تاریخ اور نصابی کتب

مہوش جمیل

تاریخ اور نصابی کتب، ڈاکٹر مبارک علی اس کتاب کے مصنف ہیں اور یہ جنوری 2010ء میں سانجھ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی۔ چند سوالات جو کتاب کے نام سے ذہن میں ابھرے وہ یہ کہ تاریخ ہماری نصابی کتب پر کیا اثرات ڈالتی ہیں اور اس سے نوجوان نسل کی سوچ میں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں نصابی کتب تو تبدیلی کے مرحلے سے نہیں گزرتی تو کیا یہ بھی ایک تاریخی عمل کے تحت ہے؟

یہ سوال اس ذہن کے ہیں جو نظریاتی ریاست میں نظریاتی سوچ رکھنے والا ہے۔ جس کے لیے قوم پرستی، قومی مفادات حب الوطنی کے جذبات قومی ہیروز اور خاص طور مذہبی جذبات بہت اہم ہیں۔ اور یہ وہ تمام عناصر ہیں جو نصابی کتب کے ذریعے معاشرے میں انڈیوس کیے جاتے ہیں،  جس سے سوچ کو ایک دائرہ کار میں رکھتے ہوئے محدودکر دیا جاتا ہے اور پورا معاشرہ ہی ایک سوچ کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہماراماضی شاندار ہے جس کی ابتدا محمد بن قاسم سے ہوئی۔ فاتحین کے کارنامے اور مغلیہ دور حکومت جوکئی صدیوں تک رہی، ہمارے لیے غرور و فخر کا باعث ہیں، مسلمانوں نے جہاں کہیں بھی اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے،  وہ ہمارے لیے باعث فخر ہیں۔ قومی ہیروز جو عظیم خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ عظیم شخصیتیں ہی ہمیں کسی آفت اور ہنگائی صور تحال سے باہر نکالتی ہیں۔ ہم مسلمان قوم، انسانیت کے محافظ اور سچائی کوماننے والے ہیں۔ دشمن سے مقابلے کے لیے جہاد افضل ہے۔ اور اسی کے ذریعے دنیا کوتبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسلام اور دوقومی نظری کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں بہت اختلافات ہیں۔ مذہب کے علا وہ ان کے رہن سہن کے طریقے لباس، زبان اور خوراک میں بھی فرق تھا۔ دونوں قوموں کے تہوار۔ طرز تعمیر، تاریخ اور تہذیب بھی جدا تھی۔

  ہماری نصابی کتب ہمیں نیشنل ازم، ہیروازم ، قوم پرستی، بنیاد پرستی، مذہبی جذبات اور انتہا پسندی کا سبق پڑھارہی ہیں۔ جس سے سوچ ایک ایسے دائرہ میں گردش کررہی ہے جو تبدیلی کا خواہاں نہیں ہے۔ سوچنے سوال کرنے بحث و تجزیہ کرنے، تنقید و تحقیق کرنے کا جذبہ ناپید ہو چکا ہے۔

تاریخ اور نصابی کتب ایک مکمل کاوش ہے نوجوان نسل میں شعورو آگہی پیدا کرنے کی اور تاریخی عمل کے ذریعے موجودہ حالات و واقعات کو سمجھنے کی، سیاسی اتار چڑھاؤ میں نصابی کتب میں کی جانے والی تبدیلیاں اور نوجوان نسل کو معاشرے میں یکساں نظریاتی سوچ کے ساتھ پروان چڑھانے کے عمل میں حکمران طبقے کے مفادات اور اسکے نتیجے میں طلب میں پیدا ہونے والے منفی اثرات کو سمجھنے کی۔

