انقلابی ماضی: نوآبادیاتی ہندوستان میں کمیونسٹ بین الاقوامیت

حصہ دوم۔ کتاب تبصرہ

ذیل میں علی رضا کی کتاب پر عاصم سجاد اختر کے تبصرے کا اردو ترجمہ درج کیا گیا ہے۔

حالتِ جنوں

 اس کے باوجود، دادا امیر حیدر خان اس لیے نمایاں ہیں کیونکہ پنجاب کے مغربی علاقے جو بالآخر پاکستان کا حصہ بنے، صوبے کے وسطی اور مشرقی حصوں کے مقابلے میں کہیں کم انقلابی جوش و جذبہ رکھتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے دوران، جبری نقل مکانی نے نوزائیدہ پاکستانی کمیونسٹ بائیں بازو کے ان سکھ انقلابی کارکنان کو بھی چھین لیا جو صوبے کے سب سے بڑے شہر لاہور میں مقیم تھے۔

تقسیمِ ہند نے ایک انقلابی مہم جوئی کو کمزور کر دیا جس نے ہمیشہ اپنے وزن سے جدوجہد کی، لیکن نو آبادیات سے رسمی رہائی نے حقائق سے خائف ریاستی کارکنوں کو کوئی مہلت نہیں دی۔ درحقیقت، ایک اہم موضوعات میں سے ایک جس کا پوری کتاب میں ذکر ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی ریاست اور اس کے جانشین – ظاہری طور پر (ریاست کے لئے) خطرناک نظر آنے والے کمیونسٹ جنون سے خوف میں مبتلا تھے اور بار بار اس کو ختم کرنے کی کوشش میں تھے۔ رضا نے کتاب کےآغاز میں بیان کیا کہ کس طرح نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک برصغیر میں بائیں بازو کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے ’غیر ملکی پن‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود عالمی سطح پر ان کی ہندوستانی (اور بعد میں پاکستانی) مرکزی شناخت کو ہی پہچان ملی نا کہ ‘غیر ملکی’ ہونے کے الزام کو۔ بائیں بازو کی ‘تردیدی سیاست’، جس  نے متعدد سماجی گروہ بندیوں تک کو توڑا، ہندوستانی معاشرے کے ساتھ گہرا تعلق ظاہر کرتی ہے۔ جیسا کہ رضا نے بیان کیا، ”عام لوگ” خاندان کی طرح تھے۔ (ص 133)

تاہم پھر بھی بائیں بازو کی سیاست، انقلابی افق کے قریب نا پہنچ سکی۔ نوآبادیاتی ریاست کی بے حسی اور کمیونسٹ سرگرم کارکنان کی غیر متوازی عزم کے امتزاج نے ایک ‘لال دھچکے’ کو برقرار رکھا جس کا اختتام 1929 کے میرٹھ سازش کیس میں ہوا۔ یہ ڈرامائی معاملہ ایک ایسے فیصلے پر اختتام پذیر ہوا جس نے کمیونسٹ عالمگیریت کو ‘قومپرست۔مخالف’ کے برابر قرار دے دیا، یوں مستقل طور پر ‘قوم پرستی اور کمیونزم کے درمیان دیوار کھڑی کر دی گئی۔ (ص 193)

اس مقام سے رضا کا بیانیہ ایک واضح موڑ لیتا ہے۔ جب کہ سوہن سنگھ جوش جیسے میرٹھ کے مجرموں کا ’خیالی و مثالی وجود‘ ’ابھی بھی طاقتور طریقے سے جھلملاتا ہے‘ (صفحہ 198)، یہ لمحہ کمیونسٹ بائیں بازو اور گاندھی کی سرپرستی میں ہندوستانی قوم پرست تحریک کے درمیان فیصلہ کن وقفے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ میرٹھ کے بارے میں رضا کا پرزور اندازہ ’’اس تاریخی اتفاق رائے کے خلاف ہے جس کا یہ ماننا ہے کہ میرٹھ نے کمیونسٹ تحریک کے حق میں کام کیا۔‘‘ (صفحہ 202)

بائیں بازو کے انقلابیوں نے یقینی طور پر تقسیم سے پہلے ڈیڑھ دہائی میں ہمت نہیں ہاری، محنت کشوں، کسانوں، طلبہ اور تارکین وطن میں حامیوں کو منظم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ اپنے اپنے حلقوں میں دھڑے بندی اور سازشوں کے باوجود ہندوستان بھر میں اٹھتی ہوئی سامراج مخالف لہر میں سب سے آگے رہے۔ جوں جوں برطانوی راج سے باضابطہ آزادی قریب آتی گئی، بائیں بازو ان قوم پرست تحریکوں سے تیزی سے الگ تھلگ ہوتا گیا جو عوام کے لیے بولتی تھیں اور بالآخر ’عوام‘ کے نام پر ریاستی اقتدار کی باگ ڈور کی وارث بن گئیں۔

وقت اور عالمگیریت
 کتاب کے آخر تک، کچھ مرکزی کرداروں کی تقریباً نہ ختم ہونے والی امیدپرستی اس پرسکون احساس کی راہ ہموار کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی نوآبادیاتی قومی ریاست سلطنت اور سرمائے کی حکمرانی کے بعد ایک لمبے وقفے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ رضا نے آخری دو ابواب کا ایک بڑا حصہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کی ‘عوامی جنگ’ اور پاکستان کے موقف پر بحث کے لیے وقف کیا ہے، جس میں اس بات کی عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح اس پارٹی کی ‘حکمت عملی مایوسی سے دوچار ہوئی’ (ص 228)۔ 1942 کے بعد سے، کمیونسٹ بائیں بازو نے خود کو کئی اطراف سے محصور پایا، خاص طور پر پنجاب میں جہاں سیاست کی عوام پسندی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔  جب کہ رضا نے 1946 کے انتخابات کے دوران دانیال لطیفی اور میاں افتخار الدین جیسی سنجیدہ قیادت کی طرف سے پنجاب مسلم لیگ کے اندر ہونے والی اہم تبدیلیوں کو بیان کیا، تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔

تقسیم کے ارد گرد خوفناک تشدد کے باعث، ان یوٹوپیائی تحریکوں کا آہستہ آہستہ خاتمہ ہوتا گیا جو صرف چند دہائیوں قبل ناقابل شکست دکھائی دیتی تھیں۔ وہ انقلابی جنہوں نے برطانوی سلطنت کے خلاف نہایت  بہادری کے ساتھ جدوجہد کی، ان کے خلاف،ا بعد میں ہندوستان اور پاکستان کی ‘آزاد’ ریاستوں کی طرف سے مجرمانہ کارروائی کی گئی، جس کی وجہ سے پہلے سے شکست زدہ انقلابی تحریکوں کو مزید نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود اس وقت، بقول رضا کہ انقلابی تحریکوں کو مکمل طور پہ ختم نہیں کیا جا سکا تھا، یا ہے۔

Spread the love

Leave a Reply