فہد عباسی۔ پاور ۹۹
خواتین کے عالمی دن کے موقعے پہ سیاسی کارکن و رہنما عالیہ امیر علی کا ریڈیو چینل پاور ۹۹ ایف ایم کو دیا گیا انٹرویو
میں اسی شہر میں پلی بڑھی، یہیں کی ایک طرح سے باشندہ ہوں، میں آج کل تو پڑھتی بھی ہوں اور پڑھاتی بھی ہوں، جینڈر سٹڈیز شعبے سے میرا تعلق ہے، پڑھاتی بھی وہی ہوں اور میں اپنی پی ایچ ڈی بھی اسی میں کر رہی ہوں، تو یہ میرا سبجیکٹ ہے، آپ سمجھیں۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ علم جو ہے وہ صرف کتابوں کی حد تک رکھنا اور اس کو معاشرے کی تبدیلی کے لئے استعمال نا کرنا، یہ ایک بہت بڑی زیادتی ہے، اور تعلیم کا مطلب صرف اور صرف ڈگری لے کر گھر بیٹھ جانا یا پیسے کمانے کا نام نہیں ہے، اس تعلیم کو اس علم کو استعمال کرنا ہے تاکہ آپ اس معاشرے کی خوشحالی کے لئے کچھ کر سکیں۔
عالیہ تھوڑا بتایئے گا، ہم نے آپ کو ہمیشہ عورت مارچ کی پوڈیم پہ دیکھا ہے، عورت مارچ ہے کیا، کس چیز کی ڈیمانڈ ہے؟
دیکھیں، پہلی چیز تو یہ ہے کہ عورت مارچ جس کو ہم اب کہتے ہیں یہ عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جاتا ہے، اور جو دن ہے آٹھ مارچ کا یہ آج سے نہیں یہ جب سے میں نے ہوش پکڑا اس وقت سے اس شہر میں منایا جاتا رہا ہے صرف جو فرق آیا ہے پچھلے چند سالوں میں، وہ یہ ہے کہ اب پچھلے چند سالوں میں ہمارے معاشرے میں ایک ایسی تحریک ابھری ہے، کہ جس کے اندر، پہلے بہت کم لوگ ہوتے تھے جو کہ سمجھتے تھے کہ عورت کی بات کرنا ضروری ہے یا یہ کہ عالمی سطح پر ہم ایک پوری تحریک کا حصہ ہیں یہ صرف پاکستان کے اندر منایا نہیں جاتا یہ عالمی سطح پر یک بڑا اہمیت کا حامل دن ہے جو کہ اس چیز کو مارک کرتا ہے ایکچوئلی جو روس کے اندر انقلاب آیا تھا ۱۹۱۷ وہ ایکچوئلی عورتوں کی جدوجہد سے شروع ہوا تھا اور وہ پڑھی لکھی عورتیں نہیں تھیں وہ دیہات کی عورتیں تھیں جو کہ کارخانوں میں کام کر رہی تھیں اور جو کہ اپنے ملک کے اندر جنگ کے خلاف ان کا جو مین سلوگن تھا وہ یہ تھا بریڈ ناٹ بومبز، تو وہ روٹی کے لئے اور جنگ کے خلاف اور امن کے لئے نکلی تھیں اور اس کے نتیجے میں ایک اتنی بڑی تبدیلی آئی جو کہ مزدور طبقے پسے ہوئے طبقے کے لئے ایک اتنی بڑی خوشحالی کا باعث بنی تو وہی وہ پیغام ہے وہی وہ جدوجہد ہے جو کہ لے کے آج تک ہم اس کو مناتے ہیں۔
تو کیا یہ جو جدوجہد ہے، وہی روٹی کے لیے ہے، وہ جو روس سے چلی تھی جدوجہد، کیا اس میں ردو بدل نہیں آیا اب تک؟