 نصابی کتب کسی بھی معاشرے کے کلچر کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتی ہیں مگر ان نصابی کتب کا مقصد نوجوان نسل کومعلومات فرا ہم کرنا نہیں بلکہ ایسے خیالات و نظریات پیدا کرنا ہے جو اہل اقتدار اور حکمران طبقے کے خیالات کی عکاسی کریں اور ان کے  اقتدار کو جواز بخشیں۔ اس مقصد کے لیے نصابی کتب میں تاریخ  کامضمون سب سے اہم اور موثر ہے۔ جے سیاسی ،سماجی اور مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔ جیمس ڈبلیو  لوون تاریخ کی نصابی کتب نو آبادیاتی دور میں یورپ اور امریکہ میں افریقہ گائے، کے بارے میں لکھتے ہیں: وہ جھوٹ جو میرے استاد نے مجھے بتائے”  ہندوستان میں ودھیا بھارتیا سکولوں کا ایک نظام موجود ہے جن کی کل تعداد 6000 ہے اورتقریباً12 لاکھ طالب علم ان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ اپنا نصاب خود تیار کرتے ہیں جو سوالات و جوابات کی شکل میں ہوتا ہے مثلاً :- وہ کون سا ملزم لٹیرا تھا جس نے 1032 میں ادرھیا کے مندروں کو مسمار کیا؟ جواب: محمودغزنوی کے بھتیجے سالار مسعود۔ سوال: چین میں کلچر کی ترقی کے ذمہ دار کون لوگ تھے؟ جواب: قدیم ہندوستان کے لوگ۔ سوال: وہ کون سا حملہ آور تھا کہ جس نے 1528ء میں رام کے مندرکو تباه کیا؟ جواب: بابر ۔

 ایسے نصاب سے یہ باخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ کس قدر قدر مستند غلط جھوٹ پر مبنی تاریخ طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔ اور ایسی یی تاریخ پاکستان میں معاشرتی علوم کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ جس سے نوجوان نسلوں میں تعصب، نفرت، فرقہ واریت اور نسلی تفاخر کے جذبات ابھرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مدرسوں میں بھی اسی نصابی کتب تشکیل دی جاتی ہیں جو بہت گمراہ کن ہیں۔ طالب علم جوکورے ذہن رکھتے ہیں کتاب اور استاد کے پڑھائے کو ہی سچ مانتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے دوران چونکہ ان کا علم محدود ہوتا ہے اس لیے وہ کتاب کے مواد یا استادکو چیلنج نہیں کر پاتے۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقے اپنے مفاد کے لیے نصابی کتب کواستعال کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جو فرقہ واریت، بنیاد پرستی، انتہا پسندی کے خیالات ان میں داخل کر رہے ہیں وہی ان کو آپس میں بھی لڑا رہے ہیں۔ شیعه سنی کی لڑائیاں اسی فرق کے باعث ہیں۔ یہی فرق اور نسلی تفاخر طبقاتی سوچ کو جنم دیتی ہے۔ اس طبقاتی سوچ کے فروغ کے لیے ہر ظلم کو روا رکھا جاتا ہے۔

 نو آبادیاتی دور میں یورپ اور امریکہ میں افریقہ کے لوگوں کو وحشی قرار دیا جانے لگا۔ وہاں سے غلام بنا کر زبردستی اپنے ممالک میں لایا جاتا ۔ حکومت کی پالیسی کے مطابق انہیں معاشرے میں سفید فام سے جدا رکھا جاتا تھا۔ افریقہ میں ان لوگوں کی مزاحمت پرانہیں خوف و ہراس کی حالت میں رکھا جاتا، ان کے گھروں کو جلایا جاتا اور کا قتل عام کیا گیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ افریقہ سے آنے والے لوگ ہی تھے جنھوں نے اسپین اور اٹلی کو نئے علوم و فنون دیے اور پھر عربوں نے وہ یونیورسٹیاں قائم کیں کہ جنہوں نے یورپ کو علم و دانش سے روشناس کرایا۔1950ءاور1960ءکی دہائی میں سول رانٹس کی تحریک چلی جس میں کالوں کو شعوری احساس دیا گیا کہ وہ اپنی تاریخ کی جڑوں کو تلاش کرتے ہوئے اپنی شخصیت کا تعین کریں۔ ان میں مارٹن لوتھر کنگ کا نام نمایاں ہے جو سول رائٹس تحریک

