(حصہ سوئم)
عالیہ امیرعلی
قومی استحصال
کسی قوم کی سرزمین سے وابستہ لوگ، وسائل، ذخائر، معدنیات ،وغیرہ کو اگرکوئی دوسری قوم اپنی ملکیت بنا لے اور دوسری قوم کے وسائل، زمین، عوام وغیرہ کو اپنی پیداواری قوت کو بڑھانے کیلئے استعمال کرے توہم اسے قومی استحصال کا نام دیں گے۔ اس کی سب سے ننگی شکل براہِ راست فوجی قبضہ کی صورت میں نظر آتی ہے جس میں مفتوح قوم/خطہ کوقابض قوتیں اپنی سلطنت یا ملک کا حصہ قرار دے کراسے براہِ راست اپنی ملکیت بنا لیں۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ قومی استحصال ہمیشہ براہِ راست فوجی قبضہ کی شکل اختیار کرے۔ نوآبادیاتی نظام کے تحط انگیزوں نے برِصغیر کی معیشت کو اور حکمرانوں کو پہلے سیاسی اور معاشی حربے کے طور پہ استعمال کر کے مفلوج کیا اورپھر فوجی قبضہ کے ذریعہ اس خطہ کی زمین، وسائل، ذخائر،روایات اورظاہری طور پرمحنت کش عوام کو اپنی معاشی اور سیاسی قوت بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔ طریقہ میں فرق ہو سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر تمام نو آبادیوں میں ایک ہی طرح کا استحصالی رشتہ پایا جاتا تھا (اور پایا جاتا ہے)۔ برِصغیر کو خام مال کی پیداوار پر جامد کر کے برطانیہ میں کارخانے لگائے گئے اوروہاں کی پیداواری قوتوں کو تقویت ملی۔ دوسری طرف ہمیں برطانیہ کی مصنوعات کی منڈی بننے پر مجبور کیا گیا۔ آج بھی پاکستان عالمی سرمایہ داری نظام میں اسی طرح ایک نوآبادی کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے پوری دنیا میں انسانی وسائل (یعنی سستی مزدوری) درآمد ہوتے ہیں اور اپنی ضرورت کی بیشتر اشیاء بشمول پیداواری وسائل چند ممالک سے برآمد ہوتے ہیں جن میں امریکہ اور دیگر “ترقی یافتہ”ممالک یعنی کل کی نوآبادیاتی قوتیں پیش پیش ہیں۔ آج بھی ہمیں قرضہ عالمی بینک جیسے دیگر “ترقیاتی”ادارے اسی شرط پر دیتے ہیں کہ ہم انہیں اپنے ملک کے پیداواری نظام کو تقویت دینے کیلئے استعمال نہیں کر سکتے۔ بلکہ ان اداروں کی شرائط کے تحت ہی ہمیں اپنی معاشی پالیسیاں زیادہ سے زیادہ عالمی منڈی کے تابع لانی پڑ رہی ہیں۔ اس قومی استحصال میں (یعنی ہمارے ذرائع پیداوار پرسے ہمارا اختیار چھین لینے میں) ہمارے حکمران طبقات (امیر عورت کی طرح) عالمی سرمایہ داری نظام کے ٹھیکیداروں کے ساتھ یقیناً ملے ہوئے ہیں لیکن جونئیر پارٹرنر کی حیثیت سے۔ حاکم طبقہ کی عورت کی طرح انہیں عالمی سرمایہ دارکے خلاف لڑنے سے (فی الحال) فوائد کم ہیں اور نقصانات زیادہ، کیونکہ اس سے ان کی اپنی اندرونی (یعنی ملکی سطح پر) حکمرانی متاثر ہوگی۔
سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کی نویت لازمی طور پر نا ہموار ترقی ہوتی ہے۔ چاہے ہم اسے بین القوامی، ملکی، صوبائی، یا مقامی سطح پر دیکھیں۔ جس طرح کا تعلق برِصغیر کا اور برطانیہ کا تھا اور آج پاکستان کا اور عالمی مالیاتی اداروں کا ہے، اسی طرح ہمارے ملک کے اندر مختلف خطوں کا آپس کا تعلق بھی اسی استحصالی رشتہ کی عکاسی کرتا ہے۔ جس طرح انگریز نے برِصغیر کو خام مال کی پیداوار اور زراعت پر جامد رکھا اور کارخانے اپنے ملک میں لگائے اسی طرح پاکستان میں بیشتر سرمایہ کاری اور صنعتیں پنجاب میں لگتی ہیں جبکہ ان صنعتوں کو چلانے والی معدنیات (خاص طور پر گیس، تیل اور کوئلہ) بلوچستان سے نکالی جاتی ہیں اور جہاں کے بیشتر ضلعوں میں صنعت کاری دور کی بات ہے، گیس فراہم تک نہیں کی جاتی۔ صوبہ کی سطح پر دیکھیں تو یہی تضاد نظر آتا ہے۔ صنعت کاری پورے پنجاب میں نہیں بالخصوص سینٹرل پنجاب میں کی جاتی ہے اورسرائیکی وسیب کی بیشتر عوام (بالخصوص نوجوان مرد) مزدوری کی تلاش میں فیصل آباد، لاہور یا کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے۔ صوبہ کے اندر مختلف علاقوں میں بھی یہی تضاد پایا جاتا ہے۔ مثلاً سرائیکی وسیب میں ملتان شہر اور راجن پور کے ایک چھوٹے دیہات کی صورتِ حال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ضلع کوئٹہ کے ہیڈکواٹراور اس کے مضافاتی تحصیلوں میں بھی یہی فرق نمایاں ہے۔