بالکل ردو بدل آیا ہے، دیکھیں عورتیں جو ہیں وہ کوئی صرف ایک رنگ کی عورت تو نہیں ہے نا، اور نا ہی ایک طبقے کی عورت ہے لیکن جو اکثریت ہے عورتوں کی وہ غریب عورتیں ہیں، ان کا واقعی مسئلہ روٹی ہے، کپڑا ہے، مکان ہے، چھت ہے، تعلیم ہے، علاج ہے، روزگار ہے، تو یہ وہ سارے اشوز ہیں جو کہ عورتوں کی اکثریت کے اشوز ہیں، یہ بھی ہم اٹھاتے ہیں اپنے مارچ میں اور ہم وہ بھی اشوز اٹھاتے ہیں جو کہ مثال کے طور پہ سیکشئول ہراسمنٹ آن کیمپس کے مسئلے ہیں، طالبات کے مسئلے ہیں، ورکنگ ویمن کے مسئلے ہیں، ڈومیسٹک وائلینس کے مسئلے ہیں اور یہ ایسے مسئلے ہیں جو کہ صرف غریب طبقے کے اندر نہیں ہیں بلکہ امیر طبقے سے، اوپر سے لے کر نیچے تک آپ کو عورتوں کے خلاف تشدد جو کہ بالخصوص صرف چونکہ وہ عورت ہے اور اس کی اس معاشرے کے اندر ایک نچلے درجے کے انسان کی حیثیت ہے، اس وجہ سے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو یہ ساری چیزیں جو ہیں جنگ کے خلاف، بھوک اور ننگ کے خلاف، ڈومیسٹک وائلینس کے خلاف، اور ہر طرح کے وائلینس کے خلاف یہ ہمارا مارچ ہوتا ہے۔
ہمیشہ ایک نیریٹو یہ بھی سنائی دیتا ہے، یہ جو عورت مارچ ہے، یہ صرف اربن کلاسی ویمن کے لئے ہے ناٹ فار دا رورل ویمن، وہ جو پسی ہوئی گاؤں دیہات اور فار فلاں ایریا کی خواتین ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شہری خواتین کو گاؤں کی، دیہات کی خواتین کے مسائل کا معلوم ہی نہیں یہ بس آ جاتے ہیں۔
جی بالکل یہ کہا جاتا ہے، اور پہلی جو غلط فہمی ہے لوگوں کی کہ یہ صرف کراچی اور لاہور اور اسلام آباد میں منعقد ہوتا ہے بالکل ایسا نہیں ہے یہ پچھلے سالوں میں بلکہ اب تو ملتان میں بھی شروع ہو گیا ہے، حیدر آباد میں ہوتا ہے، لاڑکانہ میں ہوتا ہے، گھوٹکی میں ہوتا ہے اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو چھوٹے ضلعے ہیں وہاں سے لوگ جمع ہو کے کسی ایک جگہ پہ کر لیتے ہیں تو یہ بالکل غلط فہمی ہے کہ یہ صرف اور صرف جو شہر کی اربن مڈل کلاس عورتیں ہی یہ مارچ نکالتی ہیں، پہلی بات ، دوسری بات یہ ہے، کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ بہت اچھی بات ہے کہ شہر کی جو عورتیں ہیں دیکھیں میرے جیسی ایک عورت میرے گھر میں فاقے نہیں ہیں، ٹھیک ہے، میرے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں ایک خوشحال زندگی گزار سکوں تو میرے پاس جو پریویلیج ہے جتنا پریویلیج میرے پاس ہے اتنی زیادہ ذمہ داری میری بنتی ہے کہ میں ان عورتوں کی بھی بات کروں جن کے پاس بولنے کا موقع نہیں ہے جو کہ واقعی میں اس وقت دیہات میں ہیں، بغیر کیسی تعلیم کے ہیں، ہر طرح کی بیماری سے ان کے بچے ضائع ہوتے ہیں، خود ان کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ تو ایز اے مڈل کلاس عورت میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان عورتوں کی بھی بات کروں جو کہ میری صفوں میں نہیں ہیں اور جو کہ میری طرح پریویلیج نہیں ہیں۔
آپ مجھے بتایئے گا یہ جو ڈیمانڈز ہیں، جتنی بھی آوازیں لی گئیں، اور بخوبی آپ نے یہ بات سمجھائی فرمائی ہمارے دیکھنے اور سننے والوں کو، تو یہ ڈیمانڈز کس سے کی جا رہی ہیں، کون ہے جو پوری کرے گا، اس میں کون کون ہے، کون سٹیک ہولڈر ہیں کیا اس میں میں ہوں، اس میں آپ ہیں، ہمارا گھر ہے، ہمارا معاشرہ ہے؟ اجتماعی کون ہے انفرادی کون ہے عالیہ؟
