاحیت کو ختم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ ایک حقیقی سامراج مخالف متبادل کے گرد جمع ہوں کیونکہ حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔

عوامی ورکرز پارٹی راولپنڈی۔اسلام آباد کے جنرل سیکرٹری اقبال جہاں نے زور دیا کہ قیمتوں میں حالیہ اضافے نے خاندانوں کو ظالمانہ طرزِ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کچی آبادی کے رہائشیوں کے لیے سفر کرنا ناقابل یقین حد تک مشکل بنا دیا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور خاص طور پر رکشہ والے اپنی روزی روٹی کھو رہے ہیں، عوام پیٹ کاٹ کر گزر بسر کرنے پہ مجبور ہے اور ریاست اس سے مکمل طور پر نا آشنا نظر آتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر حالات یہی رہے تو پاکستان اپنی معیشت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

عوامی ورکرز پارٹی سے پروفیسر شاہجہان نے سوال کیا کہ بظاہر جمہوریت اور سامراج دشمنی کی دعوےدار مرکزی دھارے کی جماعتوں نے آئی ایم ایف کی عائد کردہ کٹوتیوں اور شرائط کا کوئی متبادل پیش کرنے سے انکار کیوں کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف نے مسلسل صحت، تعلیم اور عوامی اخراجات کو نشانہ بنانے کی شرائط تو عائد کیں لیکن تیزی سے بڑھتے فوجی بجٹ پر کوئی روک ٹوک نہیں رکھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دفاعی بجٹ بڑھا کر1550 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور فوجی پنشن350  ارب روپے۔ جبکہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کر کے800   ارب تک محدود کر دیا گیا ہے۔ زرعی آمدنی اور بینکنگ سیکٹر پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ بینک بہت زیادہ منافع کما رہے ہیں لیکن کھاتہ داروں کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔ نئے بجٹ میں 3950  ارب روپے قرض کی مد میں دیئے جائیں گے، دفاع کے لیے 1535 ارب روپے، پنشن کے لیے 530  ارب، سبسڈیز کے لیے660  ارب، ترقیاتی بجٹ کے لیے 808  ارب، جبکہ وفاقی حکومت کے اخراجات کے لیے 550  ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن کے  فرحان عباسی نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی بجٹ میں موجودہ کٹوتیوں کا مطلب طلبہ کی فیسوں میں بھاری اضافہ ہوگا۔ جس کا مطلب ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کی نجکاری کرنا پڑے گی اور بہت سے طلبہ خاص طور پر محنت کش طبقے کے طلبہ، تعلیم تک رسائی سے محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے طلبہ کو پہلے ہی اپنے اخراجات میں شدید دباؤ کا سامنا ہے، اس مہنگائی سے ان طلبہ پر بوجھ مزید بڑھے گا جو کم تنخواہ والی ملازمتوں، فیسوں میں اضافے اور گرتے ہوئے تعلیمی معیار کے ساتھ دنیا میں غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ طلبہ، محنت کش طبقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر منظم ہوں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کیونکہ ان سب کا اجتماعی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔

پی آر ایس ایف سے تعلق رکھنے والے شاہ رکن عالم نے کہا کہ عام لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اشرافیہ کی درآمدی اشیا کے استعمال نے محنت کش طبقے کی زندگیوں کو براہ راست بدتر بنا دیا ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ معاشی خوشحالی کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قومی معیشت ایک ایسے گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے جس میں اشرافیہ کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف انہیں مہنگائی کی قیمت پر چھوٹ دے دے گا جس سے تکلیف صرف محنت کش طبقے کو ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو معاشی اور ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس بحران سے بچنے کا واحد راستہ روحانی اور سیاسی انقلاب ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری جدوجہد کو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے پورے حصے کے طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے اور اس جدوجہد کو منظم کرنا، اس میں ترقی پسند مقاصد شامل کرنا اور ایک ایسی تنظیم بنانا ہے جو ریاست کی اقتصادی پالیسی کو بہتر بنا سکے۔

 ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی اریج حسین نے کہا کہ بےحس ریاستی پالیسیوں نے عوام کو خوراک اور بچوں کی تعلیم کے حصول میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کم آمدن اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے محنت کش طبقے کا معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے جبکہ ان حالات کے اصل ذمہ دار امیر اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ضروری ہو گیا ہے کہ عوام ایک متحد طاقت کی صورت اٹھ کھڑی ہو۔

مظاہرے میں لال ہڑتال گروپ کا ایک تھیٹر بھی شامل تھا جس میں مہنگائی، بڑھتی قیمتوں اور اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی عوام کو درپیش جبر کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا۔

دیگر مقررین میں جمیل اقبال، رشیدہ سلیمی، رخسانہ انور، بشیر حسین شاہ، مصطفیٰ طارق شامل تھے۔ مارچ میں متحدہ عوامی موومنٹ، ایم کے پی  ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور طبقاتی جدوجہد کے اراکین نے بھی بھرپور شرکت کی۔

Spread the love

Leave a Reply