کے قائد تھے اور 1968ء میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی تقریر” میرا ایک خواب ہے” بہت اہم ہے۔ میرا یہ  خواب ہے کہ میرے چار ننھے بچے ایک دن ایک ایسی قوم میں زندگی بسر کریں گے جہاں انہیں ان کی جلد کی رنگت کے اعتبار سے نہیں بلکہ ان کے کردار کے جوہر سے پرکھا جائے گا۔ آج میرا ایک خواب ہے۔میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن ایلا باما کی ریاست جس کے گورنر کےلبوں سے اس و قت  دخل اندازی اور تنسیخ کے الفاظ ٹپک رہے ہیں۔ ایک ایسی حالت میں ڈھل جائے گی کہ جہاں چھوٹے سیاہ فام لڑکے اور کیاں، سفید فام لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاتھ پڑے ہوں اور بھائیوں کی طرح باہم چلنے کے قابل ہوجائیں گے۔ جب ہم آزاددل کا ساز پکنے دیں گے تو اس دن ہم تیزی سے ترقی کر سکیں گے۔ جب کہ تمام بندے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہی روحا نی گیت گائیں گے۔

آخر کار ہم آزاد ہو گئے۔ آخرکار آزاد ہو گئے۔

Free at last free at last Thank God Almighty, we are Free at last

نو آبادیاتی دور میں جان براؤن جس نے غلامی کے خلاف مسلح تحریک چلائی اور اسی جرم میں اسے پھانسی دی گئی ۔ نصابی کتب میں اسے پاگل کہا گیا لیکن تاریخ اپنے بقاء کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ایسے مؤرخوں کو سامنے لائی ہے کہ جو مصائب وتکالیف کو برداشت کرتے ہوئے سچائی اور حقیقت کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے تاریخ زندہ رہتی ہے اور ماضی کے ہیرو حال میں مجرموں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

 ایسی ہی طبقاتی سوچ نے معاشرے  میں طبقاتی نظام کو پیدا کیا۔ جس میں عورت کا مقام مرد کے مساوی نہ رہا۔ عورت کی سوچ فکر، خیالات کو یکسر طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ تمام تاریخی عمل میں عورت کا کیا کردار رہا ہے؟ دنیا میں جتنی بھی  انقلابی  تحریکیں چلیں ان میں عورت کی کیا حیثیت رہی؟ تاریخ حقوق نسواں کی ایک جرمن خاتون نے کہا تھا کہ: ”میری تاریخ کی کتاہیں جھوٹ بولتی ہیں وہ کہتی ہیں کہیں میرا وجود نہیں تھا”

 اگر عورت کو اپنی تاریخ رقم کروانی ہے تواس کے لیے عورت کو جدوجہد کرنا ہوگی۔ اپنی آزادی کی جدوجہد! جدید مالیاتی نظام میں جنس کی بنیاد پر ہونے والے استحصال کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ سیاسی نظام چاہے آمرانہ ہو، جاگیردانہ یا سرمایہ داری کا ہو، سب میں عورت کی غلامی ہے۔ آزادی کی جنگ کے لیے تمام محنت کش قوموں کو ایک ہوکر ایسے معاشرے اور سیاسی نظام کی تشکیل دین ہے جو طبقات سے پاک ہو۔

قانون فطرت ہے اور یہ تبدیلی سائنٹفک اصول کے تحت معاشرے کو آگے بڑھاتی ہے۔ مگر طبقاتی نظریہ و سوچ کو فروغ اپنے والے حکمران طبقے ریڈیکل سوچ کو پروان نہیں چڑھنے دیتے، وہ نصابی کتب میں ان خصوصیات کا تذکرہ ہی نہیں کریں گے جو ان کے مفاد کے تحت نہ ہوں اور اس طرح اصل حقائق سے طلبہ کو بے خبر رکھا جاتا ہے تا کہ ان میں بغاوت نہ ابھر سکے۔