یہ تو بہت ہی خوبصورت آپ نے سوال کیا بڑا اہم بھی ہے۔ میری نظر میں ہم دو مختلف سطحوں پہ مخاطب ہیں، ایک سطح تو وہ ہے جو کہ سٹیٹ کی طرف یعنی ریاست، حکومت کیونکہ حکومت کا جو مقصد ہے وہ لوگوں کو سرو کرنا ہے نا کہ لوگوں کہ اوپر حکمرانی جھاڑنا، تو چاہے آپ اس ملک کے غریب ترین شہری بھی ہوں لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپ کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے اور یہ ایک حقیقت ہے، آپ تمام تر رپورٹس اٹھا کر دیکھ لیں ساری کی ساری رپورٹس میں نیوٹریشن کے حوالے سے، لائیولی ہُڈ کے حوالے سے، ویل بینگ کے حوالے سے، آپ کو نظر آئے گا کہ عورتوں کی جو سٹینڈرڈ آف لیونگ ہے وہ مردوں کی نسبت بہت کم ہے، تو یہ بنیادی ذمہ داری جو ہے یہ حکومت کی ہے اور اسی لئے ہمارے بہت سے مطالبات یہ جو سٹرکچرل چیزوں کے حوالے سے تعلیم، صحت، روزگار یہ ہمارے حکومت کی طرف ہیں۔
دوسری سطح پر ہم اپنے معاشرے سے مخاطب ہیں، کیونکہ دیکھیں یہ ایسی چیزیں ہیں،کہ آپ دیکھیں کہ کتنے ایسے قوانین بنے ہوئے ہیں جو کہ عورتوں کے تحفظ کے لئے ہیں، مزدوروں کے تحفظ کے لئے ہیں رائیٹس کے پروٹیکشن کے لئے ہیں، لیکن وہ قوانین صرف اور صرف ان کاغذوں میں فائلوں میں کہیں پہ بند ہیں ان کا اطلاق نہیں ہوتا تو اس کی جو وجوہات ہیں اس کی جو جڑیں ہیں وہ کہیں نا کہیں ہمارے معاشرے کے اندر جو موجود تعصب ہے، ایک بہت ہی گہری سطح پر سب نے اور اس میں، میں عورتوں اور مردوں دونوں کو شامل کرتی ہوں ہم نے کہیں نا کہیں یہ تسلیم کیا ہوا ہے کہ بھئی عورت دوسرے درجے کی انسان ہے اس کے وہ حقوق اس کی وہ حیثیت نہیں ہے جو کہ اس معاشرے میں ایک مرد کو ملتی ہے اور ملنی چاہیئے اور یہ وہ سوچ ہے جس کو میرے خیال میں بہت سارے لوگ پراپیگیٹ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ خوف زدہ ہیں تبدیلی سے اس لئے نہیں کہ وہ اس کو سہی سمجھتے ہیں اس لئے کیونکہ وہ تبدیلی سے خوف زدہ ہیں
کس طرح کی تبدیلی کا خوف ہے عالیہ؟
میرا خیال ہے کہ لوگ جب آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا نا آپ کو کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، تو وہ جو تنکے کا سہارہ آپ کو نظر آتا ہے اسی کو آپ پکڑنے کے لئے آپ اتنی ساری خوبصورتی، پیارمحبت اور رواداری کو ہم قربان کر دیتے ہیں صرف کسی چھوٹے سے آسرے کو لینے کے لئے تو ہمارا جو بنیادی پیغام ہے وہ یہ ہے کہ فیمینزم جو ہے وہ قطعاً مردوں اور عورتوں کو علیحدہٰ کرنے کا نام نہیں ہے ان کے آپس میں تفریق اور تقسیم اور نفرتیں پیدا کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ بالکل الٹا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگوں کے درمیان، مردوں اور عورتوں کے درمیان، گھر کی سطح پر، معاشرے کی سطح پر، پیار محبت اور