مشال خان: زندہ و جاوداں

 ترقی پسند شاگردوں کی آواز مشال خان

 ہر سماج کی تار یخ اس سماج کے حال اور مستقبل کو طے کرتی ہے۔ ہم جس سماج کا حصہ ہیں، اس سماج کاماضی آج بھی ہماری زندگیوں اور ذہنوں پر بدترین اثرات ڈالتا ہے۔ کبھی انگریزی زبان کو ترجیح دے کر ذہنی غلامی کا اظہار کرتے ہوئے، کبھی ملک اور قوم کی بقا کے بہانے ڈکٹیٹروں کو حکومت دے کے، تو کبھی مذہب اور جہاد کے نام پر ایسی فصل اگا کر کہ جس کی پیداوار ہم آج اپنے لوگوں کی جانوں کے بدلے میں وصول کر رہے ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی میں سویت یونین کے انقلاب کو ختم کرنے کے لئے امریکا اور ضیاء الحق نے جس سوچ کو اور ذہنوں کو جنم دیا اس کا اثر آج ہمارے معاشرے میں موجود مذہبی انتہا پسندی، نفرت، اور دہشتگردی کے روپ میں بہت واضح ہے۔ اربوں ڈالروں کے سرمائے سے ایسی کتابیں شائع کی گئیں جن میں رجعت پسند مواد اور تصاویر شامل کی گئیں۔ جیسے “خ” سے خنجر “ت” سے تلوار “ج” سے جہاد۔ یہ تصاویر آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ سی آئی اے اور ہمارے اداروں کی ملی بھگت سے یہ کتابیں نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں بھی استعمال کی جاتی تھیں۔ اس مدعے پر، نیویارک یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈانا برد اپنی کتاب “سکولز فار پیس اینڈ کانفلکٹ ان افغانستان” میں لکھتی ہیں کہ انہیں کتابوں میں کافی مواد 2011 میں پاکستان کے شہر پشاور میں استعمال میں لائی گئی تھی۔

پاکستان میں رجسٹرڈ مدرسوں کی تعداد چالیس ہزار ہے جو کہ ضیاء الحق کے دور کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو حکومت کے طرف سے کی گئی تحقیق میں سامنے آئی۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے مدرسے ہیں جن کے وجود سے یہ حکومت اور ان کے عمل سے یہ عوام غیر واقف ہے۔

کسی بھی فرد کی سوچ کا دار و مدار صرف اس فرد کی ذاتی صلاحیت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس فرد کی سوچ اور سمجھ کا بہت زیادہ حصہ اس کے سماج، اس سماج میں موجود کلچر، سیاست اور زندگی گذارنے کے طور طریقے سے بھی ترتیب پاتا ہے۔ اس گھٹن والے سماج میں جہاں ہر وقت دہشت، نفرت اور جہالت پنپتی ہو وہاں چوبیس پچیس سالہ نوجوان کھلے عام اپنی یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی پر سوال اٹھاتا ہے۔ مشال خان جو کہ اپنے نام کی طرح ہی روشن خیال اور علم دوست لڑکا تھا جو اس ڈر اور جہالت کے آگے اپنا سر جھکانے سے انکار کرتا ہے۔ دوستوں اور اساتذہ کے منع کرنے کے باوجود انہی دوستوں اور شاگردوں کے لئے آواز بلند کرتا ہے اور اپنی ہستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک یونیورسٹی میں نوجوانوں کی طرف سے غصے میں آکر غلطی نہیں بلکہ یہ واقعہ ایک بہت بڑے اور بھیانک وقت کی طرف اشارہ ہے کہ جن ہاتھوں میں قلم، کتاب اور ذہنوں میں سوال، شعور اور بہتر سماج کی تعمیر کے خیالات ہونے چاہیئیں۔ ان ہاتھوں میں بندوق، ذہنوں میں نفرت اور فرسودہ سوچیں نہ پلتی رہیں اپنے ارد گرد اس گھٹن، نفرت، فرسودہ سوچ اور نظام کو فقط شعوری جدوجہد، ترقی پسند سیاست اور کتاب کی طاقت سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ مشال کے خون کے داغ اس سماج کے چہرے سے کب دھلیں گے، پتہ نہیں پر مشال ترقی پسند اور علم دوست شاگردوں کے لئے مشعل راہ بن چکا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل ایڈیٹوریل کے طور پہ شاگرد آواز میں شائع ہو چکا ہے۔

مشال خان کی پانچویں برسی کے موقع پہ پروگریسیو سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے شمع افروزی کا اہتمام کیا جس میں مختلف طلبہ تنظیموں اور ترقی پسند حلقوں نے شمولیت اختیار کی۔ اس موقع پہ عوامی ورکرز پارٹی کے عمار رشید نے حبیب جالب کا کلام “ظلم رہے اور امن بھی ہو” گایا اور خانزادہ اسفندیار خٹک نے اس پہ پرفارم کیا۔

سوچ کے قاتلو
عقل کے دشمنو
وحشیو، پاگلو
خوف کے تاجرو
بوالہوس شاطرو
مجھ کو پہچان لو
غور سے دیکھ لو
آنکھ میں جھانک لو
دل کو بھی ٹٹول لو
عشق کا ابال ہوں
رقص ہوں، دھمال ہوں
گونجتا خیال ہوں
امن کا سوال ہوں
خوف کا زوال ہوں
حسن کا کمال ہوں
ہجر کا ملال ہوں
لذتِ وصال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں

مجھ سے ڈر گئے ہو تم
تم سے میں ڈرا نہیں
کب کے مر گئے ہو تم
میں ابھی مرا نہیں
خوں نہیں عَلم ہے یہ
سر نہیں قَلم ہے یہ
ذوق میری زندگی
حق مرا جنون ہے
دار، یار ہے مرا
غم ، قرار ہے مرا
تری حیات رائیگاں
ترا غرور بے اماں
مجھے تو دکھ میں ہے مزہ
قفس میں بھی سکون ہے
تم وہم، میں یقین ہوں
میں علم کا امین ہوں
تم ماضی کے مزار ہو
میں مستقبل ہوں، حال ہوں
میں انقلابِ وقت ہوں
میں زیست کی مثال ہوں
چراغ ہوں جلا ہوا
میں رمزِ ماہ و سال ہوں
گلاب ہوں کھلا ہوا
میں ریشمی رومال ہوں
میں زندگی ہوں زندگی
میں موت کا زوال ہوں
میں روشنی، میں تازگی
میں سُر بھی ہوں ، میں تال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں
میں بھی تو مشال ہوں

(پارس جان)

Spread the love

Leave a Reply