مثلاً امریکی خاتون ہیلن کیلر کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو ایسے کہ اندھی بہری اور گونگی ہونے کے باوجود تعلیم حاصل کی اور معاشرے میں ہیروئن کا درجہ دیا جاتا ہے مگر وہ ریڈیکل سوچ کی حامل تھی اور ایک سوشلسٹ تھی۔ یہ نصابی کتب میں بیان نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے یہ نظریات ریاست کے لیے باعث خطرہ تھے اور اسی طرح امریکی صدر وڈرو ولسن کو نصابی کتب میں بطور ہیرو پیش کیا جا تا ہے کہ اس نے لیگ آف نیشن کے ذریعے دنیا میں امن  قائم کرنے کوشش کی مگر اس کے نسل پرست جذبات کو اجاگر نہیں کیا جا تا جس کی بنیاد پر اس نے وفاقی حکومت میں علیحدگی کی بنیاد پر کالی آبادی کو دور رکھا اور غیر ملکیوں پر فوری مداخلت کی۔ ان مثالوں سے  یہ واضح پیدا ہوتا ہے۔کس طرح ہیرو ازم کے تصور کو فروغ دیتے ہوئے ان کے کردار کا صرف وہ رخ سامنے لایا جاتا ہے چو حکمران طبقے کے مفاد میں ہو اور ہر عیب سے پاک آئیڈیل انسان ہیں۔ یاد رہے کہ صرف وہ کردار جو ریاستی حکمراں طبقے کے مفاد میں ہو صرف انہی کو بڑھاچڑھا کہ نصابی کتب میں بطور ہیرو پیش کیا جاتا ہے۔

 تاریخ کا کام یہ ہے کہ وہ ماضی کے ذریعے حال کو سمجھنے میں مدد کرے اور یہ بھی کہ حال کی روشنی میں کس طرح ماضی کا مطالعہ کیا جائے۔ آج اگر دیکھا جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیز کا ایک جال نظر آتا ہے جس کے تحت یورپی مالک نے سابق کولونیل ممالک پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔ ملٹی نیشنل کے مفاد میں مخالفوں اور سیاستدانوں کا  قتل کروایا جاتا ہے اور استحصالی حکومت کی مدد کی جاتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سابق کولونیل ممالک آج آزاد ہیں؟ سابق کولونیل ازم کی جدید شکل کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کلاسیکل کولونیل ازم کو سمجھنا ضروری ہے۔ بیسویں صدی میں یورپی ممالک کے لیے یہ سوال اہم تھا کہ نوآبادیات کا استعمال کیسے کیا جائے اور اگر لوگوں میں مزاحمتی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں تو انہیں کیسے کچلا جائے؟ اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو یہاں حکومت برطانیہ نے تاریخ کو سامراجی نقطہ نظر سے پڑھایا۔ لارڈ کرزن جو ہندوستان کے گورنر جنرل اور وائسرائے رہا ہے، اس نے انڈیا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ سے کہا تھا کہ تعلیم میں اس قسم کی نصابی کتابیں تیار کرنا چاہیے کہ جو دونوں کمیونٹیز میںاختلافات کو اور زیادہ ابھاریں۔ لارڈ میکالے نے دو(2) فروری 1835ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں یہ خطاب کیا۔

“I have travelled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such a wealth I have seen in this country, such high moral values people of such caliber that I do not think we conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if Indians think that all that is foreign and English is good greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them a truly dominated nation.”

اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے برطانوی حورین نے تاریخ لکھتے ہوئے نصابی کتب میں اس طرح تبدیلیاں کیں کہ یہ سب جھوٹ تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گئے جس سے دونوں قوموں میں جو صدیوں سے آباد تھیں، فرقہ وارانہ جذبات، نفرت اور تعصب پیدا ہوا جو آگے چل تقسیم کا باعث بنا۔ مثلاً ڈاکٹر پانڈے نے تاریخ کی ایک نصاب کی کتاب کا مطالعہ کیا جو الہٰ آباد کے اینگلو بنگالی کالج میں پڑھائی جاتی تھی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تین ہزار برہمنوں نے اس وقت خودکشی کرلی کہ جب ٹیپوسلطان نے (انگریزوں کو جس سے سب سے زیادہ خطرہ تھا) انہیں زبردستی مسلمان بنانا چاہا۔ اس کے مصنف ڈاکٹر ہرشا پرشاد شاستری ہیں، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ انہوں نے کرنل ماٹلس کی کتاب سے اور انہوں نے ملکہ وکٹوریہ کی لائبریری سے فارسی سے نقل کیا ہے اور مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ اس قسم کا کوئی فارسی مسودہ نہیں ہے۔

لارڈفرن (88۔1884) کو سیکرٹری آف اسٹیٹ نے نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی جذبات کو زیادہ سے زیادہ ابھارنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ڈیوائڈ اینڈ رول کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے یہاں کا کلچر، نظام تعلیم اور صنعت کو تباہ کر کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اسے کلاسیکل کولونیل ازم کا نام دیا گیا ہے۔