رواداری کی بنیاد پر ہمارے رشتے قائم ہوں اور وہ تبھی ہو سکتا ہے جب ہم سب ایک دوسرے کو ایک برابر کی حیثیت دیں گے، سب کو انسان مانیں گے، سب کو برابر کے مواقع ملیں گے، سب کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے، اور جو جو بھی سٹرکچرل چیزیں ہیں مسائل ہیں جو کہ ہمیں ایک دوسرے سے دور کرتی ہیں بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کر دیتی ہیں، ان ساری چیزوں کے خلاف، اس سارے نظام کے خلاف، ہم سب نے مل جل کے مقابلہ کرنا ہے۔
کبھی آپ نے ان بچوں سے بچیوں سے پوچھا کہ گھر والوں نے کیوں نہیں آنے دیا مارچ میں، کیا خوف تھا؟
مارچ سے لوگ نہیں روکتے، کسی بھی طرح کی کوئی بھی ایکٹوٹی ہو، اجتماعی ہو، کسی بھی طرح کی ہو، مثلاً یونیورسٹی کالجز میں کوئی سٹرائک ہو اپنے حقوق کے لئے ہی کیوں نا ہو، لیکن اس ملک میں والدین اتنے خوفزدہ ہیں کیونکہ جس طرح کی سیاست انھوں نے دیکھی ہے، دنگے فساد والی لوگوں کو استعمال کرنے والی، وہ جو سیاست انھوں نے دیکھی اس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بھی روکتے ہیں وہ صرف ہمارے مارچ میں جانے کے لئے نہیں روکتے وہ کسی بھی طرح کی سیاسی ایکٹویٹی میں جانے سے وہ لوگ روکتے ہیں۔
مجھے یہ فرمائیے گا کہ اکثر خواتین جب بھی سڑک پر نکلتی ہیں اپنے حقوق کے لئے، اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے، اس کو بے حیائی بےشرمی سے کیوں، حیا سے شرم سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟
دیکھیں یہ صرف عورتوں کے ساتھ نہیں ہوتا جو بھی سچ بولنے والے ہیں جو بھی ہمت رکھتے ہیں جو بھی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کی جرات رکھتے ہیں ان سب پہ کہیں نا کہیں مختلف طرح کے الزام شروع دن سے لگتے ہیں لگتے رہیں گے اور بلکہ یہ جو الزام لگتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کہیں نا کہیں کوئی ایسی بات کر رہے ہیں جو کہ کسی کو چبھ رہی ہے تو جو کہاوت ہے نا کہ بھئی سچ جو ہے وہ کڑوا تو لگتا ہے نا، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ تو یہ اسی طرح کا قصہ ہے اور اسی سے بلکہ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نا کہیں ہم جو بات کر رہے ہیں وہ درست ہے، لیکن اس کو ہضم کرنا شاید مشکل ہے۔
آپ کا کیا پیغام رہے گا اس عورت مارچ پہ جو سن رہے ہیں اور جو آنا چاہیں گے؟
میرا پیغام آپ سب کے لئے یہی ہو گا کہ یہ ہم سب کا دن ہے یہ عورتوں کا دن ہے، مردوں کا دن ہے، بچوں کا دن ہے، فیملیز کا دن ہے، ہم سب کے اتحاداور اتفاق کا دن ہے، ہم سب کے اکٹھے ہونے کا دن ہے تاکہ ہم سب مل کے ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جس میں ہم سب ایک بہتر اور انسانوں والی زندگی، خود کے لئے نا سہی، آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑ کر جا سکیں۔
آرٹ ورک: بی بی ہاجرہ