قومی استحصال کا ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی قوم کی تاریخ، ثقافت، زبان، یا شناخت کو جب دبانے کی کوشش کی جائے اور اس کی جگہ کسی دوسرے کی ثقافت، زبان، مذہب، تاریخ وغیرہ مسلط کی جائے تو اسے بھی ہم قومی استحصال کاایک پہلو کہیں گے۔ کیونکہ زبان، شناخت، ثقافت اور تاریخ کسی بھی قوم کی تاریخی اوراجتماعی پیداوار ہوتی ہے۔ مثلاً جب انگریز برِصغیر پر قابض ہوئے اور یہاں کی معیشت کو اپنے تابع لانے کی کوشش میں مصروف تھے تو انہوں نے یہاں کی زبان، تاریخ اور ثقافت کو بھی مسخ کیا اور اپنے فائدہ کیلئے استعمال کیا (حالانکہ وہ اپنی ثقافت کو یہاں اس طرح لاگو نہیں کر سکے جس طرح ہسپانیہ نے لاطینی امریکہ میں کیا) کیونکہ اسے مسخ کیے بغیر وہ اپنی حکمرانی قائم نہ رکھ سکتے۔ اسی طرح پاکستانی حکمران یہاں کی قوموں کی ثقافت، تاریخ، زبان اور شناخت کو مٹائے بغیر اپنے دو قومی نظریہ کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ معاشی، سیاسی اور قومی/ثقافتی جبر اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جنسی استحصال کی طرح اس مسئلے کو بھی طبقاتی استحصال کے تناظر میں دیکھنا چاہئیے۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ طبقاتی ہے، جس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ ہر قوم کے اندر حاکم طبقات وہاں کے محنت کشوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ بات مقامی تناظرمیں تو درست ہے۔ لیکن جب ہم اسے ملکی سطح پر دیکھیں گے تو طبقاتی نظام کی پیدا کردہ بہت سی ناہمواریاں بھی ہیں جس میں حاکم طبقات کے علاوہ مختلف خطوں میں رہنے والے لوگوں کی حالتِ زندگی میں اس طبقاتی نظام کی وجہ سے فرق آجاتے ہیں۔ مثلاً وہ انگریز جو کہ یہاں سے خام مال لے جاتا تھا وہ اپنے ذاتی فائدہ کیلئے لے جاتا تھا۔ اور اس کے (یعنی حکمران طبقہ کے) فائدہ میں تھا کہ وہ کارخانہ برطانیہ میں لگائے کیونکہ اسے وہاں حکمرانی بھی کرنی تھی اور برِصغیر کو اپنی مصنوعات کی منڈی بھی بنائے رکھنا تھا۔ برطانیہ کا مزدور تو ہمارے استحصال کی وجہ نہیں تھا بلکہ ہمارے اپنے حکمران طبقات، انگریزوں کے استحصال میں حصہ دار تھے۔ لیکن بیک وقت انگریزحکمران طبقہ کی اپنی مجبوریوں اور مفادات کے تحت برطانیہ میں صنعت کاری کرنے کے فیصلے نے وہاں کے مزدور کو یہاں کے مزدور کی نسبت پذیرائی فراہم کی۔ برطانیہ کے مزدوروں کو برِصغیر کے عوام کے استحصال کے نتیجہ میں ملازمتیں ملیں اور ان کا پیداواری نظام یہاں کی نسبت بہتری کی طرف بڑھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم برطانیہ کے مزدور کو اپنا دشمن تصور کریں۔ اور نہ ہی نوآبادیاتی نظام کو مزدور دوست نظام کہنے لگیں۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ حکمران طبقات کے اپنے مفادات کے تحت ہونے والی ترقی ہمیشہ ناہموار ہوتی ہے اور اس کے سماجی، معاشی اور سیاسی اثرات صرف حکمران طبقہ تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے سماج میں پھیلتے ہیں، جس میں محنت کش طبقہ بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ حکمران طبقات جس ملک یا قوم یا برادری/قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے حالات نسبتاً بہتر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے اپنے خطہ کو اپنے تابع رکھنا اور کیونکہ وہ معاشی طور پر بھی ان کے مفادات کیلئے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بالادست قوم کے استحصال زدہ طبقات کی حالتِ زندگی محکوم قوم کے استحصال زدہ طبقات سے بہتر ہوتی ہے۔ آج امریکہ کے محنت کش اور پاکستان کے محنت کش کی حالت ایک نہیں ہے۔ اگر امریکہ کے محنت کش کی حالت یہاں کے محنت کش سے بہتر ہے تو وہ اس لیے ہے کیونکہ ان کے حکمران طبقات عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کا استحصال کر رہے ہیں۔ جس میں وہ دیگر ممالک کی پارلیمنٹ سے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ خود مختار قومی معاشی پالیسی بنانے پر پابندیاں لگارہے ہیں۔ (یاد رہے کہ تقریباً کسی بھی ملک کے پارلیمنٹ میں محنت کش طبقہ کے نمائندہ نہیں بیٹھتے بلکہ حکمران ہی بیٹھتے ہیں)۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عالمی سرمایہ داری نظام میں ہمارے حکمران محنت کش بن گئے ہیں۔ یا کہ امریکی محنت کش ہمارے استحصال کا ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بڑے اور زیادہ طاقتور حکمران اپنے سے نچلی سطح کے حکمرانوں پر بالادستی رکھتے ہیں۔ اور اسی طرح بالادست قوم کے عوام بھی محکوم قوم کے عوام سے معاشی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ مثلاً آج سینٹرل پنجاب میں سکولوں ہسپتالوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں اور دیگرتعلیم صحت تعلیم اور روزگار کے مواقع پاکستان کے دیگر صوبوں نسبتاً زیادہ نظر آتے ہیں۔ (سندھ، بلوچستان، سرائیکی وسیب، پختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے بڑے پیمانے پر اندرونِ اور بیرونِ ملک ہجرتیں ہوئی ہیں۔ جبکہ سینٹرل پنجاب میں اس پیمانے پر ہجرتیں نہیں ملتیں)۔
اس ناہمواری کا قصور پنجابی مزدور کا نہیں نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں اب بھوک اور افلاس نہیں رہی اور تمام محنت کش خوشحال ہو گئے ہیں۔ اس ناہمواری کا قصوروار، پاکستان میں سرمایہ داری/ نوآبادیاتی نظام ہے اور ہمارے ملک کے حاکم طبقات ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئیے کہ پاکستان کے حاکم طبقات میں پنجابی قوم سے تعلق رکھنے والے مرد حکمران سب سے نمایاں اور طاقتور ہیں۔ اور پاکستان کے پیداواری وسائل اور سرمایہ کی ملکیت کا قومی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے سرِفہرست رہے ہیں۔ ویسے توپیداواری وسائل پر سب سے بڑا قبضہ ریاست کا ہےاور جہاں پر ایک طرف ریاست قومیت سے بالاتر ہو کر اپنے ادارتی اور طبقاتی مفادات کو اولین رکھتی ہے، دوسری طرف ریاستی اداروں میں بھی طاقت کا توازن قومی اورجنسی رنگ اختیار کر جاتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال فوج کی ہے، جس کا پیداواری وسائل اور سرمایہ پر سب سے بڑا قبضہ ہے۔اور فوج کے اندراس کے بالائی افسران کا ہے جن میں سے بیشتر پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی قوموں کے حکمران یقیناً اپنی عوام کے استحصال میں شامل ہیں لیکن جونئیر پارٹنر کی حیثیت سے یعنی مختلف حوالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک طبقاتی سماج میں رہتے ہیں اورایسے سماج میں قومی استحصال طبقاتی نظام کا لازمی جزو ہے۔ اسے نہ طبقاتی استحصال سے الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قومی بنیادوں پربننے والی طبقاتی تفریق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ قومی استحصال طبقاتی استحصال کا ہی ایک پہلو ہے، اسی کی ایک شکل ہے۔