جب دوسری جنگ عظیم  کے بعد کولونیل طاقتیں کمزور پڑ گئیں اور نوآبادیات میں مزامی تحریکیں اٹھنے لگیں۔ اب سوال یہ اہم تھا کہ یہ ممالک ماضی میں گویا ان کے لیے منافع کا ایک ذریعہ تھے تو مستقبل میں بھی کیسے ان کے لیے منافع بخش ہو سکتے ہیں؟ تو اس مقصد کو پورا کرنے کے لی نوآبادیات میں یہ پیغامات پہنچائے گئے کہ آزادی سے زیادہ ضروری عمل یہ ہے کہ وہ اس عمل کو قبول کرلیں جوکولونیل طاقتوں نے شروع کیا ہے۔ کیونکہ نو آبادیات کے لوگ اس قابل نہیں کہ جدیدیت کے عمل کو پورا کر سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں یورپی طاقت پر ہی انحصار کرنا ہوگا اور جدیدیت کیا ہے؟

 جدیدیت جس کے تحت یورپ ممالک یہاں سے جانے کے بعد بھی ان ممالک کی معیشت، ایڈمنسٹریشن، ٹیکنیکل اور تحقیقاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے سکیں، مطلب جدید معیشت (کولونیل مالک کی بڑی کمپنیوں کو موقع دینا) جدید پبلک ایڈمنسٹریشن (کولونیل سیاسی ڈھانچہ) اور جدید ٹیکنیکل ڈھانچہ، (پُل، ڈیم اور اسی قسم کی عمارتیں کہ جو کولونیل دور میں تھیں۔) اور اگر ممالک آزاد ہونا بھی چاہتے ہیں تو اس صورت میں بھی جدیدیت کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ ممالک یورپی کارپوریشنز اور بینکوں کو اجازت دیں کہ ان کے ہاں سرگرم عمل رہیں اور ملکی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں اور اسے جدید کولونیل ازم کا نام دیا گیا۔

 اسی کے تحت 1959 میں جب کیوبا میں انقلاب آیا تو امریکہ نے لاطینی امریکہ میں ڈویلپمنٹ اور جدیدیت کے منصوبوں کو بہت زیادہ اہمیت دے کر مختلف پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کی۔ ہماری ریاست بھی اس کی بہترین مثال ہے کہ جو آزاد ہونے کے باوجو بھی آزاد نہیں کیونکہ یہاں کی نصابی کتب کولونیل ڈھانچے کے پس منظر میں ہی لکھی جاتی ہیں۔ یہاں کی معیشت، ایڈمنسٹریشن ، فیوڈل لارڈز سائنسی تحقیقاتی اور ٹیکنیکل ادارے سب کولونیل طاقتوں کے تسلط میں ہیں۔ یہ وہ تاریخ ہے کہ جو سچ جھوٹ کر کے ہماری نصابی کتب ہمیں پڑھائی پائی جاتی ہے۔ یورپی ممالک میں جب مذہبی اداروں کی اجارہ داری قائم تھی تو یہ تعلیم دی جاتی کہ صرف انہیں علاقے کے لوگ صیح معنوں میں انسان ہیں کیونکہ دوسرے علاقے کے انسانوں کو مختلف بنایا گیا ہے جنہیں یا تو مسخ شدہ یا ادھ کچا انسان کہا جائے تو بہتر ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ عیسائی خدا نے اس دنیا کو بنایا اور اب وہی اس کے کاروبار کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سیکولر تاریخ پڑھائی جانے لگی تو اب نصاب کی کتب میں اب ریاست نے اپنی اجارداری قائم کی اور اس کے مطابق ایشیائی ممالک کے کلچر کو ارتقائی طور پر متحرک دکھایا گیا۔ مگر اس بات پر ہی زور دیا گیا کہ تاریخ کی ترقی کا پورا عمل یورپ  سے ابھرا اور یہیں سے دنیا میں پھیلا۔ یورپی مرکزیت کا نظریہ پیش کیا گیا جس نے سرنگ تاریخ کی بنیاد رکھتے ہوئے تاریخ کو اندرونی اور بیرونی دنیاؤں میں تقسیم کر دیا۔ غیر یورپی دنیا کو باکل نظرانداز کر دیا گیا۔ یورپی مرکزیت کی حمایت میں نفوذ یا ڈفیوژن کا نظریہ ابھر کر سامنے آیا جس کے مطابق عظیم تر یورپ ہی وہ واحد مرکز ہے جہاں تہذیب و تمدن پیدا ہونے اور اپنے اطرافی علاقوں میں پھیل گیا۔ کلاسیکل نفوذ اور پھیلاؤ کے نظریہ نے کلاسیکل کولونیل ازم کو فروغ دیا اور نصابی کتب میں اس کی وجوہات یہ بیان کی گئی کہ۔

