رسمی تعلیم اور طبقاتی تقسیم

حسن عسکری

تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ والدین کیوں اپنی تمام تر ضروریات کا گلا گھونٹ کر اپناسب کچھ اپنے بچوں کی تعلیم پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ایک غالب اکثریت کا جواب یہی ہو گا کہ تعلیم سے بہتر روز گار میسر آتا ہے اور بہتر روز گار ہی آنے والی نسل کے لیے ایک بہتر طرز زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر نچلے اور متوسط طبقات کے ہاں تعلیم کا مقصد اپنی سماجی حیثیت کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ تعلیم در حقیقت سماجی تحرک (سوشل موبیلیٹی) کا ذریعہ بنتی ہے یا نہیں یہ بات تو طے ہے کہ رسمی تعلیم اپنی موجودہ شکل میں نہ صرف نوجوانوں کے مابین طبقاتی رجحانات کو فروغ دیتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں پدر سری نظام کو بھی پختگی بخشتا نظر آتا ہے۔

 یہ دعویٰ حقیقت سے دور لگے تو چند جیتی جاگتی مثالیں پیش ہیں۔ یہ رسمی تعلیم کے ادارے ہی ہیں جہاں نوجوانوں کی طبقاتی حس بیدار ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ امیر گھرانے کے طالب علم کو نہ صرف انتظامیہ بلکہ اساتذہ کی طرف سے بھی زیادہ توجہ ملتی ہے ۔ کسی تفر ی دورے پر جانے کا موقع ہو یا کلاس کی کوئی مشترکہ دعوت ہو ، ایسے طالب علم کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے جس کے پاس گاڑی ہو، ایسے ماحول میں ہی تو طبقاتی ناہمواری کا احساس پختہ ہوتا ہے اور تعلیم سے معاشی بہتری کے خواب کو جلد از جلد یقینی بنانے کی امنگ بھی پختہ تر ہو جاتی ہے۔

ریاست نے اپنا ہاتھ تعلیم سے اٹھایا تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی آمد ہوئی ، جنھوں نے تعلیم کو ایک منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے اور بڑے بڑے صنعت کاروں نے اس شعبہ میں سرمایہ کار کی ایک منافع کی نیت سے کیا ہے۔ اب رہا سوال سرکاری یونیورسٹیوں کا تو وہاں پر بھی صورتحال کچھ یوں ہے کہ آئے روز بڑھتی فیسوں نے نچلے طبقے کو تعلیم سے نکال باہر کیا اور اگر کوئی بے چارا اس طرف آ نکلے تو فیسیں اس امید پر بھرتا ہے کہ کل کو یہی فیسیں کسی بہتر روز گار کے نتیجے میں واپس آ جائیں گی اور اب نوکریاں محدود ہونے کی وجہ سے یہ امید بھی چھنتی جارہی ہیں۔ ان سب عوامل کا حتمی نتیجہ تعلیم اور سماج سے بیزاری کی صورت میں نکلتا ہے۔

 یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ مردانہ استحقاق بھی رسمی تعلیم کے اداروں میں پروان چڑھتا ہے۔ کسی بھی کیمپس میں طالبات کبھی ان آزادیوں کے حصول کا تصور بھی نہیں کر سکتیں جو آزادیاں مرد طلبہ کو حاصل ہوتی ہیں۔ طالبات کے بال سر شام بند ہو جاتے ہیں۔ جائے ضروریات کے لیے انتظامیہ کی کڑی پابندیوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں راولپنڈی کے ایک گرلز ہاسٹل میں ایک لڑکی کی موت صرف اس وجہ سے واقع ہوئی کہ اسے طبیعت خراب ہونے کے باوجو رات کے وقت ہاسٹل سے باہر نہیں جانے دیا گیا۔ یہ اور اس جیسے کئی واقعات جہاں اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ سیکیورٹی کے نام پر کیسے طالبات کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کو کنٹرول کرنے کے لیے کس قدر منافقانہ ( الگ الگ) معیارات روا رکھے جاتے ہیں۔ ان سب پابندیوں کا مشترکہ اثر یہ ہوتا ہے کہ دونوں اصناف کے درمیان تفریق فکری ڈھانچوں میں سرایت کر جاتی ہے اور تاحیات ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسمی تعلیمی اداروں میں ایسا کیا کیا جائے کہ طبقاتی اور صنفی ناہمواریوں کے رستے میں بند باندھا جا سکے ۔ اس جانب پہلا قدم تو اسی روز ممکن ہو گا جب طلبہ و طالبات کو ڈسپلن اور سیکیورٹی کے نام پر کنٹرول کرنے کی بجائے انہیں ایک اہم سوشل ایکٹر کے طور پر دیکھا جائے۔ ان کے اندر مختلف فکری رحجانات کو دیکھتے ہوئے مشترکات کی بنیاد پر منظم ہونے کا موقع دیا جائے۔

 اس ضمن میں سب سے اہم ذمہ داری تو خود ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تعلیم سے اہم شعبے میں چند طبقات کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے ۔ تعلیم پر زیادہ خرچ کرے تاکہ فیسوں میں کمی سے نچلے طبقات میں نظام سے بالعموم اور نظام تعلیم سے بالخصوص اجنبیت پیدا نہ ہو، تعلیم محض روزگار کے حصول کا ہی ایک ذریعہ نہ بنے بلکہ ایک مسلسل سماجی تحریک کے طور بھی سامنے آسکے ، مگر جس ریاست پر غلبہ ہی سماج کے بالادست طبقات کا ہو، وہ ریاست بھلا ایسی تبدیلیاں کیوں کر لانے کی حماقت کرے گی۔ لہٰذا ریاستی پالیسیوں میں عوام دوست ( بالخصوص) تعلیم دوست تبدیلی کے لئے ریاستی عملداری کا محنت کش طبقات کے ہاتھوں میں ہوتا ایک نا گزیر حقیقت ہے۔

یہ مضمون اس سے قبل شاگرد آواز میں شائع ہو چکا ہے۔
آرٹ ورک: دا ویلتھ پریڈ۔ایلا فرنیس

Spread the love

Leave a Reply