آخر میں واپس اس سوال پر آتے ہیں کہ کیا مارکسزم میں استحصال کی مختلف شکلوں میں کوئی بالادستی موجود ہے؟ (میں یہ دعویٰ بالکل نہیں کرتی کہ اس پر میرا نقطہِ نظر واحد ہے جو کہ مارکسی نقطہ نظر کی نمائندگی کر رہا ہو۔ میں اپنی سمجھ کے مطابق اپنی رائے آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں)۔ گزارش یہ ہے کہ طبقاتی استحصال کو قومی یا جنسی استحصال سے الگ کر کے دیکھنا ہی غلط ہے۔ کیونکہ قومی یا جنسی استحصال بھی طبقاتی استحصال کی شکلیں ہیں اور ان تینوں کا سرچشمہ، نجی ملکیت اور طبقاتی پیداواری نظام ہیں۔ یعنی کہ ایک استحصال کی قسم کو دوسرے سے زیادہ بنیادی قرار دینا اس بنیادی حقیقت کی نفی کرتا ہے کہ یہ تینوں ایک ہی ماں کے بچے ہیں۔ اور استحصال کی مختلف شکلیں ہیں جن کی وجہ سے طبقاتی نظام قائم رہتا ہے۔ اس مسئلہ پر ابہام تب پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہماری اصتلاحوں میں (شائد ان کے استعمال میں) ابہام موجود ہے۔ جب ہم طبقہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو عموماً ہماری مراد پیداواری عمل سے براہِ راست جڑے ہوئے گروہ (سرمایہ دار اور مزدور، جاگیردار اور مزارع) ہوتے ہیں۔ ہماری اصطلاحوں میں ” طبقہ ” سے مراد معاشی طبقہ لیا جاتا ہے اور” گروہ” یا “سماجی گروپ” سے مراد معاشی یا پیداواری عمل سے جدا (یا کم از کم بلاواسطہ تعلق رکھنے والے) گروہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ سماجی گروہ کو طبقہ نہیں کہا جاتا۔ یعنی ہمیں اب” طبقہ ” کے مفہوم پر بات کرنی ہوگی۔
جیسے استحصال کسی چیز یا گروہ کا نام نہیں ہے اسی طرح طبقہ بھی ایک رشتہ کا نام ہے۔ جوکہ ان گروہوں کے درمیان ہوتا ہے جہاں وسائل کی ملکیت ایک کے پاس ہو اور ان وسائل پر محنت کرنے والے اور ہوں (اور ان وسائل کی ملکیت نہ رکھتے ہوں) تو اس رشتہ کو طبقاتی رشتہ کہتے ہیں۔ اگر پیداواری وسائل کی ملکیت رکھنے والوں اور ان پر محنت کرنے والوں کی بات ہو رہی ہو تو آپ انہیں معاشی طبقات کہہ لیں ۔اورجہاں ذرائع پیداوار کے علاوہ وسائل کی ملکیت کی بات کی جائے (مثلاً ذاتی مکان، ذاتی زمین جوکہ پیداواری عمل میں نہ استعمال ہورہی ہو، ذرائع آمدن، خاندان، وغیرہ) تو انہیں سماجی طبقات کہہ لیں۔ یعنی طبقہ کسی خاص گروہ کا نام نہیں بلکہ ایک تعلق کا نام ہے۔ مزارع یا مزدور بذاتِ خود طبقہ نہیں ہیں۔ یہ طبقات بن جاتے ہیں جب کسان کسی اور کی زمین پر محنت کرتا ہو یا مزدور اپنی محنت سے بنائی ہوئی چیز کا مالک نہ ہو۔اسی طرح مرد یا عورت کوئی لازمی طور پر سماجی طبقات نہیں ہیں (اور نہ ہمیشہ سے تھے)۔ مرد بالادست طبقہ بن جاتا ہے جب وسائل (پیداواری یا غیرپیداواری) اس کے پاس مقید ہو جاتے ہیں اور وہ عورت اور مرد کی اجتماعی پیداواراوربالخصوص عورت کی محنت کی پیداوار دونوں کا وہ خصوصی مالک بن جاتا ہے۔
ویسے تو معاشی اور سماجی طبقہ میں بھی فرق مصنوعی ہے۔ کیونکہ معاشی گروہ بھی طبقاتی سماج کی پیداوار ہیں اور اسی کا حصہ ہیں (جس میں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی کوئی زبان، ثقافت، قوم، علاقہ، جنس، مذہب وغیرہ اس کی معاشی طبقاتی شناخت کا حصہ ہوتے ہیں)۔ اورہر سماجی طبقہ میں معاشی طبقاتی تفریق موجود ہے۔ یعنی کسی کے پاس وسائل ہیں اور کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنی آسانی کیلئے سماجی اور معاشی طبقہ کی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں کیونکہ عموماً معاشی طبقہ سے ہماری مراد براہِ راست پیداواری عمل میں حصہ لینے والے طبقات ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو کہ پیداواری عمل میں براہِ راست نہیں لیکن “غیر پیداواری”وسائل پیدا کرتے ہیں جو کہ پیداواری عمل کو ممکن بناتے ہیں بلکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی بنتے ہیں۔ مثلاً عورت گھر چلاتی ہے جہاں سے مزدور پیدا ہے اور اس کی دیکھ بھال ہوتی ہے جس کی وجہ سے مزدور، مزدوری کے قابل بنتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں مسیحی وہ کام کرتے ہیں جو کہ ایک مسلمان مزدور نہیں کرتا (کم از کم جب تک مسیحی برادری کے لوگ اس علاقہ میں موجود ہوں)۔ یعنی صفائی کا کام۔ محنت کشوں کا یہ گروہ کمی یا چوڑا کی سماجی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں اور اکثر ان کی معاشی حالت بھی مسلمان محنت کشوں سے بدتر ہوتی ہے۔ سیاسی طور پر انہیں دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا جاتا ہے اور وہ ہمارے ملک کی سربراہی نہیں کر سکتے۔ یعنی طبقاتی سماج کی تمام پرتوں میں طبقاتی استحصال پایا جاتا ہے۔ محض پیداواری عمل میں براہِ راست شریک طبقات کے درمیان طبقاتی تضاد نہیں ہے بلکہ یہ تضاد سماج کی تمام پرتوں میں موجود ہے۔
اس بحث کو اس طرح سمیٹا جا سکتا ہے کہ ایک طبقاتی سماج میں طبقاتی استحصال بلاآخر سماجی استحصال ہی ہوتا ہے (یا ایسے کہہ لیں کہ سماجی استحصال بلا آخر طبقاتی استحصال ہوتا ہے، بات ایک ہی ہے)۔اور ہماری منزل یعنی طبقاتی سماج کا خاتمہ ان تمام استحصال کی شکلوں کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے۔ ہم قومی ،معاشی، طبقاتی اور جنسی استحصال کو ملکیت رکھنے والوں اور محنت کرنے والوں کی طبقاتی تقسیم سے ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ حکمران طبقات محکوم طبقات کے اندرونی تضادات کو استعمال کرکے انہیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا کام ہے اس تقسیم کے خلاف لڑنا اور محکوم (معاشی /سماجی)طبقات کو متحد کرنا اور شعوری سطح پر محکوم طبقات میں یہ یکسانیت پیدا کرنا کہ ہم سب کے استحصال کا سرچشمہ ایک ہے اور یہ کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اس اتحا د اور یکسانیت کو تعمیر کرنے کیلئے سب سے پہلے تو ہمیں شعوری طور پر محکوم طبقات کے اندرونی تضادات کو سمجھنا ہوگا اورانہیں تسلیم کرنا ہو گا۔ اتحاد کے نام پر سماجی حقیقتوں اور تضادات سے اپنا منہ موڑنے کی کوشش ہمیں بلا آخر آپس میں ہی لڑوا دے گی۔ ہمارا کام یہی ہے کہ محکوم طبقات کے اندرونی تضادات سے انہیں بالا تر کرنا ہے۔ جو کہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب ہم تسلیم کریں کہ یہ تضادات وجود رکھتے ہیں۔ اور ان تضادات کی بنیادیں محکوم طبقات کے اندر طاقتور اور کمزور دونوں گروہوں کو سمجھائیں۔ تاکہ وہ شعوری بنیادوں پراستحصال پر مبنی اس طبقاتی نظام میں اپنی مجموعی غلامی کو پہچان سکیں۔ اور اپنی مشترکہ غلامی کو ایک دوسرے پر بالا دستی کی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ ہمارا آزادی کا تصور یہ نہیں ہے کہ طبقاتی تفریق میں آج کا محکوم کل کا حاکم بن جائے۔ ہماری منزل طبقاتی سماج کا خاتمہ ہے جس میں انسان ہر طرح کے استحصال سے آزاد ہو گا۔ اورطبقاتی حیثیت کے بجائے انسان کی حیثیت سے ایک دوسرے کو پہچانے گا ۔
نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلے “طالب علم” میگزین میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: لیٹف ۲۰۰۹