ایک۔ جن ملکوں میں آبادیاتی نظام قائم کیا گیا، ان علاقوں میں بہت کم آبادی تھی۔ اور زیادہ تر لوگ خانہ بدوش تھے اس لیے زمین پر ان کا کوئی حقِ ملکیت نہیں تھا۔ اس لیے یہاں یورپی آبادیاں بسانا جائز ہے۔

دو۔ نوآبادیات کی زمینوں کو اس بنیاد پر ہتھیا لیا گیا کہ یہ کسی کی کل ملکیت نہیں تھی کیونکہ ان میں نجی جائیداد کے ادارے نہیں ہیں۔لہٰذا یہ تہذیبیں ابھی اپنے ارتقائی عمل میں ہیں، اس لیے لوگوں کو ذہنی طور پر بالغ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں سرمایہ دارانہ نظام کو روشناس کرایا جائے۔

 تین– نصابی کتب میں مشرقی مطلق العنانیت کی اصطلاح کو بھی استعمال کیا گیا کہ ان معاشروں میں بہت سی اخلاقی کمزوریاں تھیں۔ ان میں آزادی کی کمی اور ظلم واستبداد تھا اور ان اخلاقی کمزوریوں کے باعث یہ معاشرے ترقی کے قابل نہ تھے۔

 یہاں یہ سوال قابل غور تھا کہ اگر تہذیبیں کرپشن میں مبتلا تھیں تو ماضی میں انہوں نے ترقی کیوں کی اس تہذیب تمدن میں بے بہا اضافے کیوں کر کیے ؟ مفکرین اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ ترقی عیسائی مذہب کے آنے سے پہل کی ہیں اور جب عیسائیت آئی اور یہ اس کی رحمت سے دور رہے تو اس کے نتیجے میں یہ معاشرے زوال پذیر ہو کر عبرت کا نمونہ بن گئے۔ عام طور پر افریقی کالے باشندے (سیاه فام) کو اس طرح کولونیل ازم اور اس کے پھیلاؤ کو فطری عمل بتایا جاتا ہے اور اس دور میں ہونے والا ہر ظلم، تشدد، استحصال سب فطری شعوری اور عقل کی بنیاد پر تھا اور اس طرح آج جدید پھیلاؤ ڈفیوژن کے نظریے نےجدید کولونیل ازم کو فروغ دیا، جس کے مطابق ان افکاروخیالات پر یقین دہانی ہے کہ سابق نو آبادیات کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سابق کولونیل ملکوں سے سائنسی اورٹیکنالوجیکل مدد لے کیونکہ یہ ہی ترقی کا راستہ ہے۔تاریخ کے تمام شعبوں میں اعداد و شمار کو استعمال کرے۔مذہبی اور سیاسی قومی مفادات اور نظریات سے بالاتر ہوکر تاریخ کے بارے میں نتائج کو اخذ کرے۔ اگر حقائق کو صحیح طور پر قلم بند کیا جاۓ تو تاریخ ایک مثبت سوچ پیدا کرتی ہے جو ماضی کی غلط فہمیاں بھی دور کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تعصب، نفرت، نسلی تفاخر، جھوٹی اور کوکھلی نیشنل ازم، ہیروازم، مذہبی جنونیت کی بجائے رواداری اور روشن خیالی پیدا کرتی ہے۔

یہ مضمون اس سے قبل “طالب علم” میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: پنک فلوئڈ۔ این ادر برک ان دی وال
Pink Floyd – Another Brick In The Wall

Spread the love

Leave a Reply